کالم

آئین، قانون اور وکیلوں کے مزے

جنوری 13, 2017 4 min

آئین، قانون اور وکیلوں کے مزے

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
اعلی عدالتوں کے ماضی کے فیصلے قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ اچھا وکیل اگر تیاری کرے تو وہ پرانے مقدمات کے فیصلوں کے حوالے دیتا ہے۔ عدالتی فیصلوں کی مثالیں دینے سے مقدمہ سننے والوں ججوں کو بھی فائدہ ہوتاہے، ان کو کسی قانون کی نئے سرے سے تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر جج کوئی نیا سوال اٹھاتاہے تو وکیل کہتا ہے آپ نے پہلے یہ فیصلہ دیاتھا اس کو بھی دیکھ لیجیے، نئے فیصلے کے اثرات ہوں گے۔ ایک طرح کے مقدمے میں دو مختلف فیصلے نہیں دیے جاسکتے۔ پانامہ کیس میں وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے آج سپریم کورٹ میں ڈیڑھ گھنٹے کے دلائل میں پانچ ججوں کو ماضی کے درجن بھر فیصلوں کے حوالے دیے اور پڑھنے کیلئے ان پرتین دن کا بوجھ لاد دیا ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا آئین و قانون میں عوامی نمائندوں کی اہلیت اور نااہلی کیلئے معیار درج ہے جس کو آرٹیکل باسٹھ ون ایف بیان کرتاہے، عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ننانوے بھی اسی کے مطابق ہے۔ وکیل نے کہا کسی بھی عوامی نمائندے کو نااہل ثابت کرنے کیلئے پہلے صادق وامین نہ ہونا ثابت کرنا پڑے گا اور اس کیلئے عدالت سے سزادلوانا ہوگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا یہ مرحلہ کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع کرتے وقت ہوتاہے جو گزر گیا اس کے بعد یہ معاملہ صرف ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرکے اٹھایا جاسکتاہے اور اس پر اپیل میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتاہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کیا عدالت پہلے الزام پر فیصلہ دے گی تب آگے بڑھے گی۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا قانون یہی کہتا ہے، پہلے کسی رکن اسمبلی کے خلاف فیصلے میں اسے سزا ہوگی جس پر نااہلی کیلئے اسپیکر کے سامنے ریفرنس داخل ہوگا اور اس کے بعد الیکشن کمیشن یا ہائیکورٹ میں اپیل ہوگی اور آخرمیں مقدمہ اپیل میں سپریم کورٹ سنے گی۔
وکیل مخدوم علی خان عدالت میں جعلی ڈگری اور غلط بیانی کے تحت دس سے زیادہ ارکان کو نااہل قراردینے کے فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔ وکیل نے کہا یہ ارکان پہلے الیکشن ٹریبونل یا ہائیکورٹ نے نااہل کیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے اپیل میں فیصلے دیے، پہلے مرحلے میں ڈگری کا جعلی ہونا طے ہوا، دوسرے مرحلے میں نااہلی کا فیصلہ آیا۔ سب سے دلچسپ حوالہ لودھراں کے حلقے کی الیکشن درخواست کا تھا۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور ن لیگ کے صدیق بلوچ کے مابین جعلی ڈگری اور الیکشن دھاندلی کے مقدمے میں ٹریبونل نے رکن قومی اسمبلی صدیق بلوچ کو نااہل قرار دیا تھا۔ مقدمے کا خوبصورت پہلو یہ تھا کہ اپیل سنتے ہوئے سپریم کورٹ نے صدیق بلوچ سے انگریزی میں پولیٹیکل سائنس کا سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمجھ نہیں آئی، حالانکہ صدیق بلوچ نے بی اے میں یہ بطور مضمون پڑھاتھا۔ اس کے باوجود سپریم نے ڈگری جعلی قرار دینے کے ٹریبونل کے فیصلے کو ختم کر دیا تھا کیونکہ یونیورسٹی کے ریکارڈ میں صدیق بلوچ نے امتحان دیا تھا اور ڈگری درست تھی۔ سپریم کور ٹ نے الیکشن میں بے ضابطگی کے ٹریبونل کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا۔ اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ قانون کے مطابق کس طریقے سے فیصلہ دیتی ہے۔ وکیل نے کہا سپریم کورٹ نے اسی وجہ سے صدیق بلوچ کو نااہل قرار نہیں دیا۔
مخدوم علی خان نے کہا پرویزمشرف کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر نے مسترد کیے جس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل ہوئی، پرویزمشرف کے نااہلی کے فیصلے کو ہائیکورٹ نے برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں پرویزمشرف کے صادق وامین نہ ہونے کا حکم صادر کر چکی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہم یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں کہ جب کسی رکن کے خلاف فیصلہ موجود ہو تب ہی اسے صادق وامین نہ ہونے پر نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کھل کر کھیلنا شروع کیا۔ انہوں نے گزشتہ برس دیے گئے سپریم کور ٹ کے فیصلے کو پڑھنا شروع کیا۔ یہ مقدمہ تحریک انصاف کے رہنما اسحاق خاکوانی نے دائر کیا تھا۔ مقدمہ یہ تھاکہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں عمران وقادری کے فوج کے سربراہ سے ملاقات پر بیانات دیے جبکہ فوج کے ترجمان نے اس کے برعکس موقف اپنا کر ٹویٹ کیا اس لیے وزیراعظم غلط بیانی کے مرتکب ہوئے اور صادق وامین نہیں رہے۔ وکیل نے کہا سپریم کورٹ وزیراعظم نواز شریف کی اس اسمبلی تقریر پر فیصلہ ان کے حق میں دے چکی ہے، عدالت عظمی نے تفصیلی فیصلے میں تمام امور کا جائزہ لیا۔ یہ عدالت عظمی کے سات ججوں کا فیصلہ تھاجس میں آرٹیکل باسٹھ ون ایف کو ڈراﺅنا خواب اور ابہام سے بھرا قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں کہا تھا آئین کے مطابق نااہلی کیلئے پہلے کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہونا ضروری ہے، تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس فیصلے میں الگ سے تین سوال بھی اٹھائے تھے جن کی آج تک تشریح نہیں ہوئی، سوال تھے کہ صادق وامین کا فیصلہ دینے والی عدالت کونسی ہوگی، اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اور کیس میں ثبوت وشواہد کا معیار کیا ہوگا؟۔ مخدوم علی خان نے جسٹس آصف کھوسہ سے کہا اس فیصلے میں آپ کا صادق وامین کے بارے میں ایک نوٹ موجودہے جس میں آپ نے برسوں قبل لکھا اپنا ایک مضمون بھی شامل کیاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے اس مضمون میں لکھا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ارکان اسمبلی کیلئے درج اہلیت کا معیار آسمانی ہے اور زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کیلئے ترمیم ہونی چاہیے۔ وکیل نے 32 صفحات کے عدالتی فیصلے میں سے جسٹس آصف کھوسہ کے مضمون کے اقتباس ایسی خوبصورتی سے سنائے کہ قانون کے طالب علموں کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ روشن ہوتی رہی اور جج خاموشی سے سنتے رہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے یہ طویل مضمون 1988 میں ایک قانونی رسالے میں لکھا تھا اور اس کو بعد میں اپنے مختلف فیصلوں میں شامل کیا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اٹھارویں ترمیم میں طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا اور عدالتی فیصلے کے بعد ہی کسی کو نااہل کیا جاسکتاہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا اس آئینی ترمیم میں طریقہ کار تبدیلی کی شق ڈالنے والے اراکین پارلیمان میں شامل ایس ایم ظفر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’یہ قوم کیلئے ڈراﺅنا خواب ہوگا مگر وکیلوں کیلئے زبردست فصل ہوگی‘ ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے وکیلوں سے بھری عدالت میں اس پر جملہ پھینکتے ہوئے کہا یہ فصل بہت اچھی طرح سے کاشت کرکے کٹائی جاری ہے۔
اب آپ کو سمجھ آئی کہ ملک میں وکیلوں کے مزے کیوں ہیں؟۔ اس لیے کہ وہ پارلیمان میں بھی موجود ہوتے ہیں اور ابہام سے بھرپور قوانین بناتے ہیں اور پھر عدالتوں میں بھاری فیس وصول کرکے من مرضی کی تشریح کرتے پھرتے ہیں۔  پاکستان زندہ باد

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے