کالم

راحیل شریف کے نام پر

اپریل 7, 2017 5 min

راحیل شریف کے نام پر

Reading Time: 5 minutes

احساس/ اے وحید مراد
جنوری 2016 کی بات ہے۔ ملک ہرطرف جنرل راحیل شریف کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ہر زبان شریف جرنیل کے قصیدے پڑھ رہی تھی اور کروڑوں لوگ ان کے نام کی تسبیح پھیر رہے تھے۔ ایک خوشگوار دن حزب اختلاف کی جماعت کے ایک بزرگ سینٹرکو ان کے دفتر میں فون کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والے نے اپنا تعارف جنرل آصف کے طور پر کرایا، اور پھر سینٹر سے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو پلاٹ الاٹ ہوا ہے جس پر مسجد کی تعمیر کی جانی ہے، چندہ دے کر ثواب دارین کمائیں۔ بہت سے لوگوں کی طرح شاید بزرگ سینٹر کو دارین کےثواب کے ساتھ دنیا میں بھی کچھ اور کمانے کا خیال آ گیا ہو۔ حامی بھرنے پر بزرگ سینٹر کو مختصر برقی پیغام (ایس ایم ایس) موصول ہوا جس میں بنک اکاﺅنٹ نمبر بھیجا گیا۔ سینٹر نے پچاس ہزار کی رقم مذکورہ اکاﺅنٹ میں بھیج دی۔ بات ختم ہوگئی۔
رات بزرگ سینٹر گھر پہنچے تو باتوں باتوں میں جنرل صاحب کا ذکر آگیا اور انہوں نے بیگم صاحبہ کو دن کا قصہ سنادیا۔ بیگم نے اتنی بڑی رقم ہاتھ سے جاتے دیکھی تو بولیں، کیا آپ نے تصدیق کی تھی کہ فون جنرل صاحب کا ہی تھا؟۔ بزرگ سینٹر فورا چونکے اور بولے، ارے نیک بخت، یہ تو تم نے خوب کہی، میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیاتھا۔ اگلی صبح سینٹر نے فون اٹھایا، جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) سے رابطہ کیا، پھر فیکس کیا، اور بعد ازاں واقعے سے متعلق تفصیل ایک مراسلے کے ذریعے ارسال کی۔ جی ایچ کیو سے جواب دیا گیاکہ اس کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، آپ انتظار فرمائیں۔
تین ماہ گزر گئے، ایک دن بزرگ سینٹر کو اپنے دفتر سے فون آیا کہ ایک صاحب ملاقات کے خواہش مند ہیں، اس نے پچاس ہزار روپے بھی آپ کے لیے دیے ہیں۔ سینٹر چونک گئے، بولے، اس شخص کو بھگاﺅ۔ اگلے دن سینٹر صاحب نے پھر جی ایچ کیو کو مراسلہ لکھا ، کہا کہ’جناب محترم جرنیل صاحب، آپ کو ایک شخص کے خلاف شکایت کی تھی، جواب آیا تھا کہ تحقیقات ہو رہی ہیں اور سخت کارروائی ہوگی۔ آج وہ شخص پھر میرے دفتر تک پہنچ گیا اور معافی کا طلب گار ہوا، میں دفتر میں نہیں تھا، اسٹاف نے میرے کہنے پر اسے رخصت کر دیا، اگر اس ملک میں اس قبیل کے لوگ اسی طرح آزاد پھرتے رہے تو پھر میں نے اور آپ نے اپنی زندگی ویسے ہی ضائع کردی ہے‘۔
جی ایچ کیو سے فوجی حکام نے بزرگ سینٹر کو جواب دیا، ’جناب والا، ہمارے خفیہ اداروں نے مطلوبہ شخص کو حراست میں لے کر تفتیش کی تھی، پھر اس کو پولیس حکام کے حوالے کیا، چونکہ یہ سول حکومت اور اداروں کے کرنے کا کام ہے تو آپ مزید کارروائی کیلئے ان سے رجوع کرسکتے ہیں‘۔سینٹر صاحب کے اس مراسلے کی بھنک ایک صحافی کو پڑ گئی۔ مذکورہ فراڈ شخص کا صرف نام معلوم ہوسکا تھا، اور اس کے علاقے کا پتہ تلاش کرنا پڑا۔جنرل راحیل کی مسجد کیلئے اراکین پارلیمان سے چندہ اکھٹا کرنے والے کانام لیاقت حسین ہے، اور اس کی رہائش راولپنڈی کے ڈھوک کالاخان میں تھی۔
اس کے بعد لیاقت حسین کی تلاش میں چل پڑے۔ فون نمبر اور گھرکا پتہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں چائے کے ہوٹلوں اور ریڑھی والوں سے معلومات جمع کرنا پڑیں۔ دو اڑھائی گھنٹے کی تلاش میں صرف مکان تک پہنچ سکے اور پھر مختلف ہوٹل والوں کے پاس اپنے فون نمبر چھوڑ کر واپسی کی راہ لی۔ پھر ایک ہوٹل مالک کے فون نمبر سے لیاقت حسین نے خود رابطہ کیا، پوچھا ، آپ لوگ میرے تلاش میں نکلے ہیں، خیریت ہے؟۔ بتایا کہ اخباروالے ہیں ، بس آپ سے کچھ دیر گپ شپ کرنا مقصود تھا۔ اگلے دن کا وقت طے ہوا۔ مطلوبہ مقام پر پہنچے تو لیاقت حسین غائب تھے۔ خیر، کچھ دیر گزری تو مل ہی گئے۔
دعا سلام اورخیریت دریافت کرنے کے بعد اہم مرحلہ لیاقت حسین کو بات کرنے کیلئے راضی کرناتھا۔ حد سے زیادہ باتونی اور بات بات میں نظام اور سیاست دانوں کو گالیاں بکنے والے شخص کا انٹرویو کرنا آسان ہرگز نہیں ہوتا۔ چھوٹے سے ہوٹل میں لیاقت حسین کو بٹھایا تو ہر دوسرا شخص اس کے چھوٹے موٹے کارناموں سے واقف تھا مگر جس کہانی کی ہمیں تلاش تھی وہ صرف اس کو ہی معلوم تھی۔
لیاقت حسین نے اپنی کہانی کچھ اس طرح سنائی۔
’والد نے پڑھایا اور اس کے بعد ویلڈنگ کی دکان پر بٹھادیا، جہاں لوہے کا ٹانکا لگانا سیکھا۔ پھر شیخ رشید نے نیوی میں بھرتی کرانے کیلئے سفارش کی تو دس سا ل وہاں نوکری کی۔ پہلی بار کسی کو جرنیل بن کر فون بھی نیوی کی ملازمت کے دوران ہی کیا۔ہوایوں کہ ایک نیول اہلکارکو تبادلہ کرانے کی ضرورت پڑی، کوئی تیار نہ ہوا، میں نے جرنیل بن کے اس کے اعلی افسر کو فون کیا تو فورا ٹرانسفر ہوگیا۔ اگلے دن نیول انٹیلی جنس والے پکڑ کرلے گئے۔ میں سب کچھ سچ بتادیا۔ چونکہ تبادلہ واپس نہیں ہوسکتا تھا اس لیے مجھے انہوں نے کیا کہناتھا۔یہ کام فی سبیل اللہ کیا تھا، کسی کا بھلا ہو گیا تھا۔اس طرح کے بہت سے فون کیے۔ ایک بار کسی غریب خاندان کو ہولی فیملی ہسپتال میںکوئی پوچھ نہیں رہاتھا تو وزیربن کرفون کیا،ہسپتال کے چھوٹے بڑے سب حاضرہوگئے اور غریب مریض کی خوب دیکھ بھال کی۔میں نے کسی کو نہیں لوٹا، کوئی غلط کام نہیں کیا،سیاستدانوں کے پاس عوام کی لوٹی ہوئی دولت ہوتی ہے اس لیے ان کو فون کیے۔ یہ سیاستدان صرف فوج اور اس کے ڈنڈے سے ڈرتے ہیں اس لیے جرنیل بن کے فون کیا۔ ‘
لیاقت حسین نے کہا’ جب بزرگ سیاست دان کی شکایت پر فوج کے خفیہ ادارے نے مجھے حراست میں لیاتو سب کچھ سچ بتایا، فوجی عظیم لوگ ہیں، ان پر سب کچھ قربان ہے۔ ڈیڑھ ہفتے کے بعد خفیہ والے مجھے پولیس کے حوالے کر گئے، جیب سے بتیس روپے نکالے تھے وہ بھی واپس کیے۔ تاہم پولیس والوں نے مجھے رہا کرنے کیلئے دس ہزار کی رشوت وصول کی۔‘ لیاقت حسین سے پوچھا کہ کل کتنے کا فراڈ کیا ہوگا؟ بولا، میں نے کوئی فراڈ نہیں کیا، یارسول اللہ والے لوگ ہیں، غریبوں کی مدد کی، کیا مسجد بنانے کیلئے رقم حاصل کرنا غلط ہے؟۔
لیاقت حسین نے انکشاف کیا کہ ایک بار اس نے جسٹس انور ظہیر جمالی بن کرتحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی کو بھی فون کیا، وہ کروڑ پتی ہے مگر کنجوس نکلا، روتا رہا کہ آج کل حالات ٹھیک نہیں ہے۔ لیاقت حسین کے مطابق اس نے صرف چند لاکھ روپے ہی فون کالز کے ذریعے حاصل کیے اور ہمیشہ غریب لوگوں کی مدد کیلئے ایسا کیا۔ لیاقت کہتا ہے کہ وہ عدالت سے ضمانت پر رہا ہوا ہے لیکن کوئی سیاست دان اس کے خلاف گواہی دینے نہیں آئے گا کیونکہ یہ سب چور ہیں۔
لیاقت حسین نے یہ بھی کہا کہ اس نے غلط کاموں سے توبہ کرلی ہے کیونکہ اب پولیس کسی بھی جعلی فون کال پر اس کو پکڑ کرلے جاتی ہے۔ پوچھا کہ اگر پھر بھی کسی سے کام نکالنے کیلئے جعلی فون کرنا پڑا تو کیا بن کرکریں گے؟۔ لیاقت حسین کا جواب تھا ’اس بار صحافی بنوں گا، آپ سے بھی تو لوگ ڈرتے ہیں، آپ بھی تو لوگوں کو فون کرکے بلیک میلنگ کرکے کام نکالتے ہیں‘۔
(لیاقت حسین سے صحافی مطیع اللہ جان نے انٹرویو کیاہے، وقت ٹی وی پر نشر کیا جائے گا)۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے