کالم

سفارت کاری ایک پیچیدہ دھندا

نومبر 24, 2016 5 min

سفارت کاری ایک پیچیدہ دھندا

Reading Time: 5 minutes

محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں افغانستان سے جڑے معاملات سے نبردآزما ہونے کے لئے کلی اختیارات اس وقت کے وزیر داخلہ – جنرل (ریٹائرڈ)نصیر اللہ بابر کو سونپ دئیے گئے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا تفصیلی جواب میرے پاس موجود ہے مگر اسے بیان کرنا شروع ہوگیا تو جو بات آج اس کالم کے ذریعے کرنا چاہ رہا ہوں، ہو نہیں پائے گی۔

بہرحال چمن کی سرحد سے پاکستان کا کچھ سامان لے کر ٹرکوں کا ایک قافلہ 1994ء میں براستہ افغانستان ترکمانستان جارہا تھا۔ پاکستان اس کے بدلے ترکمانستان سے کپاس حاصل کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ ہمارے ہاں اس سال کپاس کی فصل سنڈی نے تباہ کردی تھی۔ کپڑا تیار کرنے والے ہمارے کارخانے اس وجہ سے تقریباََ بند ہورہے تھے۔ سب سے زیادہ نقصان ان چھوٹے صنعت کاروں کا ہورہا تھا جو کپاس سے دھاگہ بناکر کپڑا تیار کرنے والوں کو فراہم کرتے ہیں۔ان میں سے اکثر پیپلز پارٹی کے حامی بھی ہوا کرتے تھے۔
پاکستان سے روانہ ہوئے قافلے کو مگر قندھار پہنچنے سے قبل ہی لوٹ لیا گیا۔ اس لوٹ کے بنیادی ذمہ دار’’مجاہدین‘‘ کے وہ کمانڈر تھے جنہیں کئی برسوں سے پاکستان نے امریکی اسلحہ اور سعودی سرمایے کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لئے تیار کیا تھا۔ ’’مجاہدین‘‘ کی بے وفائی نے پاکستان کو حواس باختہ کردیا تو ملاعمر کی قیادت میں دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا ایک گروہ نمودار ہوگیا۔ اس گروہ نے افغانستان کو ’’مجاہدین‘‘ سے آزاد کروانے کا فیصلہ کیا جن کے بیشتر کمانڈر چھوٹے چھوٹے علاقوں میں ’’وارلارڈز‘‘ کی صورت اختیارکرچکے تھے۔
میں ٹھوس معلومات کی بنیاد پر اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا کہ بابر صاحب نے طالبان کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ یہ بات البتہ حقیقت ہے کہ طالبان کے نمودار ہونے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ان کو ہر نوعیت کی معاونت فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس حکومت کو فاروق خان لغاری کے ہاتھوں فارغ کروادینے کے باوجود پاکستان کی ہر حکومت نے نائن الیون تک یہ معاونت بھرپور انداز میں برقرار رکھی۔
طالبان کے نمودار ہونے اور نصیر اللہ بابر کے ذریعے ان کی سرپرستی کی وجوہات اور تفصیلات سے میں خوب واقف تھا۔ انگریزی اخبارات کے لئے خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے میں ان کے بارے میں تکرار کے ساتھ لکھتا بھی رہا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی اور سفارتی سرگرمیوں کے بارے میں لکھے اپنے کالموں میں البتہ میں طالبان پر مسلسل تنقید کرتا رہا۔ مجھے یہ بات خاص طورپر ہضم نہیں ہوپارہی تھی کہ خود کو ’’لبرل‘‘ وغیرہ کہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو طالبان ایسے ’’بنیاد پرستوں‘‘ کی سرپرستی کیوں فرمارہی ہیں۔
محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں اس بات کو اس وقت تک ہرگز جان نہیں پایا تھا کہ سفارت کاری ایک بہت پیچیدہ دھندا ہوتی ہے۔ اس میں نظریاتی بنیادوں پر سیاہ اور سفید میں کوئی واضح تقسیم نہیں ہوتی۔ ہر ملک کے کچھ مفادات ہوتے ہیں جنہیں قومی مفادات کہا جاتا ہے۔ ان مفادات کے حصول کے لئے ایک شے کہلاتی ہے Leverage،جسے سفاکی اور مہارت کے ساتھ استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو انگریزی اخبارات کی ایک باقاعدہ اور سنجیدہ قاری تھیں۔ طالبان کے ضمن میں ان کی پالیسی پر میری تنقید انہیں ناراض کردیتی۔ اپنے غصے کو انہوں نے لیکن کبھی ناقد صحافیوں کو ’’غدار‘‘ اور ’’قومی مفادات کا دشمن‘‘ وغیرہ ثابت کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ جب بھی موقع ملتا،اکیلے میں بیٹھ کر ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی پالیسی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتیں۔
بابر صاحب بھی میرے مہربان بزرگ تھے۔ وہ بھی اپنے تئیں مجھے طالبان کی ’’خوبیاں‘‘ بیان کرنے کی کوششوں میں مبتلا رہتے۔کئی بار انہوں نے مجھے اس بات پر آمادہ بھی کرنا چاہا کہ میں افغانستان جاکر ملاعمر سے ملوں اور اس کی چلائی تحریک کابرسرِزمین حقائق کی روشنی میں مطالعہ کرنے کے بعد جو چاہے لکھوں۔ میں غچہ دے جاتا اور طالبان کے بارے میں اپنی سوچ پر ڈٹا رہا۔
دریں اثناء مجھے ایک بااثر ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی میں طالبان کے بارے میں ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت مل گئی۔ میں اس دعوت کے بارے میں بہت حیران ہوا کیونکہ مجوزہ سیمینار میں شریک ہونے والے تمام افراد دنیا کی مختلف مشہور یونیورسٹیوں کے نامی گرامی پروفیسر تھے۔ چند ایک نے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے بارے میں مستند سمجھی جانے والی کتابیں بھی لکھ رکھی تھی۔ میرے علاوہ کوئی اور صحافی وہاں مدعو نہ تھا۔ میں نے دیانت داری سے یہ سمجھا کہ شاید کسی نے یہ دعوت نامہ بھیج کر میرا مذاق اُڑایا ہے۔ رپورٹروں والا Double Checkکیا تو اصرار ہوا کہ مجھے اس سیمینار میں ہر صورت شریک ہونا چاہیے۔ میری شرکت کو یقینی بنانے کے لئے سفر کے لئے فضائی ٹکٹ بزنس نہیں بلکہ فرسٹ کلاس کابھی مل گیا۔
یونیورسٹی پہنچنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ مجوزہ سیمینار میں شرکت کی دعوت دینے والوں نے اخبارات کے بغور مطالعے کے بعد طالبان کے بارے میں میری جانب سے ہوئی رپورٹنگ کی وجہ سے میرا انتخاب کیا ہے۔ اس سیمینار کا اصل مقصد طالبان کے نمودار ہونے کے بعد تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر کی وجوہات کو سمجھنا تھا۔ وہاں مدعو کئے سکالرز کی زیادہ دلچسپی ان وجوہات پرمرکوز رہی۔
اس سیمینار میں مختلف عرب ممالک کی یونیورسٹیوں کے علاوہ اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر بھی موجود تھا۔ 70سے زائد برس کے اس عالم کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس یونیورسٹی میں بھاری تنخواہ سمیت ’’اعزازی‘‘ ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ عراق سے اسرائیل آیا یہ پروفیسر بہت متجسس تھا۔ رات گئے تک اس سیمینار میں آئے لوگوں کو سوالات اُٹھاکرطویل مباحثوں میں مصروف رکھتا۔ مجھ پر اس کی توجہ ضرورت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کی توجہ نے مجھے جبلی طورپر یہ طے کرنے پر مجبور کردیا کہ وہ اسرائیل کے جاسوسی ادارےMossadکا کوئی کائیاں کارندہ ہوگا۔ یہ طے کرنے کے بعد میں  کافی درشت اور بدتمیز انداز میں اس سے فاصلہ رکھنا شروع ہوگیا۔
ایک شب کی محفل میں لیکن اس نے ایک لمبی تقریر کے ذریعے ہمیں متنبہ کرنا چاہا کہ اسرائیلی سیاست پر وہاں کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ریٹائر ہوئے لوگوں نے قبضہ کرلیا ہے۔اسرائیلی سیاست پرایسے لوگوں کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے اب اس ملک کے میڈیا اور یونیورسٹی میں ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں یہودی شدت پسندی طاقت ور ہوتی چلی جائے گی۔فلسطین کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ عرب ممالک کو اسرائیل صرف دھونس کے ذریعے اپنے قابو میں رکھنے پر بضد ہونا شروع ہوجائے گا۔یاد رہے کہ ان خیالات کا اظہار اس نے 1996ء کے آغاز میں کیا تھا۔ 2016ء میں اس کی بتائی ہر بات مگر سچ ثابت ہورہی ہے۔
اسرائیل میں ابھرتے رویوں پر اس پروفیسر کی بے رحم تنقید نے مجھے حیران کردیا۔ وطن لوٹنے سے چند گھنٹے قبل مجھے ہوٹل کی لابی میں اس کے ساتھ کافی پینے کا موقع ملا تو میں نے بہت سادگی سے پوچھا کہ آیا وہ اپنے خیالات کا اظہار اسی انداز میں اپنے ملک میں بھی کرسکتا ہے۔ میرا سوال سن کر وہ چراغ پا ہوگیا۔ اس نے میرا ای میل ایڈریس لیا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اسرائیل کے انگریزی اخبارات میں چھپے اپنے مضامین مجھے بھجوائے گا۔ بعدازاں اس نے یہ مضامین مجھے بھجوائے بھی۔ وہ یقینی طورپر اپنے ملک میں ابھرتے رویوں کا شدید ترین ناقد ثابت ہوا۔
یہ مضامین پڑھنے کے بعد میں نے شکریے کے ای میل کے ساتھ اس سے یہ سوال پوچھ لیا کہ ایسی تنقید کے باوجود اسے بھاری تنخواہ کے ساتھ حیفہ یونیوسورسٹی میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئی ہیں۔ اس کا مختصر جواب تھا:’’ہماری حکومت،فوج اور انٹیلی جنس ادارے عوام کے دئیے ٹیکسوں سے چل رہے ہیں۔ وہ جو پالیسیاں بنائیں ان پر نگاہ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مجھے ایسی ہی نگاہ رکھنے کیلئے (بھاری) تنخواہ دی جاتی ہے۔‘‘
آج صبح اُٹھنے کے بعد یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے نجانے کیوں یہ سب یاد آگیا۔ میری کہی باتیں آپ کو یاوہ گوئی اور غیر متعلقہ لگیں تو معاف کردیجئے گا۔کبھی کبھار کالم لکھنے کو دل نہیں بھی چاہ رہا ہوتا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے