کالم

صادق و امین کون ہے؟

جنوری 9, 2017 5 min

صادق و امین کون ہے؟

Reading Time: 5 minutes

پانامہ پیپرز کیس میں ہم سب گول گول گھوم رہے ہیں۔ عمران خان کے وکیل، سپریم کورٹ کے پانچ جج اور درجنوں صحافی تین گھنٹے بیٹھتے ہیں، ایک بولتا ہے، پانچ سن کر سوال پوچھتے ہیں اور تیس چالیس لوگ لکھتے رہتے ہیں تاکہ پڑھنے، سننے والوں کو باخبر رکھا جاسکے۔ مگر ہر بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے جہاں سے شروع ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ایک موقع پر جسٹس عظمت سعید نے وکیل نعیم بخاری کو مخاطب کرکے پنجابی محاورہ بولنا چاہا مگر بہت کنٹرول کرکے صرف اتنا کہا کہ آپ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔
وکیل نعیم بخاری تو آج دلائل ختم کرکے جان چھڑانا چاہتے تھے اور انہوں نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ میں تو بھاگنا چاہتاتھا مگر آپ نے روکے رکھا ۔ سماعت کے آخر میں معاملہ صادق وامین نہ ہونے پر نااہلی کی طرف گیاتو بنچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاہے کہ معاملے کی سنگینی کا علم ہے، بہت محتاط ہو کر قانون وآئین کی منشا دیکھ رہے ہیں، جلد بازی میں ایسی تشریح نہ ہوکہ ہر کسی پر آرٹیکل 62 اور 63 لگنا شروع ہوجائے ۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے چوتھے روز اپنے دلائل میں مریم نواز کے ٹیکس گوشواروں اور نوازشریف کی جانب سے بیٹی کو دیے گئے 68کروڑ روپے بطور تحفہ دینے پر سوالات اٹھائے۔ نعیم بخاری نے کہا مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کاکوئی ذریعہ آمدن نہیں، یہ ان کے ٹیکس گوشواروں سے واضح ہے۔ مریم اپنے والد کے زیرکفالت ہے اس طرح لندن فلیٹوں کی ملکیت وزیراعظم کی بنتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اگر مریم نواز کے پاس نامعلوم ذرائع سے آمدن آئی ہے تو ہم پوچھیں گے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ٹیکس گوشوارے میں کہی بات پر کچھ ثابت نہیں ہوسکتا، ممکن ہے وہ تحائف سے انکار کردے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا شریف خاندان کا یہ مقدمہ ہی نہیں کہ قطر میں سرمایہ کاری کی گئی، وزیراعظم کی تقریرمیں بھی ایسی کوئی بات تھی اور نہ شریف بچوں نے عدالت میں اپنے تحریری بیانات میں قطر کے شیخ کا ذکر کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ممکن ہے مفروضہ ہو مگر آپ کے پاس لندن فلیٹوں کی مالک کمپنی نیسکول کی رجسٹریشن اور آغاز سے متعلق کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نہیں۔ وکیل نے کہا کیا اب ہم آگے بڑھ کر دوسرے معاملے کی جانب جاسکتے ہیں؟۔ جسٹس عظمت نے کہا کیا آپ میرے سوال کو نظر انداز کررہے ہیں؟ چلیں، آگے بڑھتے ہیں۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا وزیراعظم نے اپنے بیٹے حسین نواز سے کل 81 کروڑ کے تحائف وصول کیے۔ حسین نواز بیرون ملک رہتے ہیں مگر قومی ٹیکس نمبر رکھتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا جب یہ تحائف دیے گئے کیا ان پر ٹیکس ادا کیا گیا؟ اور کیا بیرون ملک رہائشی پاکستانی پر ٹیکس لگتا ہے؟۔ وکیل نے کہا اس نکتے پر مزید زور نہیں دوں گا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا جب بھی قانون کے مطابق سوال اٹھاتے ہیں آپ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وکیل نے کہا ممکن ہے یہ رقم پاکستان سے ہنڈی کے ذریعے گئی ہو اور وہاں سے حسین نے بنک کے ذریعے نوازشریف کو بھیجی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا دستاویزات سے بات کریں، سولہ سوال اٹھاتے ہیں، آپ ایک کا بھی جواب نہیں دیتے، تنگ گلی سے گزرجاتے ہیں، سوال اٹھانا غیر ضروری نہیں ، جواب دینا ضروری ہے تاکہ مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا اب اسحاق ڈار کا حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس میں منی لانڈرنگ کا اعترافی بیان پڑھوں گا، یہ ریفرنس لاہورہائیکورٹ نے تکنیکی بنیاد پرختم کیا تھا مگر چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کی۔ وکیل نے کہا اس معاملے میں چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس آصف کھوسہ کے درمیان قانون شہادت کی ایک شق کی تشریح اور دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیے گئے بیان پر دلچسپ مکالمہ شروع ہوگیا، دونوں ججوں کا مخاطب بظاہر وکیل نعیم بخاری تھے مگر وہ ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ جب وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ حدیبیہ ریفرنس تکنیکی بنیاد پر ختم کیاگیا، اسحاق ڈار کابیان درجہ اول کے مجسٹریٹ کے سامنے دیاگیا احتساب عدالت کے روبرونہیں دیاگیاتو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا 164کابیان کسی بھی مقدمے میں صرف مجسٹریٹ کے سامنے ہی ریکارڈ ہوسکتاہے، اس کے بعد جسٹس اعجاز افضل بولے کہ حدود سمیت کئی مقدمات میں اعترافی بیان صرف عدالت کے سامنے ہی ریکارڈ کیا جاسکتاہے مجسٹریٹ کے سامنے نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ بولے ہم 164 کے بیان کو دیکھ رہے ہیں جو صرف مجسٹریٹ کے سامنے ہی دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا اسحاق ڈار اس ریفرنس میں گواہ بن گئے تھے، ازسرنو تفتیش معاملے پر ججوں میں اختلاف ہوا جس کے بعد تکنیکی بنیادوں پرریفرنس ختم کرنے کا فیصلہ آیا، ملزم کو بری نہیں کیا گیا ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا آرٹیکل 187 کے تحت ہائی کورٹ فیصلے کے باوجود چیئرمین نیب کو تحقیقات کیلئے کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا لندن فلیٹس اور اسحاق ڈار بیان حلفی دو مختلف معاملات ہیں، بہتر ہوگا اس کیس کے ساتھ نہ اٹھائیں، حدیبیہ کیس ازسرنو کھولنے کیلئے نیب سے رجوع کریں۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا اب حسین نواز اور مریم کے درمیان لندن کی ٹرسٹ ڈیڈ کا جائزہ لیاجائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اس کو برطانوی قانون کے تحت ہی زیرغور لایاجاسکتاہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ٹرسٹ ڈیڈ پر ایک دستخط لندن اور دوسرے فریق کا جدہ میں ہوا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جب ٹرسٹ ڈیڈکے دونوں فریق متفق ہیں تو عدالت کیسے دیکھ سکتی ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا موزیک فونسیکا کے مطابق مریم مالک ہے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعل سازی کیلئے بنائی گئی، قطری شیخ کے خط کو نکال دیاجائے تو معاملہ کھل جائے گا۔ جسٹس عظمت نے کہا خط کو درمیان سے ہٹا دیں تو خلا رہ جائے گا۔ نعیم بخاری نے کہا لندن فلیٹس کی ملکیت نیسکول سے منروا کمپنی کے پاس کیسے آ گئی؟جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ شریف خاندان بتائے گا کہ نیسکول سے بیئریر سرٹیفیکیٹ کیسے بنے اور پھر منروا کمپنی کو فلیٹوں کے حصص کیسے اورکب ملے؟۔ یہ سچ کی تلاش کا سفر ہے ہمیں سوال پوچھنا پڑیں گے، پتہ نہیں دوسرے فریق سے جواب بنتاہے یا نہیں، دوسری طرف سے کوئی نہ کوئی اسٹوری تو آئے گی۔ وکیل نے کہا وزیراعظم نے لندن فلیٹس جدہ مل کی رقم سے خریدنے کا بیان دیا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تمام معاملات میں اصل مسئلے دیانتداری کا ہے، کہاجا رہا ہے کہ موقف ایک دوسرے سے متضاد ہیں، پوچھا جاسکتاہے کیا بولنے والا قوم، عدالت اور اسمبلی سے سچ بول رہاہے ، قانون و آئین کی منشا کو دیکھنا ہے، ہم بہت محتاط ہیں، اتنی گہرائی اور تفصیل میں اس لیے جارہے ہیں کہ معاملے کی سنگینی کاعلم ہے، جلد بازی میں کوئی ایسی تشریح نہ ہوجو ہرکسی پر لگناشروع ہوجائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان اسمبلی پر لگے گا، درخواست گزار سمیت کسی کا بھی کوئی بیان غلط نکلا تو نااہلی شروع ہوجائے گی، اس عدالت میں کھڑا کوئی شخص بچ نہیں پائے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہم نے کوئی طریقہ کار اور حدود وقیود طے کرناہیں، اگرصرف الزامات پر رہے تو صرف سراج الحق صاف بچ جائیں گے باقی کسی نے نہیں بچنا، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں ازراہ مذاق کی ہیں کیونکہ وکیل اور ہم سب تھک گئے ہیںاس لیے سنجیدہ نہ لی جائیں۔ جسٹس آصف کھوسہ تو یہ کہہ کر عدالت برخاستہ کرکے چلے گئے مگر ہماری توقع کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر اس ’تمغے‘ کو گلے میں لٹکائے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے مخاطب ہوئے، بولے سپریم کورٹ نے کہاہے کہ باسٹھ تریسٹھ پر صرف سراج الحق پورا اترتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا ۔ ہم گناہ گاروں کا کیا بنے گا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے