کالم

عزت سے ذلت کا سفر !

نومبر 23, 2016 3 min

عزت سے ذلت کا سفر !

Reading Time: 3 minutes

حامد خان پاکستان کے چند نہایت ہی قابل اور بہت ہی لائق احترام وکلاء میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں شرافت، متانت اور انکسار کا استعارہ کہنا قطعا بے جا نہ ہوگا۔ نہایت شائستہ اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے انسان ہیں۔ وکالت جیسے پیشے سے ہو کر جس درجے کی عزت انہیں میسر آئی ہے اس کی صرف حسرت ہی کی جا سکتی ہے۔ کبھی طیش میں نہیں آتے اور کبھی غلط بیانی نہیں کرتے۔ ان کے بدترین مخالفین بھی خود کو ان کے احترام پر مجبور پاتے ہیں۔ ان کی لکھی کتب پاکستان کے مختلف لاء کالجز کے نصاب میں شامل ہیں اور انہیں "استاذ الوکلاء” کے خطاب سے پکارا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے کئی ججز بھی ان کے شاگرد ہیں۔ بطور وکیل آئینی امور ان کا تخصص ہیں۔ وکلاء برادری میں ان کا اثر اتنا گہرا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کے حوالے سے ہر سال میڈیا میں گفتگو ہی اس پر ہوتی ہے کہ حامد خان گروپ جیتے گا یا عاصمہ جہانگیر گروپ۔ وہ خود دو بار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسل کے بھی صدر رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے وکیل بھی رہے۔ وہ میڈیا کے سامنے آ کر منافقانہ گفتگو کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، یہ ان کا مزاج ہی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ حامد خان کمرہ عدالت میں ایک کمزور کیس کے سبب اچھی پرفارمنس نہ دے پائیں اور باہر آ کر میڈیا سے کہیں "آج کی سماعت پر مجھے بہت خوشی ہوئی” ہم سب جانتے ہیں کہ وہ عام حالات میں بھی میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں ورنہ سپریم کورٹ میں تو کیمرے مستقل بنیاد پر لگے ہوتے ہیں اور بہت سے شوقین ان کیمروں کے سامنے آنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ حتیٰ کہ جنہیں بولنا نہیں آتا وہ کسی بولتے وکیل کے پیچھے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کم از کم شکل ہی ٹی وی پر آجائے۔ حامد خان تحریک انصاف کے ان دو رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کی زبان سے کبھی اخلاق سے گرا لفظ نہیں سنا گیا۔ ایسے قابل اور بہت ہی عزت دار وکیل کو پارٹی احکامات پر ایک ایسے مقدمے میں پیش ہونا پڑا جس کے ثبوت ہی پارٹی کے پاس نہیں ہیں۔ انہیں کیس چھوڑنا پڑا۔ یہ حامد خان کی پسپائی نہ تھی بلکہ ان کی شرافت کا تقاضا تھا کہ اس کیس سے الگ ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنی عزت کی پروا نہ کرنے والی قیادت ان کی عزت بھی نیلام کرا دے گی۔

بابر اعوان کا ذکر پہلی بار میں نے 2002ء کے الیکشن کے دوران سنا جب وہ اسلام آباد کی ایک سیٹ سے پی پی پی کے امیدوار تھے۔ میرے سکول میں ایک وکیل صاحب کے بچے پڑھتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا "سنا ہے یہ بابر اعوان وکیل ہیں اگر آپ ان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو بتائیں۔ وکیل صاحب نے فرمایا "یہ وہ وکیل ہے جو اپنے موکل سے پوچھتا ہے، کیس لڑنا ہے یا جیتنا ہے ؟ موکل فرق پوچھتا ہے تو یہ کہتے ہیں، اگر لڑنا ہے تو صرف میری فیس ہوگی اور نتیجہ کچھ بھی آ سکتا ہے۔ اگر جیتنا ہے تو جج کی بھی فیس ہوگی تم کیس جیت جاؤگے” مجھے اس بات پر یقین ہی نہ آیا۔ میری ایک دو اور وکلاء سے بھی جان پہچان تھی، ان سے یہی سوال کیا تو وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ اس کے مشہور ڈائیلاگ "ککھ نئیں ہلیا” کی تفصیل میں کچھ روز قبل آپ کو بتا چکا ہوں اور آپ میں سے پنجابی دوست اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جملے کی معنویت کیا ہے۔ اس سے آپ ان کے اخلاق کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ یہ خواجہ آصف کے انتخاب والے کیس میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے وکیل تھے۔ کیس ہار کر نکلے تو ٹی وی کیمروں کے سامنے آ کر فرمایا "میں بس ایک حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہوں گا جس کا مفہوم ہے کہ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس میں امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ قانون ہو” یہ بے شرمی اس لئے ہے کہ پی ٹی آئی کے جس عثمان ڈار کے یہ اس کیس میں وکیل تھے اس "غریب” کی غربت کا یہ عالم ہے کہ موصوف کو اس کیس کی فیس صرف 50 لاکھ روپے ہی دی ہے۔ میں نے کئی سال سے سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے اپنے رپورٹر دوست سے پوچھا کہ بابر اعوان کے آنے سے عمران خان کے کیس پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں ؟ اس دوست کا جواب تھا "ایک بات یاد رکھو ! پاکستان کے تمام ججز دو وکلاء سے بے انتہاء نفرت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نعیم بخاری اور دوسرا بابر اعوان ہے۔ ایسے وکلاء کو ججز کے سامنے کھڑا کرنا اپنی قبر کھودنا ہے لیکن کیس پہلے ہی بے جان ہے، ثبوت مانگنے کے باوجود پیش نہیں کئے جا سکے، بابر اعوان کو صرف گند مچانے کے لئے لایا گیا ہے جو کورٹ روم میں بھی مچایا جا سکتا ہے اور میڈیا کیمروں کے سامنے بھی” اب ایسے میں اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ حامد خان سے بابر اعوان پر آنا درحقیقت عزت سے ذلت کا سفر ہے !

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے