کالم

لاہور میں میٹروٹرین کیسے چلے گی

اپریل 3, 2017 6 min

لاہور میں میٹروٹرین کیسے چلے گی

Reading Time: 6 minutes

اے وحید مراد
سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ ہے ۔پانامہ پیپرز کا مقدمہ سننے والے پانچ میں سے تین جج شامل تھے۔ پانامہ والے دو وکیل بھی موجود ہیں، شاہد حامد نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ مخدوم علی خان کی باری کل آئے گی۔ پڑھیے مقدمہ کیا ہے۔
لاہور کے اورنج لائن ٹرین منصوبے کے چارمقامات پرکام روکنے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے والے کنسلٹنٹ نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ لاہور اورنج ٹرین پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا منصوبہ ہے، دنیا کے پچپن ممالک کے 148شہروں میں زیرزمین ٹرین چلتی ہے، انڈیا کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں میٹرو ٹرین چلتی ہے۔دنیا کے بڑے شہروں میں سے لاہور اور کراچی ہی ہیں جہاں میٹروٹرین نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ لندن کی زیرزمین میٹرو 1863میں بنی تھی۔
وکیل شاہد حامد نے کہاکہ لاہور ٹرین منصوبہ 2007میں تیار کیا گیا تھا، اسی روٹ پر ہم نے کام کیاہے، کل ستائیس کلومیٹر راستہ ہے ۔ تاہم پہلے اس کا زیرزمین حصہ سات کلومیٹر تھا جس کو نئے منصوبے میں ڈیڑھ کلومیٹر کیا گیاہے۔وکیل نے کہاکہ 2007میں اس کی لاگت کا اندازہ دو ارب ڈالر تھا اور زمین کی خریداری الگ تھی، زیرزمین تعمیر معلق تعمیر کے مقابلے میں تین سے چار گنا مہنگی ہوتی ہے۔ ہمارے منصوبے پرایک ارب باسٹھ کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، اس طرح کل لاگت پاکستانی روپے میں 165ارب روپے آئے گی جس میں سے 64ارب روپے سول ورکس پر لگیںگے، اس میں زمین خریداری کی رقم شامل نہیں ہے۔ عدالت کے پوچھنے پر وکیل نے بتایا کہ ابتدائی طورپر منصوبے سے متعلق عام لوگوں کی تجاویزوشکایات کو جاننے کیلئے الحمرا ہال میں عوامی سماعت رکھی گئی، عدالت میں آنے والوں نے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیاتھا، منصوبے کے خلاف ہائیکورٹ میں پہلی رٹ سترہ دسمبر 2015 کو دائر کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ عدالت میں یہ معاملہ نہیں کہ ملک کے دوبڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں، کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اورنج ٹرین پسند نہیں تو گاﺅں چلا جائے، اسی طرح حکومت کو ایسا منصوبہ بنانے سے بھی نہیں روک سکتے ، معاملہ تاریخی عمارت کو خطرے کاہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ درخواست گزارعدالت منصوبے کی زیادہ لاگت کے خلاف نہیں آئے۔وکیل شاہد حامد نے کہاکہ ٹرین پانچ تاریخی عمارتوں سے دوسو فٹ کے فاصلے سے گزرے گی۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ معاملہ اس قانون کانہیں کہ تاریخی عمارتوں کے دوسوفٹ تک کھدائی نہیں کی جاسکتی ، اگر دوسوفٹ دوری کے منصوبے سے بھی شالیمار باغ کے قومی ورثے کو نقصان پہنچتاہے تو اجازت نہیں دی جاسکتی، اسی طرح ممکن ہے کہ ایک سو نوے فٹ کے فاصلے سے گزرنے پر بھی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے تو اجازت دی جاسکتی ہے۔
وکیل شاہد حامد نے کہا کہ دوسوفٹ دوری کے قانون کی سمجھ نہیں آتی، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں ہے، منصوبے سے تاریخی عمارتوں کو نقصان نہیں ہوگا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ایسی بات نہ کریں کہ نقصان نہیں ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کچھ تاریخی عمارتوں میں دراڑیں پڑی ہیں تاہم ہی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کب اور کیسے پڑیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کیا ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہواکہ کام کے دوران کسی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچا ہو؟۔ وکیل نے کہاکہ تعمیراتی ماہرین کی رپورٹیں موجود ہیں، ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بس کا راستہ تو تبدیل کیاجاسکتاہے لیکن میٹروٹرین کے روٹ کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، ماہرین کہتے ہیں کہ تاریخی ورثے کو نقصان نہیں ہوگا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ بھارت میں ہائی کورٹ نے ایسے ماہرین اور اداروں کی رپورٹوں کو قابل اعتماد قراردیا،بدقسمتی سے پاکستان میں کسی ادارے پر اعتماد نہیں کیاجاتا، عدلیہ پر بھی نہیں، یہاں اگر فرشتے بھی آجائیں تو درخواست گزار نہیں مانیں گے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ ایسے منصوبوں میں ارضیاتی معلومات (جیو ٹیکنیکل) نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جن میں زمین کی ساخت، اس کی مضبوطی سمیت کئی عوامل کا احاطہ کیاجاتاہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ نقصان کیے بغیر بھی بہت ساکام مکمل کیاجاچکاہے۔وکیل نے بتایاکہ منصوبے سے کل اڑتیس سو افراد متاثر ہوئے جبکہ ایک ہزار کنال زمین خریدی گئی۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ تاریخی عمارتوں کے نقصان کے علاوہ دوسرا پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ عمارتیں اورنج ٹرین گزرگاہ کی وجہ سے عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔ وکیل بولے کہ اورنج ٹرین سے تاریخی عمارتوں کا نظارہ شاندارہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جو لوگ سڑک سے گزریں گے ان کیلئے نظارہ کیسے ہوگا؟۔
جسٹس اعجازافضل نے علاقے میں موجود ایک واٹر ٹینک کے بارے میں پوچھا تو وکیل نے کہاکہ یہ مغلیہ دور کی عمارت کے ساتھ تاریخی حیثیت رکھتاہے تاہم زیراستعمال نہیں۔ جسٹس اعجاز بولے، جب یہ کام نہیں آرہاتو پھر اس کو برقرار رکھنے میں میں مزے کی چیز کیاہے؟۔ وکیل بولے کہ جی ٹی روڈ کی کشادگی کے دوران ایسے ہی دو پانی کے حوض ختم کیے جاچکے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جو لوگ اپنی تاریخ کی حفاظت نہیں کرتے ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، مستقبل انہی اقوام کا ہوتاہے جن کی تاریخ محفوظ ہو۔
نیسپا ک کے وکیل نے کہاکہ ٹرین کی معلق گزرگاہ کیلئے ستون کھڑے کیے جاتے ہیں جن کیلئے زمین میں ساٹھ سے اسی فٹ گہرے سوراخ کیے جاتے ہیں اور ان کی چوڑائی تین سے چار فٹ ہوتی ہے اس کے بعد بنیاد پر ستون کھڑا ہوتاہے،کل ایک ہزار اٹھارہ ستون کھڑے کیے جانے ہیں جن کیلئے گیارہ ہزار نوسو سوراخ کیے جائیں گے جن میں سے نو ہزار آٹھ سو نوے سوراخ کیے جاچکے ہیں جبکہ نوسو نو ستون کھڑے کردیے گئے ہیں۔ مشینوں کی ڈرلنگ سے تھرتھراہٹ پیدا ہونے سے تاریخی عمارتوں کی بنیادوں کو خطرے کی نشاندہی پر ماہرین نے مقررہ عالمی معیار کے تحت تھرتھراہٹ کو ناپا اور متفق ہوئے۔تاہم ٹرین کی وجہ سے تاریخی عمارتوں کے نظروں سے اوجھل ہونے پر تمام ماہرین کا متفق ہونا ممکن نہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ ارضیات اور تعمیرات کے معیار کاعلم ہونا ضرو ری ہے کیونکہ ہم نے ماہرین کی رپورٹ دیکھنی ہیں،تمام چیزوں کا علم ہوناچاہیے۔وکیل نے کہاکہ میں اس کام میں تکنیکی مہارت نہیں رکھتا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ کی طرح پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے وکیل مخدوم علی خان بھی تکنیکی مہارت نہیں رکھتے، ہم اور درخواست گزار بھی ماہر نہیں تو پھر ایسی صورتحال میں کیاکیاجائے؟۔جج نے کہاکہ جب ڈاکٹر دوائی دیتاہے اور استعمال کرکے مریض ٹھیک ہوجائے تو مطلب ہوتاہے کہ تشخیص اور دوائی درست تھی، مگر کیا اس معاملے میں ایسا ممکن ہے؟۔وکیل نے کہاکہ اگر ٹرین کے گزرنے سے تھرتھراہٹ عمارتوں کیلئے نقصان دہ ہوگی تو ٹرین کو روکاجاسکتاہے، اٹلی کے شہر روم میں بھی یہی کیاگیاتھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تھرتھراہٹ کی شدت جاننے کیلئے ٹرین کا وزن، بوگیوں کی تعداد اور مسافروں کی گنجائش پر بھی انحصار ہوتاہے۔ وکیل نے کہاکہ کل ستائیس ٹرینیں ہوں گی، ہرایک میں پانچ بوگیاں جبکہ ہر بوگی میں دوسو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی، مسافرٹرین کا وزن کم ہی ہوتاہے۔جسٹس عظمت نے ہنستے ہوئے کہاکہ اگر ٹرین گزرنے سے عمارتیں گرنی ہیں تو یہ لاہور کا ریلوے اسٹیشن تو آج تک نہیں گرا، وہ تو کافی پراناہے، حالانکہ ہماری ٹرینیں تو بہت بھاری اور بڑی ہوتی ہیں۔اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
وکیل شاہد حامد نے عدالتی سوال پر جواب میں کہاکہ اورنج لائن کا ٹریک پینتالیس فٹ بلند ہوگا، تاریخی عماتوں کی بلندی بھی اتنی ہی ہے۔ٹرین کے راستے میں بدھو کا مقبرہ بھی آرہاہے، جس پر ججوں نے ہنستے ہوئے پوچھاکہ واقعی ایسا کوئی بدھو تھا یا محض نام دیاگیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ اس بارے میں مجھے بھی معلومات نہیں ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوناچاہیے، کسی تاریخی عمارت کو متاثر ہونے دیں گے اور نہ ہی ان کے نظارے کو متاثر ہونے دیاجائے گا۔جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ چار میں سے ایک مقام چوبرجی ہے جہاں ہائیکورٹ نے کام روکا ہواہے ، کیا ٹریک کے نیچے سے گزرنے والے چوبرجی کو دیکھ سکیں گے؟۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ٹریک کے ستونوں کے درمیان سے ایسے ہی دیکھیں گے جیسے چڑیا گھر میں بندر پنجرے کے اندر سے دیکھتے ہیں، اس بات پر ایک بار پھر عدالت میں بیٹھے لوگ ہنس پڑے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ دوچیزیں ہیں، ایک یہ کہ کیا تکنیکی طورپر چوبر جی سے دوری پر ٹریک کو گزارنا ممکن ہے، اور کیا اس ممکن کے نتیجے میں لاگت بڑھنے کا خدشہ ہے؟۔ وکیل نے کہاکہ تکنیکی طورپر ٹرین کو چوبرجی کے نیچے سے زیرزمین گزارناممکن نہیں، ازسرنو ڈیزائن کرناہوگا۔ اس دوران پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایاکہ لاگت جتنی بھی بڑھ جائے مسئلہ نہیں مگر اصل چیز انجینئروں کی رائے ہے جس کے مطابق ٹریک کو بہت زیادہ موڑا نہیں جاسکتا، اور دوسری جانب اگر قریبی علاقے کو خالی کرکے وہاں سے گزاری جائے تو پھر آبادی نہ ہونے سے ٹرین سے فائدہ کون اٹھائے گا؟۔
اسی دوران عدالت میں پراجیکٹر پر اورنج لائن میٹرو کی ڈرون کیمرے سے بنائی گئی ویڈیو چلائی گئی۔ جج مختلف مقامات پر سوال کرتے رہے، ویڈیو طویل ہوئی تو جسٹس مقبول باقر نے مسکراتے ہوئے پوچھا، کیا ہم ٹرین کی رفتار سے جارہے ہیں؟ جس پر وکلاءہنس پڑے۔ عدالتی وقت ختم اور وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست گزار وکیل نے کھڑے ہوکر کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ماہرین عالمی ورثے کو ٹرین منصوبے سے پہنچنے والے نقصان کاجائزہ لینے آنا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان کو ویزا نہیں دے رہی۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ وقت آنے پر اس معاملے کو بھی دیکھیںگے، مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے