کالم

انصاف کے پیمانے

جون 1, 2017 5 min

انصاف کے پیمانے

Reading Time: 5 minutes

احساس / اے وحید مراد
بات سادہ سی ہے۔ اگر آپ چور نہیں ہیں تو واٹس ایپ کال نہ کرتے۔ اور اگر ایسا کرنا ضروری تھا تو پہلے لینڈ لائن پر کال کرکے نہ بتاتے کہ واٹس ایپ فون اٹینڈ کرلیں۔
چلیں اس کو بھی چھوڑ دیں، اگر آپ نے کال کرنی تھی تو واٹس ایپ کیلئے امریکی فون نمبر استعمال نہ کرتے۔ حضور، کچھ تو خیال کرتے، آپ سپریم کورٹ کے جج ہیں، آپ کے منصب کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ مسند انصاف پربیٹھا شخص اللہ کی کرسی پر براجمان ہوتاہے، انصاف اللہ کی صفت ہے، منصف صرف اسی کی ذات ہے۔ اگر آپ کو جج بننے کا شوق تھا اور بن گئے تو پھر اپنے تعصبات گھر چھوڑ کرآئیے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کو گالیاں دی گئیں۔ شاہراہ دستور پر بینرز لگائے گئے صرف اس وجہ سے کہ وہ ایک مقدمے سے الگ ہوجائیں۔ بینرز لگانے والے مقدمے کے فریق نہ تھے، ان کا تعلق بڑے گھر سے تھا۔ اس کیس میں اینکر مبشرلقمان کے علاوہ آبپارہ کے ڈائریکٹر عبداللہ کا نام سامنے آیا۔ بینرز بنانے اور لگانے والے کو ان افراد نے درجنوں فون کالز کی تھیں۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ اب آگے کچھ نہیں کرسکتے۔ جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے فیصلہ لکھا اور معاملہ ختم کر دیا۔ نہ کوئی ڈائیلاگ زبان سے نکلا، نہ کسی کے خلاف توہین عدالت کی کا رروائی ہوئی۔ مبشر لقمان آج بھی ٹی وی ٹاک شوکرتا ہے اور آبپارہ کا ڈائریکٹر عبداللہ بھی اپنی کرسی پر جھولتا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم اس کیس میں عدالت یا جج طاقت کے سامنے جھک گئے یا قانون کی حدود ان کے آڑے آئیں۔
گزشتہ چار برس میں بہت سے توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے، ٹی وی چینل کے مالکان بھی عدالت بلائے گئے مگر آج تک کچھ نہیں نکلا، کسی بھی مقدمے کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا۔ایک اور مثال سامنے رکھیں۔ گزشتہ دسمبر میں پانامہ کیس سننے والے بنچ میں شامل جسٹس امیرہانی کی ائرپورٹ پر نہال ہاشمی کے ساتھ تصویر سامنے آئی۔ نیو ٹی وی نے اپنے پروگرام میں اس تصویراور ملاقات کا ذکر کیا، سوال اٹھایا۔ دن نیوز نے یہ تصویر نشر کرکے اس ملاقات کو پانامہ کیس سے جوڑ دیا۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا اور پریس ریلیز میں ایسی زبان استعمال کی گئی کہ صرف سزا نہیں سنائی باقی سب کچھ لکھ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خبر پر پیمرا نے نیوٹی وی کو سات دن جبکہ دن نیوز کو ایک ماہ کیلئے بند کردیا، کسی ہائیکورٹ نے پیمرا کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ سنی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے جج ازخود نوٹس کی کارروائی کے دوران ٹی وی چینل کے مالک سے معافی نامے کی زبان تبدیل کرنے کیلئے کہتے پائے گئے، کہا گیا کہ معافی مانگتے ہوئے یہ بھی لکھیں کہ خبر جھوٹی تھی۔ مگر کسی جج کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ جسٹس امیرہانی سے پوچھتے کہ آپ نے نہال ہاشمی سے ملاقات کی یانہیں؟ اگر کی تو کیوں؟ اور کیا وہ تصویر بھی جعلی تھی؟۔ صرف خبر کو جھوٹی کہنے پر ہی زور رہا۔ معافی مانگی گئی اور پھر کیس داخل دفتر کر دیا گیا، آج تک میرٹ پر فیصلہ نہ ہوسکاکہ خبرجھوٹی تھی یا تصویر بھی جعلی تھی۔
تازہ ترین واقعہ پر نظر ڈالیں۔ تیس مئی کو دی نیوز اور جنگ میں انصارعباسی کی خبر شائع ہوئی۔ خبر میں کہاگیا کہ سپریم کور ٹ کے رجسٹرار نے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین اور اسٹیٹ بنک سربراہ کو فون کالز کیں، رجسٹرار نے کہا کہ پانامہ جے آئی ٹی میں فلاں فلاں افسر کے نام عدالت کو بھیجیں۔ ہر طرف ایک شور مچ گیا۔ مگر سپریم کورٹ کے جج خاموش رہے، کوئی نوٹس لیا اور نہ کہیں ککھ ہلیا۔ اگلے دن اکتیس مئی کو انصار عباسی نے خبر کی میں فون کالز کی مزید تفصیلات بھی پیش کردیں۔ فون نمبر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ہی تھے۔ خبر کے مندرجات حیران کن تھے اور ان ججوں کے تعصبات کو سامنے لائے جو کھلی عدالت میں کہتے ہیں کہ سب کچھ شفاف ہوگا۔ اداروں کی غیر جانبداری اور ان کی ساکھ کیلئے معاشرے میں لڑنے والے ہر شخص کو ان خبروں سے دھچکا لگا۔ انتظار ہوتا رہا کہ ان خبروں پر ازخود نوٹس لیا جائے گا اور جج اپنی ساکھ پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیں گے۔ مگر یہ امید برنہ آئی، اور پھر اچانک نہال ہاشمی اپنی اشتعال انگیز گفتگو والی ویڈیو کے ساتھ آگئے۔ جس چیف جسٹس نے شہ سرخیوں میں شائع ہونے والی خبر کا نوٹس نہ لیا، واٹس ایپ کے ذریعے ٹی وی اسکرین تک پہنچنے والی تقریر کاازخود نوٹس لے کر اٹھارہ گھنٹے بعد کیلئے مقدمہ عدالت میں لگا دیا۔
نہال ہاشمی عدالت پہنچنے تو پہلے ان کو اندر جانے کاراستہ ہی سمجھ نہیں آیا۔ سمجھ تو خیر ہمیں بھی کچھ نہیں آرہا کہ جس شخص کو اپنی جماعت نے نکال دیاہے، سینٹرشپ سے فارغ کردیاہے اس کے خلاف سپریم کورٹ کیا کارروائی کرے گی؟۔ کیا اب عدالت اور جج اس کام کیلئے ہی رہ گئے ہیں کہ ہر بولنے والے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کریں گے۔ کیا اپنا کام ایمانداری سے کرنے والے کو کسی دھمکی کی پروا ہوتی ہے؟۔ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہم ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کیا جج انصار عباسی کی خبروں کے بارے میں بھی کوئی بات کریں گے؟۔ کیا توہین صرف نہال ہاشمی کے دھمکی آمیز بیان سے ہی ہوئی ہے یا اگر کسی جج کے کہنے پر رجسٹرار نے کسی ادارے کے سربراہ کو فون کیا ہے تو اس سے بھی عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ کیا جج اس بارے میں کوئی وضاحت کریں گے۔
عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو ہمارے اندازے درست نکلے۔تینوں ججوں نے سخت غصے کے اظہار میں وہ کچھ بول دیا جو ہم سننے گئے تھے۔ خصوصی بنچ کے ججوں نے تسلیم کیا کہ رجسٹرار کو انہوں نے کالز کرنے کیلئے کہاتھا۔ ججوں نے حکومت کو اٹلی کے جزیرے سسلی کی بدنام زمانہ مافیا سے ملا دیا۔ یہ سب کچھ بجا،آپ کا فرمایاہوا سر آنکھوں پر حضور، مگر یہ بھی تو بتائیے کہ یہ واٹس ایپ کال کون سی عدالتیں کرتی ہیں؟۔
دنیا میں وہ کون سی عدالت یا جج ہیں جو مقدمہ بھی سنیں اور پھر اپنی مرضی کے تفتیشی افسر لگانے کیلئے خفیہ فون کالز بھی کرائیں۔ جب سب کچھ کھلی عدالت میں زیرسماعت ہے تو پھر رجسٹرار سے کہلوانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ کیا نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے اور حکومت پر غصہ نکال کر جج اپنی غلط کاری کو چھپا رہے ہیں؟ کیا واٹس ایپ کالز اتنی معمولی بات تھی کہ اس کو ججوں نے سماعت کے دوران ایک جملے میں سمو دیا؟۔
عدلیہ کا ادارہ سب کاہے، یہ اس ملک اور کروڑوں لوگوں کاہے۔ اپنے تعصبات گھر چھوڑ کرآئیں ۔اللہ کی کرسی پر بیٹھنا ہے تو انصاف کریں۔
اکتیس مئی کو جسٹس عظمت سعید کی عدالت میں ایک سرکاری ملازم کھڑا ہواکہ اس کو صحت الاﺅنس نہیں مل رہا، سروس ٹریبونل فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیاہے۔ جج صاحب بولے، درخواست واپس لینی ہے یا خارج کرانی ہے؟۔ سائل پریشان بولا، جناب میرے محکمے کے بہت سے دیگر افسران نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیاہے۔ سخت سست سنانے کے بعد بنچ نے سرکاری ملازم کی درخواست پر محکمے کو نوٹس جاری کردیا۔ اس کے بعد بول ٹی وی کا مقدمہ لگا تو وکیل انور منصور نے کہاکہ انہوں نے رات کو نیند نہیں کی کارروائی مﺅخر کی جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ بابراعوان بھی اسی کیس میں وکیل ہیں وہ دلائل دیدیں۔ بابر اعوان نے جواب دیاکہ پہلے انور منصور کی باری ہے۔ ادھر سے پیمرا کے وکیل نے کہاکہ حضور والا، یہ دونوں وکیل ایک ہی فریق کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق صرف ایک وکیل ہی ایک فریق کی جانب سے پیش ہوکر دلائل دے سکتاہے۔ جج صاحب بولے، خیرہے یار، باری باری دلائل دیدیں گے۔ اور پھر سماعت ملتوی کردی گئی۔

انصاف کے پیمانے موڈ کے مطابق بھرے جارہے ہیں، پاکستان زندہ باد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے