کالم

وکیل اور وکالت

جنوری 20, 2017 5 min

وکیل اور وکالت

Reading Time: 5 minutes

اے وحید مراد
جس طرح صحافیوں کے رہنما نام نہاد صحافی ہوتے ہیں اور صحافت کرتے نظر نہیں آتے اور کبھی غلطی سے صحافت کرنا پڑ جائے تو لطیفے لکھتے اور بولتے دکھائی دیتے ہیں، وکیلوں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہائی کورٹ کی سطح تک بار کی سیاست میں ایسے ہی وکیل چھائے ہوتے ہیں جن کو وکالت کرتا دیکھیں تو ہنسی کے فوارے ہی چھوٹتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے ساتھ سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز کیس میں آج یہی معاملہ ہوا۔ چھ دن تک ملک کے اعلی پائے کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سننے والوں کیلئے عدالت میں آج تفریح طبع کا بھرپور سامان تھا۔
وکیل اچھا اور برا نہیں ہوتا مگر وکالت اس کے قد کاٹھ کا تعین کرتی ہے۔ گزشتہ روز جب وزیراعظم کے وکیل نے دلائل مکمل کیے تو بنچ میں شامل ججوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے مخدوم علی خان کے دلائل اور انداز وکالت کو کلاسیک قرار دیا تھا، جسٹس کھوسہ نے کہا مخدوم صاحب، اہمیت کے حامل دلائل دینے اور اتنی بہترین عدالتی معاونت پر آپ کے شکر گزار ہیں، اگر کمرہ عدالت چھوٹا نہ ہوتا اور میرے بس میں ہوتا تو قانون کے طالب علموں کو یہاں بٹھاتا وہ جان لیتے کہ وکالت کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے۔
آج جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے پانچ رکنی بنچ کے سامنے دلائل میں کہا وزیراعظم نے بیرون ملک خفیہ جائیداد اور اثاثے بنائے، ٹیکس چھپایا اس لیے صادق وامین نہیں رہے، عدالت نااہل قراردے۔ یہ عالمی اہمیت کا مقدمہ ہے، سپریم کورٹ عوامی مفاد کے قانون کے تحت سن کر فیصلہ دے سکتی ہے، پارلیمان میں کی گئی تقریر میں وزیراعظم نے بیرون ملک اثاثے بنانے کا اعتراف کیا، اس کو قانون شہادت کے تحت دیکھا جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا وزیراعظم کے اعتراف کی ان کی تقریر میں نشاندہی کریں۔ وکیل بولے وزیراعظم نے کہا تھا اتفاق فونڈری 1972 میں قومیا لی گئی تھی 1980 میں واپس کی گئی اور سالانہ چھ کروڑ خسارے میں تھی پھر اس کا منافع دوبرس میں ایک ہزار گنا ہوگیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اپنی درخواست کے مطابق وزیراعظم کا اعتراف دکھائیں، انہوں نے کہاں تسلیم کیا ہے؟۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کے بچوں نے 93 سے 96ء کے درمیان لندن کے فلیٹ خریدنے کا اعتراف کیا ہے۔ جج نے پوچھا وہ اعتراف کہاں ہے دکھا دیں؟۔ وکیل بولے اعتراف نہیں تسلیم و تصدیق شدہ بات ہے۔ یہاں جسٹس آصف کھوسہ وکیل کو مزید شرمندگی اور ندامت سے بچانے کیلئے میدان میں آئے اور بولے آپ یہ کہہ دیں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لند ن کے فلیٹ خریدے گئے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا وزیراعظم نے اس حد تک تسلیم کیاہے مگر یہ نہیں کہا کہ میں نے خریدے۔جسٹس اعجازالاحسن بولے وزیراعظم نے صرف اپنے بارے میں بات کی کسی اور کا ذکر نہیں کیا۔ وکیل نے کہا وزیراعظم اس سے آگے خاموش رہے ہیں اور تقریر میں یہی کمی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ کمی ہے اعتراف نہیں۔ وکیل اپنی بات پر ڈٹے رہے تو جسٹس عظمت سعید نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور کہا چلیں اب آگے بولیں۔
کمرہ عدالت میں ایسا کوئی شخص موجود نہیں تھا جو وکیل کے دلائل اور ججوں کے جملوں پرمسکریا نہ ہو، شیخ رشید اور عمران خان قہقہوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے، سراج الحق نے منہ کے سامنے ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل نے سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کاحوالہ دیا، اس مقدمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ کیلئے ایک داغ سمجھا جاتا ہے کیونکہ عدالت نے پرویزمشرف کے مارشل لاء کو جائز قراردے ان کو تین سال حکومت کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ جماعت اسلامی کے وکیل بولے ظفر علی شاہ کیس میں ثابت ہواتھا کہ لندن کے فلیٹ نوازشریف کی ملکیت ہیں۔ ججوں نے کہا اس مقدمے میں نواز شریف درخواست گزار ہی نہیں تھے ۔ وکیل بولے نہیں وہ درخواست گزار تھے اور خالدانور ان کے وکیل تھے۔ ریکارڈ دیکھا گیا تو خالد انور دیگر درخواست گزاروں کے وکیل تھے نواز شریف کا نام موجود نہیں تھا جس پر جماعت اسلامی کے وکیل بولے اپنی یہ بات واپس لیتا ہوں ۔ جسٹس گلزار نے کہا اتنے اہم مقدمے کو آپ اتنے عامیانہ انداز سے چلانا چاہتے ہیں؟۔ جسٹس کھوسہ نے کہا وکیل کی غلطی کو ہم موکل کے کھاتے میں نہیں ڈالیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ریکارڈ دیکھے بغیر ہی حوالہ دینے آگئے ، پھر مذاق کرتے ہوئے بولے، اب بتائیں آرٹیکل باسٹھ لگائیں یا تریسٹھ ؟ جس پر قہقہے روکے نہ جاسکے۔ وکیل توفیق آصف نے کہا ظفر علی شاہ کیس فیصلے میں طے کیے گئے اصولوں سے اختلاف کے باوجود اس میں یہ حقائق تسلیم شدہ ہیں کہ لندن فلیٹ نواز شریف کی ملکیت ہیں۔ جسٹس عظمت سعید بولے جو حصہ آپ پڑھ رہے ہیں وہ حقائق نہیں، مفروضے اور الزامات ہیں، فیصلے میں کہاں لکھا ہے دکھادیں؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا ظفرعلی شاہ کیس میں لندن فلیٹوں کی ملکیت نواز شریف کی ثابت کرنے کیلئے مشرف حکومت کے وکیل نے دلائل دیے تھے، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ الزامات ہیں ، ان کو حقائق کیسے مان لیں۔ وکیل ڈٹ گئے اور کہا فیصلے میں یہ تسلیم شدہ ہے کہ لندن فلیٹ شریفوں کے ہیں ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا خدا کا خوف کریں، دوبارہ خدا کا خوف کریں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ظفر علی شاہ کیس میںاس نکتے پر بحث ہوئی لیکن عدالت نے ان الزامات اور مفروضوںپر کوئی فیصلہ دیا نہ فیصلے میں ان کا ذکر کرکے کوئی بحث چھیڑی ۔
اسی دوران عدالت نے ظفر علی شاہ کیس کی اصل فائل منگوائی تو معلوم ہواکہ کسی درخواست گزار نے مقدمے میں نوازشریف کوفریق بنایاتھا مگر ان کے وکیل کا پتہ نہ چل سکا جس پر جماعت اسلامی کے وکیل بولے اپنی واپس لی ہوئی بات کو واپس عدالت کے سامنے رکھتاہوں جس پر عدالت میں ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وکیل بولے فلیٹوں کی خریداری تسلیم کرنے کے بعد بار ثبوت وزیراعظم پر ہے، وزیراعظم نے کہاتھا استثنا کاسہارا نہیں لوںگا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا استثنا اور استحقاق میں فرق ہے، استثنا وزیراعظم کو آرٹیکل 248 کے تحت ہے، بات پارلیمان کے استحقاق کی ہے جو آرٹیکل 66 میں دیاگیاہے۔جسٹس عظمت سعید نے یہاں پھر جملہ اچھالا اور کہا کہ شروع میں آپ نے کہا تھا اردو میں فیصلوں کا سہارا لوں گا مگر آپ کو اردوکے فیصلوں سے بھی فائدہ نہیں ہوا۔وکیل بولے وزیراعظم کو استثنا حاصل نہیں کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابرہیں۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کی اسمبلی میں تقریر کارروائی کا حصہ نہیں بلکہ ان کا ذاتی دفاع تھی ، انہوں نے کاروبار مملکت درست طور پر ادا نہیں کیے اس لیے نااہل قراردیاجائے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 1981 سے 1997 تک کاروبار اور سیاست ساتھ کرتے رہے مگر یہ بات ان کے خلاف کارروائی کیلئے کافی نہیں کہ انہوں نے کاروبار مملکت کی ادائیگی میں غفلت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کیا سیاست کے ساتھ کاروبار کرنے پر پابند ی ہے؟ وکیل بولے ایسی کوئی پابند ی نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا مفروضوں پر کب تک گھسیٹتے رہیں گے وہ کام یا فیصلہ بتائیں جس کی وجہ سے وزیراعظم نے کاروبارمملکت کو متاثر کیا،وزیراعظم کے کاروبار کی وجہ سے ملکی مفادات کے ٹکراﺅ کا مواد ا ورشواہد سامنے نہیں، گپ شپ سے تو کام نہیں چلے گا۔
اس کے بعد وکیل نے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے حلف کو پڑھ کر کہا کہ ان کے مطابق دیانتدار ہونا ضروری ہے، پھر دیانتداری کے لفظ کے مختلف ڈکشنریوں میں معانی دکھا کر تشریح شروع کی تو عدالت کا وقت ختم ہونے لگا جس پر شیخ رشید اور عمران خان عدالت میں کھڑے ہو کر ہنستے دکھائی دیے۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کی تقریر اسمبلی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی، اس دن کے اسمبلی ایجنڈے کی نقل عدالت میں جمع کرا رہا ہوں جس پر کافی دیر سے میزائل داغنے کی تیاری کرنے والے جسٹس عظمت سعید نے کہا آرٹیکل چھیاسٹھ پڑھ کر جمع کرائیے گا۔ اسی دوران جماعت اسلامی کے امیر نے معاون وکیل کو ایک رقعہ لکھ کر دیا۔ معاون وکیل عدالت میں بولے وہ بھی پیر کے روز دلائل دینا چاہیں گے تاکہ کچھ نکات واضح ہوسکیں۔ جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ایک مقدمے میں ایک درخواست گزار کی جانب سے ایک ہی وکیل کو سن سکتے ہیں۔ وکیل توفیق آصف نے کہا اگر موکل کسی اور وکیل کے ذریعے بھی دلائل دینا چاہتے ہیں تو مجھے ان سے ہدایات لینے دیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اب ہدایات لینے کی ضرورت کیا ہے، معاون وکیل کو کھڑا کرکے تو انہوں نے آپ کو فارغ کر دیا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے