کالم

کمرہ عدالت نمبر دو سے

جنوری 18, 2017 6 min

کمرہ عدالت نمبر دو سے

Reading Time: 6 minutes

اے وحید مراد
کارروائی کے آغاز پر جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ نئی درخواست دائر کردی ہے جس میں وزیراعظم کی نااہلی کی استدعا ہے۔ عدالت نے جماعت اسلامی کی درخواست پر اٹارنی جنرل اور فریقین کو نوٹس جاری کرنے کا حکم لکھوایا۔ پھر بولے جب وزیراعظم کے وکیل اپنے دلائل مکمل کرلیں گے تو جماعت اسلامی کے وکیل کو سنیں گے، جماعت کی پہلے سے دائر درخواست کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا۔
وزریراعظم کے وکیل کے دلائل کامرکزی نکتہ حسین نواز کی جانب سے اپنے والد کو تحائف اور ان پر ٹیکس کی ادائیگی، اور مریم نواز کے وزیراعظم کے زیرکفالت ہونے کا تھا۔ مخدوم علی خان نے پہلے عدالت کو یہ بتایا کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے درمیان رقم کا تبادلہ بنکوں کے ذریعے ہوا۔ وزیراعظم نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اس کی تفصیل درج کی ہے جو عدالت کے سامنے پیش کردیے ہیں، وزیراعظم کے اکاﺅنٹ سے مریم نواز کے بنک میں 31ملین روپے گئے ریکارڈ موجودہے، جب رقم بنک کے ذریعے گئی تو غیر قانونی ذرائع اور ٹیکس چھپانے ا لزام غلط ہے۔ حسین نواز نے وزیراعظم کو 20کروڑ بھیجے، یہ تحفہ ہے جبکہ درخواست گزار الزام لگاتاہے کہ دیگر ذرائع سے آمدن میں شمار کرکے ٹیکس نہ دینے پر نااہل کیاجائے، بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم پر ٹیکس نہیں لگتا اور لاکھوں پاکستانی اس طرح ملک میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں، حسین نواز کے پاس قومی ٹیکس نمبر ہے، یہ رقم تحفہ ہی تھی اور اس کو آمدن میں شمار نہیں کیاجاسکتا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ قانون سب کیلئے ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم پر ٹیکس نہیں لگتا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا عدالت کے سامنے ان بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات اور دستاویزات موجود نہیں۔ وکیل نے کہا ٹیکس گوشوارے پیش کیے ہیں، چاہوں گا کہ عدالت عوامی مفاد کے قانون کے تحت سنے جانے والے مقدمے میں کسی بھی شہری کے بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات عام نہ کرے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اسی طرح کے ٹیکس گوشوارے درخواست گزار نے بھی پیش کیے ہیں، ان دستاویزات کو معائنے اور تصدیق کے بغیر کیسے قبول یا مسترد کیا جاسکتاہے؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا وزیراعظم کو بیس کروڑ کا تحفہ ملا تو بھیجنے والا کہاں تھا اور اس کے پاس رقم کن ذرائع سے آئی؟۔ وکیل نے جواب دیاحسین نواز نے رقم سعودی عرب سے بھیجی اور وہاں کاروبار کرتاہے، اس رقم کے آنے کا بنک ریکارڈ موجود ہے۔ جج نے پوچھا کیا حسین نواز سعودی عرب میں ہی رہتے ہیں وہاں کیا کاروبار کرتے ہیں؟۔ مخدوم علی خان نے کہا ان کے بہت سے کاروبار ہیں، ان کے وکیل تفصیل بتائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا بیرون ملک رہنے والے کا نیشنل ٹیکس نمبر کب تک کارآمد رہ سکتاہے؟۔ وکیل نے کہا مرنے کے بعد بھی ٹیکس نمبر کارآمد رہتاہے جب تک حکام کو کہہ کربند نہ کرایاجائے۔ وکیل نے کہا آمدن کے تمام ذرائع قانونی ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا عمومی طور پر کالادھن باہر بھیج کر قانونی ذرائع سے واپس منگوائی جاتی ہے۔ وکیل نے کہا ایسا ہوتاہے اور اس پر کارروائی کیلئے قانون موجود ہے، دوسرے ممالک کو شکایت ہوتو ہماری حکومت سے رابطہ کرسکتے ہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کی رحمان ملک کی رپورٹ بھی تھی مگر اس مقدمے میں ہم اب اس کی تفتیش و تحقیق کرانے کی طرف نہیں جاسکتے کیونکہ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیدیاتھا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا درخواست گزار نے منی لانڈرنگ کے اسحاق ڈار کے بیان حلفی کا معاملہ بھی اٹھایا تھا ، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے مقدمہ ختم ہونے کے بعد نیب نے اس پر اپیل نہیں کی جس کیلئے درخواست گزار نے چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کی استدعا بھی کی ہے۔ وکیل نے کہا ہمیں شامل تفتیش نہیں کیا گیاتھا اس لیے ہائیکورٹ نے مقدمہ ختم کیا، معاملہ 1999سے 2007تک کا تھا، اس مقدمے میں درخواست گزار نے 2011سے چار سال تک ٹیکس چھپانے الزام لگایا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر عدالت چیئرمین نیب کو حدیبیہ پیپرز مل کیس میں اپیل دائر کرکے تفتیش کیلئے کہتی ہے تو وزیراعظم بھی دیگر ملزمان کے ساتھ ایک ملزم ہو ں گے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا ٹیکس چھپانے کا الزام ثابت کرنا ضروری ہوتاہے اس حوالے سے سپریم کور ٹ کے فیصلے موجود ہیں صرف مفروضے پر فیصلہ نہیںہوتا ۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کی نااہلی آرٹیکل تریسٹھ ون او کے تحت مانگی جارہی ہے جس کی شرط سرکاری بلوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹر ہوناہے، اس طرح یہ قانون وزیراعظم پر ٹیکس کے معاملے میں لاگو ہی نہیں ہوتا۔ اس کے بعد وکیل نے مریم نواز کے وزیراعظم کے زیرکفالت ہونے پر دلائل کا آغاز کیا، بولے نوازشریف کے کاغذات نامزدگی میں مریم نواز ان کے زیرکفالت نہیں، وزیراعظم کی مخالف امیدوار یاسمین راشد اب الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھی دائر کرچکی ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا ایسی صورت میں کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے متوازی سماعت کرکے کسی انکوائری کی ہدایت یا کوئی فیصلہ دے سکتی ہے؟۔ وکیل نے کہا یہ فیصلہ عدالت نے کرناہے، عدالت یہ بھی دیکھے کہ جب اس معاملے میں کوئی واضح دستاویزات ہی نہیں تو کہاں تک حکم جاری کرسکتی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے لاہور میں 85 کنال زرعی زمین مریم نواز کے نام پر خریدے جانے کی بات شروع ہوئی تو ججوں کے کچھ سوالات پر وزیراعظم کے وکیل گڑبڑا گئے۔ سماعت کے اختتام پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے اس کی وضاحت کی کوشش کی تاہم ججوں نے کہا اپنی باری پر زیادہ تفصیل سے بتادیں۔ مخدوم علی خان نے کہا جس وقت مریم نواز کےلیے زمین خریدی گئی ٹیکس گوشوارے میں الگ سے درج کرنے کا خانہ موجود نہیں تھا۔ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کیاگوشوارے میں یہ خانہ اب شامل کیا گیاہے؟۔ وکیل نے جواب دیا پانامہ پیپرز اپریل میں آئے جبکہ ٹیکس فارم اگست 2015میں تبدیل کیا گیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ آپ کی نیک نیتی تھی کہ جب فارم میں خانہ بھی نہیں تھا اس جائیداد کا ذکر کیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کیا وزیراعظم کی جانب سے زمین کی قیمت خودسے ادا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مریم نواز کے پاس اس وقت نقد رقم نہیں تھی اور بعد میں جب رقم آئی تو ادا کرنے اپنے نام منتقل کرلی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے جملہ اچھالا کہ ہوسکتاہے اس طریقے سے زمین خریدنے کا مقصد کالے دھن کو باہر سے گزار کر واپس لانا ہو، جس پرعدالت میں بیٹھتے تحریک انصاف کے رہنماﺅں کے چہرے کھل اٹھے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا پہلے زمین خریدنا پھر اس طریقے سے پیسے اداکرکے ملکیت منتقل کرنے کے اثرات و نتائج کیا ہوتے ہیں یہ ہم دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا زمین خریدنے کی تاریخ، حسین نواز کی جانب سے اس دوران کروڑوں روپے اکاﺅنٹ میں آنے کی تاریخ اور پھریہ زمین مریم کی جانب سے ادائیگی کے بعد ان کے نام منتقل ہونے کی تاریخیں دیکھنا ہوں گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اسٹامپ پیپر بتارہاہے کہ زمین کا سودا یکم مارچ کوطے پایا جبکہ ڈرافٹ ڈیڈ میں سات فروری 2011کی تاریخ ہے ، یہ کیسے ممکن ہے؟۔ عدالتی کتابچوں میں سے دستاویزات تلاش کرتے مخدوم علی خان اس موقع پر کچھ پریشان نظر آئے تو تحریک انصاف کے رہنما عدالت میں کھڑے ہوگئے اور خوشی سے سرشار نظر آئے۔ وکیل نے کہا دراصل مریم نے پانچ مختلف جائیدادیں تفصیلات ان کے وکیل بتائیں گے جنہوں نے محکمہ مال کا تمام ریکارڈ جمع کرایاہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا وہ دستاویزات دکھائیں جن میں وزیراعظم نے تحفے وصول کیے، وکیل نے کہا درخواست گزاروں کا الزام مختلف ہے جس پر جسٹس عظمت سعید ناراض ہوگئے اور بولے سوال کچھ اور کیاہے، ہم فارسی نہیں بول رہے تمام مالی سالوں کا تفصیلی ریکارڈ دکھائیں۔ وکیل نے کہا تمام تحائف صرف ایک بیٹے حسین نواز کی جانب سے آئے اور اس کا ٹیکس گوشواروں میں ذکرہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا چار برس میں حسین نواز نے وزیراعظم کو 52کروڑ روپے بطور تحفہ دیے، یہ تاثر مل رہاہے کہ رقم گردش کرتی رہی، اس لیے آمدن کے ذرائع کا سوال اٹھارہے ہیں۔ وکیل نے کہا حسین نواز کاروبار کررہاہے اس کے وکیل بتائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہمارے معاشرے میں باپ بیٹوں کو تحائف یا کاروبار کیلئے رقم دیتاہے، اس کیس میں بیٹے باپ کو پیسے بھیج رہے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اتنی بڑی رقم آرہی ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ رقم نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی نہیں، فنڈز کہاں سے نکلتے اور پاکستان کیسے آتے ہیں، کسی نے تو اس معاملے کو دیکھناہے کہ اتنی بڑی رقم گردش کررہی ہے، ہمیں اپنے عدالتی اختیار کے محدود ہونے کاعلم ہے لیکن اس کا جواب کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی تو دیناہوگا ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا بیٹا اتنی رقم دے تو باپ عموما کاروبار کا پوچھتاہے یا اس کو معلوم ہوتاہے آپ ہی بتادیں۔ وکیل نے جواب دیا حسین کی سعودی عرب میں اسٹیل مل ہے، باپ کو معلوم ہے کہ ذرائع آمدن کیاہیں، یہ تمام قانونی کاروبار ہیں اور عدالت کو دکھائے جاسکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز نے دوبارہ پوچھاکہ بیٹا صرف باپ ہی کو کروڑوں روپے کیوں بھیجتاہے؟۔ وکیل نے کہا جب معاملہ قانون کے مطابق ہوتویہ سوال نہیں اٹھتا، ایسا سوال صرف اسی وقت اٹھے گا جب ٹیکس چھپانے کا کوئی ثبوت سامنے ہو۔ اس کے بعد جسٹس عظمت سعید نے اپنی فارم دکھاتے ہوئے لیکچر جھاڑ دیا، بولے سو سوالوں کا سامناہے، ایساجواب ریکارڈ کے ساتھ سامنے نہیں آرہاجس پر اعتبار کرسکیں، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ درخواست گزار بھی جوا کھیل رہاہے، استدعاکی گئی ہےکہ اسی ریکارڈ پر فیصلہ کیا جائے، عدالت کیسے کرسکتی ہے؟۔
اس کے بعد جسٹس آصف کھوسہ دوبارہ لند ن کے فلیٹوں کی ملکیت کی جانب نکل گئے اور بولے کہ وزیراعظم نے اپنے کسی بھی خطاب میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی جبکہ ان کے بیٹے نے ایک ٹی وی انٹرویو میں فلیٹس کو اپنی کاروباری آمدن سے خریدنے کی بات کی۔ وکیل بولے وزیراعظم نے کبھی لندن فلیٹوں کے ملکیت کے حسین نواز کے دعوے کی تردید نہیں کی، ان کا اس سے تعلق نہیںاور نہ ہی درخواست گزار نے براہ راست وزیراعظم پر لندن کے فلیٹوں کے مالک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر دو میں تمام فریقوں کی دو نمبر طریقے سے گول دائرے میں گھومنا جار ی ہے اس لیے آپ بھی پڑھتے ہوئے حوصلے سے کام لیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے