کالم

جے آئی ٹی رپورٹ پربحث

جولائی 17, 2017 8 min

جے آئی ٹی رپورٹ پربحث

Reading Time: 8 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
ایک ایسے کمرہ عدالت سے رپورٹ کرنا جہاں ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش ہو، اور سات سو سے زائد لوگ ایک دوسرے کو ھکے دے رہے ہوں، زندگی کا مشکل ترین وقت یوں بھی ہوتا ہے کہ گٹھن اور سانس لینے میں آسانی نہ رہے تو کسی بھی لمحے ہجوم کے پاﺅں تلے روندے جانا کا امکان بڑھ جاتاہے۔
جب عدالت کے کمرے میں چوھری شجاعت اور ظفرالحق جیسے عمررسیدہ سیاست دان بھی صبح نو بجے پہنچ جائیں اور کوئی بھی شخص کالا کوٹ پہن کر وکیل کے بھیس میں داخل ہوجائے، عدالتی کارروائی کی الف بے سے بھی ناواقف پریس کارڈ رکھنے والا صحافی بھی ’وزیراعظم کی نااہلی‘ کے حکم کا عینی شاہد بننے کی کوشش میں ہو تو پھر پیشہ ورانہ مجبوری کی وجہ سے رپورٹنگ کیلئے موجود ہم جیسوں کی ہی شامت آتی ہے جنہوں نے لمحہ بہ لمحہ درست معلومات ٹی وی اسکرین کے ذریعے اپنے ناظرین تک پہنچانا ہوتی ہیں۔
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کا آغاز کیا تو ہرطرف دھکم پیل تھی اور عدالتی ہرکارے منت سماجت کرکے خاموشی اختیار کرنے کا کہنے پر مجبور تھے۔ سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ نظام سے منسلک کمرے میں کئی افراد نے سانس گھٹنے کی شکایت کرتے ہوئے باہر جانے کیلئے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہر شخص پیسنے سے شرابور تھا مگر جج مکمل سکون کے ساتھ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کو سن رہے تھے جنہوں نے تفتیشی رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے اخذ کیے گئے نتائج کے نکات عدالت کے سامنے پیش کیے۔ ابتداء نعیم بخاری نے ان الفاظ میں کی کہ ’اب یہ مقدمہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، چونکہ تفتیش عدالت کے حکم پر ہوئی ہے تو میرا مقدمے میں آنادرست نہیں ہوگا تاہم معاونت کیلئے رپورٹ کے اہم مندرجات کی نشاندہی کرنا چاہتاہوں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ تفتیشی ٹیم نے شریف خاندان نے تمام کاروبار اور آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت کردی ہے، وزیراعظم کی بیرون ملک ملازمت اورکمپنی کی بھی تصدیق ہوگئی ہے، رپورٹ میں گلف اسٹیل کے اثاثوں کے بارے میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں، طارق شفیع کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا گیاہے، امارات کی وزارت قانون نے گلف اسٹیل کی بارہ ملین درہم میں فروخت کی تصدیق نہیں کی، لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مریم نواز کی ملکیت قرار دیا ہے، فلیٹ خریداری کی منی ٹریل اور مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی رپورٹ میں نتائج دیے گئے ہیں، جے آئی ٹی نے وہ دستاویزات بھی حاصل کی ہیں جن سے مریم نواز کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ بیرئیر سرٹیفیکٹ پر بھی جے آئی ٹی نے قانونی رائے حاصل کی ہے اور چونکہ سرٹیفیکیٹ مریم کی تحویل میں نہیں دیے گئے اس لیے قانونی طور پر ٹرسٹ وجود میں ہی نہیں آیا۔ نعیم بخاری کاکہنا تھاکہ جے آئی ٹی رپورٹ نے مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ کا فرانزک ماہر سے معائنہ کرایا جس میں معلوم ہوا کہ دوہزار چھ میں انگریزی خطاطی کا یہ فونٹ دستیاب ہی نہیں تھا جس میں یہ تحریر کی گئی اس لیے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ اسی طرح رپورٹ میں وزیراعظم کے موقف کو تبدیل ہوتے بتایا گیاہے، قطری خطوط کے بارے میں وزیراعظم نے پارلیمان میں بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔
نعیم بخاری کو کافی دیر بعد بنچ کے سربراہ نے مداخلت کرکے روکا کہ اس چیز کا جائزہ لینے کیلئے قانون شہادت میں سیکشن ایک سو باسٹھ موجود ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مائی لارڈ، آپ درست کہتے ہیں کہ گواہ پر عدالت میں جرح ہوتی ہے تب نتائج تک پہنچاجاتا ہے، اسی لیے یہ معاملہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت نہ آنے کا نہیں بلکہ ’کورم نان جوڈس‘ ہے (یعنی ایسی کارروائی جوکسی عدالت کے سامنے نہیں ہوئی)۔ اس کے بعد اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ نعیم بخاری نے کہاکہ مائی لارڈ، مسکرا رہے ہیں جس کی وجہ سے میں کچھ کہنے سے ہچکچا رہا ہوں۔ اب یہ عدالت کاکام ہے کہ جے آئی ٹی کے ساٹھ روزہ کام کا جائزہ لے کہ عدالتی احکامات کے مطابق ہے یانہیں۔ پھر بولے کہ قطری شیخ کا اس پورے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ سرمایہ کاری میاں شریف اور ان کے بیٹوں کے درمیان معاملہ تھا، وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے ’سورس ڈاکومنٹ‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟۔ نعیم بخاری نے جواب دیاکہ دستاویزات کی نقول دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی ایک قدم آگے بڑھی ہے اور پچاس ٹرکوں کے اسکریپ کا لکھا ہے لیکن عزیزیہ اسٹیل مل تریسٹھ کی بجائے صرف اڑتالیس ملین ریال میں بیچی گئی، اس فروخت سے حسین نواز کو صرف چودہ ملین ریال ملے، اس طرح ان کے پاس اسپانسرڈ سرمایہ موجو نہیں تھا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ لگاتے، جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ دوہزار آٹھ میں سعودی عرب کے الرازی بنک سے 35ملین ریال قرض لیا گیا لیکن دوہزار نو میں بنک نے یہ قرض منسوخ کردیا۔ اس موقع پر نوٹس کو دیکھ کر نعیم بخاری نے شیخ سعید کا ذکر کیا اور پھر معاون وکیل کے سمجھانے پر عدالت سے معذرت کرلی کہ غلطی ہوگئی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ اس کے بعد جے آئی ٹی اس علاقے میں داخل ہوئی جسے گرے ایریا کہتے ہیں اور وزیراعظم کے سات لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کا تذکرہ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہاں بھی دستاویز تصدیق شدہ نہیں بلکہ سورس ڈاکومنٹ کا کہاگیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ رپورٹ میں وزیراعظم کو ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ کا چیئرمین بتایا گیاہے اور اس کی دستاویز بھی موجو دہے، یہ سورس ڈاکومنٹ نہیں، حسین نواز نے یہ کمپنی سنہ دوہزار چودہ میں بند کردی، یہ دستاویز انڈیکس میں ایکس پر موجود ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ڈبل ایکس یا ٹرپل ایکس؟۔ ( عدالت میں موجود افراد حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور جج صاحب معلوم نہیں کس طرف دیکھنے لگے)۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق وزیراعظم نے ایف زیڈ ای کمپنی سے جولائی دوہزار تیرہ تک تنخواہ وصول کی لیکن یہ تنخواہ باقاعدگی سے نہیں لی گئی۔جسٹس اعجازافضل نے پوچھاکہ کیا قانون کی شق اکیس کی ذیلی شقوں جی اور ایچ کے مطابق ان دستاویزات کاجائزہ لیاجا سکتاہے؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ ان دستاویزات پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہیں، امارات کی وزارت قانون نے جے آئی ٹی کو چار معاملات پر جواب دیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہم رپورٹ کی دسویں جلد کو بھی کھولیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ کیا جے آئی ٹی نے دستاویزات پاکستان میں لانے کیلئے قانونی طریقہ کار اختیارکیا گیا؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ دستاویزات جے آئی ٹی کی درخواست پر فراہم کی گئیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ خود سے فراہم کردہ دستاویزات اور تفتیشی کی لائی گئی دستاویزات کی قانونی حیثیت میں فرق ہوتا ہے۔
اس دوران جسٹس عظمت سعید کو خیال آیا کہ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء عدالت میں کھڑے ہیں اوران کے بیٹھنے کیلئے کرسی موجو نہیں۔ انہوں نے کہاکہ افسوس ہے کہ جونیئر وکیل بیٹھے ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم جب وکالت کرتے تھے تب ایسی صورتحال کبھی پیدانہیں ہوئی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ روایات تبدیل ہورہی ہیں۔ عدالت کو بتایا گیاکہ وکیل سلمان اکرم راجا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی۔
عدالتی وقفے کے بعد نعیم بخاری نے حسن نواز کی فلیگ شپ اور دیگر تین کمپنیوں کا رپورٹ میں ذکرکیا، قطر کے شیخ کی سرمایہ کاری سے متعلق حسن اورحسین کے بیانات میں تضاد کی بات کی اور کہاکہ سرمایہ کاری بالکل غلط اورمن گھڑت ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ رپورٹ میں سرمایہ کاری کو نہیں اس کی کہانی کو من گھڑت کہاگیا ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ برطانیہ میں شریف خاندان کی کمپنیاں خسارے میں تھیں، حسین نواز کمپنیاں بنانے کیلئے سرمایہ کی فراہمی کابتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان سرمائے کی گردش بھی بتائی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ رپورٹ میں سرمائے کی گردش کابہت ذکرہے مگر کیا یہ بتایا گیا ہے کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ رپورٹ کہتی ہے کہ حسن کے پاس سرمایہ موجود ہی نہ تھا۔اس کے بعد نیب اور ایف آئی اے میں شریف خاندان کے زیرالتواء مقدمات کا ذکر ہوا، پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی بات کی گئی، نعیم بخاری نے فرسٹ لیڈی یعنی کلثوم نواز کا بھی نام لیا اور کہاکہ ان کے بارے میں رپورٹ میں نتائج اخذ نہیں کیے گئے تاہم اسحاق ڈار کو بھی آمدن سے زیادہ اثاثوں کامالک بتایا گیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی سوال پر جے آئی ٹی نے قطری خطوط کو افسانہ قرار دیاہے، مریم کی ٹرسٹ ڈیڈجعلی اور ان کو فلیٹس کا مالک بتایا گیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگرہم مریم نواز کو مالک تسلیم کرلیں تب بھی جب تک وہ وزیراعظم کے زیرکفالت ثابت نہ ہوں تو اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ شریف خاندان کے کاروباری سرمائے کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں ہوئی، انہوں نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے۔ جسٹس عظمت بولے، تو کیا ہوا؟ اس کے کیا اثرات ہوں گے؟۔ نعیم بخاری فورا سنبھل کربولے کہ یہ عدالت پر ہے، عدالت جے آئی ٹی کی سفارشات ماننے کی پابند نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہمیں بتائیں اس رپورٹ میں ہمارے لیے کیاہے جو ہم کریں؟۔ وکیل نے کہاکہ عدالت بیانات میں تضادات سے نتائج اخذ کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل بولے کہ اس کا مطلب ہے آپ صادق و امین پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ ہل میٹل مل لگانے کیلئے شریف خاندان کے پاس سرمایہ نہ تھا، جب مل خسارے میں جارہی تھی اس وقت حسین نے اپنے والد کو اٹھاسی کروڑ بھیجے۔اسی طرح وزیراعظم نے ایف زیڈ ای سے ملنے والی تنخواہ کا گوشوارے میں ذکر نہیں کیا۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھاکہ کیا اس معاملے پرقانون کے مطابق سماعت کیے بغیر فیصلہ کیا جا سکتاہے؟۔ نعیم بخاری بولے کہ پانامہ پیپرز فیصلے میں عدالت نے کہا تھاکہ ضرورت محسوس کی تو وزیراعظم کو وضاحت کیلئے بلایا جاسکتاہے، ہماری استدعاہے کہ وزیراعظم کو بلایا جائے، ہم جرح کریں گے، ہماری استدعاہے کہ وزیراعظم کے خلاف ڈیکلریشن جاری کیاجائے۔ نعیم بخاری کے دلائل اس مرحلے پر مکمل ہوگئے۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے رپورٹ کے مندرجات پڑھنے شروع کیے، پہلے دس منٹ تک تو جج خاموش ہوکر سرکھجاتے رہے پھر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے صرف اس بارے میں قانونی معاونت فراہم کریں کہ اس پر کیسے کارروائی کی جائے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کے نتائج ماننا ہم پر لازم تو نہیں، یہ بتایاجائے کہ ان نتائج کے مطابق عدالت کیا فیصلہ کرسکتی ہے؟۔وکیل نے کہاکہ رپورٹ کے نتائج کے مطابق بظاہر وزیراعظم نااہل قراردیے جاسکتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے نتائج کس حد تک ماننے ہیں اور اس کی کیا شرائط ہیں اس کیلئے قانونی معاونت کریں، آپ کے بظاہر کامطلب ہے کہ بات ابھی حتمی نہیں۔ اس پرجب ہنسنے کی آوازیں ابھریں تو جماعت کے وکیل نے کہاکہ وہ شریف خاندان کے وکلاءکے دلائل کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اورامید ہے کہ ان کو اس کاموقع دیاجائے گا۔
اس کے بعد درخواست گزار شیخ رشید سامنے آئے اور وہی تقاریر دہرائیں جو عموما ٹی وی پر بولتے رہتے ہیں، جج خاموشی سے سنتے رہے، (یہاں ان تمام باتوں کو دوبارہ لکھنا وقت اور تحریرکی طوالت کا باعث ہوگا)۔ شیخ رشید نے کہاکہ ساری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، شریف خاندان رنگے ہاتھوں پکڑاگیاہے، شیخ رشید نے کہاکہ ان لوگوں کو ایسی سزا دیں کہ تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ شیخ رشید کی جانب سے ججوں کو جناب اسپیکر کہنے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایاکہ ایک درخواست تفتیشی رپورٹ کی جلد دس کے حصول کیلئے دائر کی ہے تاکہ بہتر قانونی دلائل کے ساتھ مقدمہ پیش کیاجاسکے، انہوں نے کہاکہ دوسری درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات دائر کیے ہیں، وکیل نے کہاکہ تفتیشی ٹیم نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا اور بیرون ملک سے دستاویزات کے حصول میں قانون کی خلاف ورزی کی، بغیر کسی تصدیق کے دستاویزات کا ثبوت کہاگیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگر ایک ملزم تفتیشی افسر کے سامنے اعتراف جرم کرتاہے تب بھی عدالت نے اس کو قانون کے مطابق پرکھنا ہوتاہے ، جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک تفتیشی کی رپورٹ ہے اگرچہ یہ ٹیم نے تیار کی ہے، اس رپورٹ کے بارے میں آئین وقانون کیا کہتاہے اس کو بھی دیکھناہوگا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ اس رپورٹ میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، صرف اس رپورٹ کی بنیاد پر نیب کو ریفرنس بھی نہیں بھیجا جاسکتا، جے آئی ٹی اپنی رائے دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتی تھی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ صرف تفتیش تھی جو مکمل ہوگئی ہے اب اس رپورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے اخذ کیے نتائج کی بنیاد پر کیاکارروائی جاسکتی ہے، عدالت کو اس پر قانونی رائے سننی ہے وکیل معاونت کریں۔وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی نے جو دستاویزات رپورٹ میں شامل کیں ان پر کسی کی شہادت ہی ریکارڈ نہیں کرائی۔ عدالتی وقت ختم ہونے لگا تو سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ وہ مریم اورحسن وحسین کی جانب سے پیش ہوں گے جبکہ وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے کہاکہ وہ اسحاق ڈار کی نمائندگی کریں گے انہوں نے رپورٹ پر اعتراض جمع کرایا ہے۔ مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے گیارہ صفحات کے اعتراضات میں سب سے اہم حصہ آئی ایس آئی کے اس نمائندے کی قانونی حیثیت پر سوال ہے جو جے آئی ٹی کارکن تھا۔ اعتراض میں کہاگیاہے کہ وہ شخص آئی ایس آئی کا صرف مخبر ملازم ہے اور اس کی سرکاری حیثیت ہے نہ ہی اس کو محکمے سے تنخواہ ملنے کا کوئی دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے