کالم

دستاویزات اصلی ہیں یاجعلی

جولائی 20, 2017 13 min

دستاویزات اصلی ہیں یاجعلی

Reading Time: 13 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
سماعت کے آغاز پر بنچ کے سربراہ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ گزشتہ روز عدالت میں دستاویزات جمع کرانے کیلئے مہلت لی گئی تھی مگر حسین نواز کی یہ دستاویزات پہلے میڈیا کو جاری کی گئیں، اگرایسا ہی کرنا ہوتا ہے تو دلائل بھی میڈیا پر ہی دے دیں، وہیں مقدمہ لڑلیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ باہر میڈیا کا پوڈیم لگا ہے وہاں جاکر بات کرلیں۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہاکہ دستاویزات میڈیا میں آنے کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی کیلئے بھجوائی گئی دستاویزات موصول ہوئی ہیں ان میں قطر کے شیخ کا خط اور برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل کا جواب شامل ہے، عدالت میں سب کے سامنے کھولی جارہی ہیں اور فریق کو اس کی نقل فراہم کی جائے گی۔
وکیل نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اعجازالاحسن نے بات کرنا شروع کر دی۔ وکیل نے بھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ مجھے بولنے دیا جائے۔ اس صورتحال میں جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ راجا صاحب، آپ کو تفصیل سے سنیں گے جب جج بول رہا ہو تو آپ خاموش رہ کرسن لیا کریں۔ وکیل نے اس پر معذرت کرلی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جو دستاویزات عدالت کے سامنے ہیں ان پر جے آئی ٹی نے مریم سے سوال کیے تھے، انہوں نے لاعلمی ظاہرکی تھی تو کیااب اس کے نتائج نہیں ہوںگے؟۔ وکیل نے کہاکہ تمام امور پر تفصیل سے معاونت کروں گا، پہلے متحدہ عرب امارات کی دستاویزات پر دلائل دینے ہیں، تفتیشی ٹیم نے امارات سے منتقل کی گئی مشینری کو اسکریپ کہا، تفتیشی ٹیم نے طارق شفیع کو اہلی اسٹیل کے پچیس فیصد حصص کی فروخت سے حاصل بارہ ملین درہم کو بھی غلط قراردیاہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ پہلے امارات کے محکمہ انصاف کا وہ خط دیکھ لیتے ہیں جس میں تفتیشی ٹیم کو بتایا گیا ہے کہ انہوں نے طارق شفیع کے حصص فروخت کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی مشینری دبئی سے جدہ گئی کیونکہ اس کی بنیادپر ہی جے آئی ٹی نے آپ کی دستاویزات کو غلط کہاہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی نے آپ کی دستاویزات کی محکمہ انصاف امارات سے تصدیق کرائی اور نہ ہونے پر اپنی رپورٹ میںان کوغلط قراردیا۔ وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے یہ بات حسن، حسین کو جرح کے وقت نہیں بتائی ورنہ وہ جواب دیتے اور درست کرتے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ دبئی حکام نے کہاکہ یہ دستاویزات انہوں نے بنائی ہی نہیں ہیں، ان سے کبھی تصدیق بھی نہیں کرائی گئی جبکہ آپ کی دستاویزات پر دبئی کی مہرہے، اب اس مرحلے پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کے سوالوں کے جواب میں حسین اور طارق شفیع دونوں نے کہاکہ انہوں نے دبئی جاکر ان دستاویزات کو تصدیق نہیں کرایا، جب اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں تو پھر یہ جعلی ہی ہوئیں۔ وکیل نے کہاکہ حسین نے کہا کہ وہ خود نہیں گیا، اس کی طرف سے کوئی گیا ہوگا۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ دبئی حکا م نے ان دستاویزات پر تصدیق شدہ نہ ہونے کی مہر لگائی۔ وکیل بولے کہ حسین سے جے آئی ٹی نے ان دستاویزات پر سوال ہی نہیں کیے۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ اگر دوبارہ تصدیق کیلئے بھیجیں اور نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ہم کھلے دل اور دماغ کے ساتھ بیٹھے ہیں، پہلے بھی تفصیل سے سنا تھا، سارے گلے شکوے دور کرچکے ہیں کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔وکیل نے کہاکہ موقع دیاجائے دبئی حکام سے تصدیق کرادیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ تصدیق کراتے پھریںاور ہم بیٹھے آپ کا انتظار کرتے رہیں۔ وکیل بولے کہ مجھے ملزم ٹھہرایا گیا ہے تو میرے جواب کا انتظار بھی کرناہوگا، دبئی حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتاہوں۔ جج نے حسین نواز کے تفتیشی ٹیم کے سامنے خاموشی کی بات دہرائی تو وکیل بولے کہ جے آئی ٹی میں جب آئی ایس آئی کے نمائندے نے غیر ضروری طورپر حسین سے اپنے دوست کا نام بتانے کیلئے کہا تو وہ خاموش ہوگئے کیونکہ یہ کسی اور کو اس معاملے میں گھسیٹنے یا ملوث کرنے کے مترادف تھا۔ عدالت میں مشینری برآمد کی کسٹم دستاویز سامنے آئی تو جسٹس عظمت سعید نے ازراہ تفنن کہاکہ دستاویز رنگین ہے لیکن کچھ چیزیں بلیک اینڈ وائٹ میں ہی اچھی لگتی ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ نئی دستاویز کو بھی دیکھیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ دبئی حکام نے دوسری تصدیق شدہ دستاویز کوبھی جعلی کہاہے۔ وکیل بولے کہ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ جسٹس عظمت سعید کو پھر مذاق سوجھا اور برجستہ کہاکہ آپ کو حق ہے کہ اتفاق نہ کریں، دبئی اور برطانیہ کے حکام کی دستاویزات سے اتفاق نہ کریں، حق ہے کہ کیلبری فونٹ سے بھی اتفاق نہ کریں۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ حسین کہتے ہیں اسکریپ ٹرکوں پر گیا مگر دبئی حکام نے تصدیق نہ کی۔ وکیل بولے کہ جے آئی ٹی نے اس کو اسکریپ کہا، یہ اسٹیل مل کی پرانی مشینری تھی۔جج نے پوچھاکہ اسٹیل مل دبئی میں تھی مگر مشینری ابوظہبی سے جدہ کیسے گئی، دستاویزات تو یہی دکھا رہی ہیں۔ اگر دبئی سے ابوظہبی گئی تو اس کا ریکارڈ کیوں نہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ امارات کی مختلف ریاستوں کے اندر نقل وحمل پر کسٹم دستاویز نہیں بنتی۔اسٹیل مل دبئی میں ہی تھی یہ مشینری بذریعہ سڑک ابوظہبی گئی ، وہاں سے جدہ منتقل کی گئی۔ جے آئی ٹی نے مشینری درآمد کا سوال ہی نہیں کیاوگرنہ حسین نوازان کو تفصیل سے سمجھا دیتے۔ ہم نے معاملے کی تمام کڑیاں جوڑ دی ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے اور اس کے دستاویزات بھی فراہم کردیے ہیں۔جسٹس عظمت نے کہاکہ ایسا عدالت کی وجہ سے ممکن ہواہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ سب کڑیاں وقت گزرنے کے ساتھ ملائی گئیں اور خلا کو پر کیا گیا۔وکیل بولے کہ ان دستاویزات کو فکشن (اختراع) نہیں کہاجاسکتا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں اخذ نتائج نہیں بلکہ ریکارڈ پر لائی گئی دستاویزات کو دیکھ رہے ہیں۔ وکیل بولے کہ تفتیشی ٹیم کی دستاویزات کی نفی کیلئے اپنی دستاویز لایاہوں۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ ہم نے یہ تمام نکات لکھ لیے ہیں، آگے بڑھیں۔ وکیل بولے مائی لارڈ، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ کیاہم آپ کو دکھادیں کہ یہ نکتہ لکھ چکے ہیں۔
وکیل سلمان اسلم نے کہاکہ عدالت کو یہ بتا رہا ہوں کہ جن دستاویزات پر تفتیشی ٹیم نے انحصار کیا وہ درست نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ کیا عزیزیہ اسٹیل مل تریسٹھ ملین ریال میں بکی؟ رقم کس نے وصول کی؟۔ کیا اس کے ذمے اکیس ملین کا قرض واجب الادانہ تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ اس کا تمام ریکارڈ دستیاب ہے۔جسٹس اعجاز نے پوچھا کہ عزیزیہ کے ذمے قرض کتنا تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ کہ تمام تریسٹھ ملین حسین کو ملے، کوئی قرض نہیں تھا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ابتدائی کیس میں مخدوم علی خان اور نعیم بخاری نے دلائل دیے تھے کہ اکیس ملین کا قرض مل کے ذمے واجب الادا تھا۔ وکیل بولے کہ مائی لارڈ، وہ گلف اسٹیل کا معاملہ تھا، عزیزیہ اسٹیل مل دوہزار پانچ میں فروخت ہوئی، تفتیشی ٹیم کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس کی فروخت سے بیالیس ملین ریال ملے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ معاہدہ ریکارڈ پر ہے کہ بنک کو اکیس ملین ریال کا قرض لوٹانا ہوگا۔ وکیل نے کہاکہ حسین کے پاس سارے تریسٹھ ملین اکاونٹ میں منتقل ہوئے، اکیس ملین قرض پہلے ہی ادا کر دیا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ یہ تو مان لیاکہ قرض ذمے واجب لاداتھا ،اب یہ کس نے اورکیسے ادا کیامعلوم نہیں۔ جسٹس عظمت نے وکیل کو مخاطب کیا اور بولے کہ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں مری جان، کسی نے تو آپ کی طرف سے اکیس ملین اداکیے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ مطلب تو یہ ہواکہ عزیزیہ میں تین شراکت دارتھے، اب اس کی بھی دستاویز لائیں اور بتائیں کہ کیا دیگر دو افراد نے اپنا حصہ نہیں لیا۔ وکیل بولے کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال پوچھا ہی نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ اور کیسے پوچھتے، کیا اخبار میں اشتہار دیتے؟۔
وکیل نے کہاکہ میرا مقدمہ یہ ہے کہ عزیزیہ سے تمام تریسٹھ ملین مجھے ملے۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ ثابت کریں باقی دوشراکت داروں نے اپنا حصہ بھی حسین کو دیا، حسین کی جانب سے شراکت داروں کے حصص خریدنے کی دستاویز دکھادیں۔ وکیل نے کہاکہ شراکت دار اپنے حصے کیلئے کسی عدالت نہیں گئے، بارہ برس پرانا معاملہ ہے دستاویز ملی تو دکھا دوں گا، باقی اگر حصہ داروں نے حسین کو دیدیا تو کیا ہوسکتا ہے،یہ خاندانی معاملہ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حسین نے عدالت میں الگ اور جے آئی ٹی کے سامنے مختلف موقف اختیارکیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ بتادیں کہ تریسٹھ ملین ریال کہاں گئے؟۔ وکیل بولے کہ ان کاکچھ حصہ لندن اور کچھ واپس یہاں آیا۔ جسٹس اعجاز نے پوچھاکہ کیا یہاں واپس آنے والی رقم کی کوئی دستاویز ہے؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ تمام ٹرانزیکشن بنک کے ذریعے ہوئی اور ان کا ریکارڈ موجود ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ کب پیش کریں گے؟ ڈیڑھ سال سے اس منی ٹریل کا پوچھ رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اسٹیل مل کا منافع تو نظر آرہاہے مگر اس کو لگانے کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا معلوم نہیں۔
وکیل نے کہاکہ پہلے یہ بتانے دیں کہ حسین پر الزام کیاہے؟۔ بانوے ترانوے میں فلیٹ لینے کا الزام نہیں کیونکہ اس وقت وہ بچے تھے۔ جسٹس عظمت نے پوچھاکہ فلیٹ کس کے بچوں کے پاس تھے؟۔ وکیل نے کہاکہ فلیٹ تین بھائیوں کی اولاد یعنی حسن، حسین، حمزہ اور ہارون کی رہائش گاہ تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ الزام فلیٹوں کی خریداری کے ذرائع نہ بتانے کا ہے۔جسٹس عظمت نے معاملے کی پس منظر کی جانب تفصیل سے توجہ دلائی اور کہاکہ موزیک فونسیکا کی دستاویزات سے کمپنیاں سامنے آئیں، معلوم ہواکہ نیلسن اور نیسکول لندن فلیٹوں کی مالک ہیں، موزیک فونسیکا نے منروا دستاویزات کی بنیاد پر مریم بی بی کو کمپنیوں کامالک کہاہے، مریم آپ کی موکل ہے، اوپر سے نیچے کی طرف آئیں یا نیچے سے اوپر کی طرف جائیں لیکن عدالت کو بتائیں کہ مریم نواز مالک نہیں ہیں تو کمپنیوں کامالک کون ہے۔ وکیل نے کہاکہ مریم کی ملکیت بتانے کیلئے صرف ایک منروا کمپنی کی دستاویز پر انحصار کیا گیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگر ثابت ہو گیا تو پھر بتانا ہوگا کہ مریم نے کمپنیاں کیسے بنائیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ دستاویزات آنے کے بعد یہ الزام نہیں رہا ’میٹر آف فیکٹ‘ بن چکاہے۔ وکیل نے کہاکہ پہلے مجھے معاملے کی جڑ کی طرف جانے دیں۔دراصل یہ دستاویزات سامنے ہی غلط طریقے سے آئی ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ عدالت میں درخواست اس الزام کے ساتھ دائر کی گئی کہ شریف خاندان کے اثاثے وزیراعظم نے بچوں کے نام پر بنائے۔ اس دوران جسٹس عظمت کو میڈیا کی خبریں یاد آگئیں اورکہاکہ باہر سب اپنے مطلب کی بات نکالتے ہیں، ہم پریس سے نہیں وکیل سے مخاطب ہوتے ہیں، یہ صرف ہم اور وکیل جانتے ہیں کہ نیب قانون کا سیکشن نواے پانچ کیاہے۔باہر تو لوگ اس کو صرف کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کہہ کر اپنا مطلب بیان کرتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الزام یہ ہے کہ یہ لوگ بے نامی مالک ہیں۔ وکیل نے کہاکہ حسین نے دوہزارچھ میں فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ، اس سے پہلے جس کے تھے اسی سے پوچھاجاسکتاہے۔مریم، حسن اورحسین پر کسی غلط کام کا الزام نہیں ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ اگر بچوں پر الزام نہیں تو پھر وزیراعظم پر الزام ہے۔ وکیل نے کہاکہ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ الزام بانوے ترانوے میں فلیٹس خریدنے کاہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ الزام مریم کے مالک ہونے اور ان کے وزیراعظم کے زیرکفالت ہونے کاہے۔مریم کے نام ٹرسٹ ڈیڈ ہے اور صفدر اور نوازشریف نے اپنے اثاثوں کے گوشواروں میں اس کا ذکر نہیں کیا، یہ الزام ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ بھی الزام سامنے آیاہے کہ مریم نے عدالت میں جعلی دستاویز جمع کرائی۔
وکیل نے کہاکہ یہ الزام ہیں کوئی دستاویز تفتیشی ٹیم لے کر نہیں آئی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ باربار پرانی باتیں دہرارہے ہیں، آگے بڑھیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ راجا صاحب، اب ذرا چکری سے آگے چلیں۔وکیل راجا سلمان اکرم نے کہاکہ حسین نے جدہ میں کمپنی لگائی اور کاروبار کا آغاز کیا، جسٹس اعجاز الاحسن برجستہ گویاہوئے کہ اور یہ کمپنی خسارے میں چلنا شروع ہوئی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ بتادیں کہ اسٹیل مل اگر دادا کے سرمائے سے لگائی تو منی ٹریل کہاں ہے۔ ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں۔وکیل نے کہاکہ یہ بتانے عدالت میں کھڑا ہوں، امید ہے کہ ایسے ریمارکس نہیں دیے جائیں گے کہ کہ میڈیا پر ہمارے خلاف استعمال ہوں۔حسین نواز کوئی حکومتی عہدیدار نہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگر بچے اثاثے بنانے کے ذرائع بتاکر مطمئن کرتے ہیں تو وہ خود اور وزیراعظم بھی بری الذمہ ہوجائیں گے اور اگر ایسا کرنے میں ناکام ہوتے تو پھر نقصان عوامی عہدے دار (وزیراعظم) کو ہوگا۔عدالتی وقفے کیلئے نشست سے اٹھتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل نے وکیل کو مخاطب کیاکہ پہلے بیس منٹ تک آپ نے متاثرکن دلائل دیے مگر بعد بھی پرانی باتیں باربار دہرائیں۔
وقفے کے بعد وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے شیخ حمد کا بیان ریکارڈ نہیں کیاحالانکہ اس پورے معاملے میں ہمارا بنیادی دفاع ہی شیخ کے خطوط پر ہے، جے آئی ٹی نے حسین نواز کے سامنے دستاویزات رکھ کر سوالات نہیں کیے، اگر کسی دستاویز کی تصدیق نہیں ہوسکی یا اس پر سوال اٹھائے گئے ہیں تو اس کی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اب یہ نئی بات کی جارہی ہے کہ مزید تحقیق کی جائے۔جے آئی ٹی نے رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں کی، رحمان ملک کے بیان کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا۔ دستاویزات کے تجزیہ کا کہہ رہاہوں، تفتیش کی بات نہیں کررہا، ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر کاروبار کررہے ہیں، جب تک کسی پر غلط کام کرنے کا تعین نہ ہوجائے نیب قانون کیسے لاگوکیا جاسکتاہے؟۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ معاملہ غلط کام کا نہیں، جس کی ملکیت ہے اس نے وضاحت دینی ہے۔ وکیل نے دوبارہ کہاکہ حسین نواز بیرون ملک کاروبار کررہے ہیں اس پر احتساب کا قانون نہیں لگایا جاسکتا۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ مقدمہ کہاں جانا ہے، فیصلہ کہاں ہونا ہے یہ ابھی طے کیا جاناہے۔ وکیل نے کہاکہ حسین نواز عوامی عہدہ نہیں رکھتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وہ وزیراعظم کے بیٹے ہیں۔ جسٹس عظمت نے پوچھاکہ کیا ہم یہ مقدمہ نیب کو بھیج دیں، وکیل نے کہاکہ پہلے درست تفتیش تو ہو کہ مقدمہ بنتا بھی ہے یا نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سرمایہ کاری کی وضاحت نہیں آئی، قانون کہتاہے کہ اگر وضاحت نہیں آتی تو سمجھا جائے گاکہ وضاحت موجو د نہیں۔ وکیل نے کہاکہ ہمارا مقدمہ ہے کہ قطر میں سرمایہ کاری سے اثاثے بنائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ وضاحت قابل قبول ہے۔ وکیل نے کہاکہ وضاحت قابل قبول ہے،مگر یہ عدالت اس مرحلے پر اس کا تعین نہیں کرسکتی۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ کیا آپ نے ہمارا ذہن پڑھ لیاہے کہ ہم اس کا فیصلہ کرکے بیٹھے ہیں۔ وکیل بولے کہ گزشتہ بیس برس سے عدالتوں میں پیش ہو رہا ہوں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ مجھے تو جج بنے صرف بارہ برس ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے سرکاری ذریعے سے تصدیق کی کہ مریم آف شور کمپنیوں کی مالک ہے، اس کے جواب میں آپ اپنی نجی خط وکتابت لے کر آئے ہیں کہ منروا نے حسین نواز کے کہنے پر کمپنیوں کاانتظام سنبھالا، بتائیں آپ کی نجی دستاویز کو کیسے مان لیں۔ وکیل بولے کہ اس وقت برٹش ورجن حکام نے غلطی کی، اسی کو درست کرنے کا کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اعجاز نے پوچھاکہ کیا آپ نے اس غلطی کو درست کرنے کیلئے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ دوہزار بارہ کی بات ہے، اب دوہزار سترہ ہے، یہ خط وکتابت کمپنی کے مالک کو بتائے بغیر کی گئی۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ یہ نجی طورپر تیار کی گئی دستاویزات ہیں۔ وکیل نے کہاکہ حسین نواز کے جس نمائندے نے دبئی میں حکام سے دستاویزات کی تصدیق کرائی وہ اس عدالت میں موجودہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حسین نے اس نمائندے کا جے آئی ٹی کو کیوں نہ بتایا؟۔ وکیل بولے کہ حسین سے جے آئی ٹی نے پوچھا ہی نہیں، اور تفتیشی ٹیم میں موجود فوجی افسران کی وجہ سے بھی حسین جواب نہ دے پائے۔نیلسن اور نیسکول کے رجسٹرڈ شیئرز دوہزار چھ میں جاری ہوئے، یہ سب کچھ نئے قوانین کی وجہ سے چند گھنٹوں میں کیاگیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ چند گھنٹوں نہیں بلکہ بارہ دنوں میں ایک درجن ای میلز کے تبادلے کے بعد مریم کو آف شور کمپنیوں کا مالک بتایا گیا۔ اگر یہ سب کچھ غلطی کی وجہ سے ہوا تو اس کو درست کرنے کیلئے کیا کیا گیا؟۔جسٹس عظمت نے کہاکہ عدالت میں پہلی ٹرسٹ ڈیڈ وکیل اکرم شیخ نے دی تھی، یہ ہے تو کومبر کمپنی کے بارے میں مگر شیڈول نیلسن اور نیسکول کا دیاگیاہے۔ وکیل سلمان اکرم نے کہاکہ کلریکل غلطی ہے۔جسٹس عظمت نے فورا مذاق میں کہاکہ آپ نے یہ غلطی دیکھ لی اب ہماری فائل واپس کردیں ہمیں اعتبار نہیں۔ وکیل نے بھی جواب دیاکہ میں بھی آپ کی گرم فائل زیادہ دیر ہاتھ میں اٹھائے رکھنے کا متحمل نہیں رہا۔
اس کے بعد عدالت مریم کے ٹرسٹ ڈیڈپر کیلبری فونٹ یا رسم الخط کی طرف آئی۔ جسٹس عظمت کے سوال پر فرانزک آڈٹ رپورٹ کہتی ہے کہ مریم کے دستخط والا صفحہ دوبار استعمال کیاگیا، اور بادی النظر میں ایک جعلی دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی، اٹارنی جنرل بتائیں کہ اس کی کیا سزاہے؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ اس جرم میں سات سال قید ہوسکتی ہے۔ وکیل نے کہاکہ یہ دستاویز سپریم کورٹ سینئر وکیل اکرم شیخ نے دی تھی، ان سے پوچھ کر بتاسکتا ہوں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ راجا صاحب، یہ آپ لوگوں نے کیا کردیا، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا ہوسکتاہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ایک اور بات بھی ہے کہ جس دن ٹرسٹ ڈیڈکی تصدیق کرائی گئی لندن میں چھٹی تھی، چار فروری دوہزار چھ بروز ہفتہ بنتاہے۔صرف یہ دستاویزات ہی مختلف دنوں میں نہیں تیار کرائی گئیں بلکہ تصدیق بھی مختلف دنوں میں کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ امید ہے اور ممکن ہے کہ اس دستاویز پر وضاحت موجود ہوگی، قانون اپنا راستہ بنائے گا اور عدالت اس کو دیکھے گی۔ وکیل نے کہاکہ دوہزار چھ میں کیلبری رسم الخط کا بیٹا ورژن دستیاب تھا اور لگ بھگ پانچ لاکھ لوگ اس کو استعمال کررہے تھے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ کیا انگلش لاء فرم کی جانب سے ایسا فونٹ غیر قانونی طورپر استعمال کیے جانے کا تصور بھی کیاجاسکتاہے؟ وہ تو پھونک پھونک کرچلتے ہیں، چھینک مارنے پر جرمانہ کردیتے ہیں۔جسٹس اعجاز نے کہاکہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں۔ وکیل نے کہاکہ یہ سوال کسی باقاعدہ سماعت کے دوران عدالت کے سامنے رکھ کر جواب تلاش کیا جاسکتا ہے۔
وکیل نے کہاکہ مریم کے کمپنیوں کے مالک ہونے کی براہ راست دستاویز موجود نہیں صرف ایک موزیک فونسیکا کی خط وکتابت ہے، مگر کیا کوئی تھرڈ پارٹی کے کہنے سے مالک تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایک طرف قانونی طریقے سے لائی گئی دستاویز ہے اور دوسری جانب جیب سے دستاویز نکالی جائے تو دونوںکی حیثیت میں فرق ہوتاہے۔
وکیل نے کہاکہ حسن نواز کی کمپنی لگانے کیلئے بھی ابتدائی سرمائے پر سوال اٹھائے گئے۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ سوال یہی ہے کہ سرمایہ کس ذریعے سے آیا؟ کیا نقد کی صورت میں حاصل کیا گیا؟۔ وکیل نے کہاکہ حمد بن جاسم نے کاروبار کی شراکت داری کے خاتمے پر مہیا کیا، ان کو بلاکر پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس عظمت نے کاکہ یہ سرمایہ لندن گیا ہے، وہاں قوانین سخت ہیں، وہ کوئی ٹمبکٹو تو نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کاکہ نہ ہی وہ پانامہ ہے۔شیخ حمد نے اپنے دونوں خطوط میں اس سرمائے کی فراہمی کا ذکر نہیں کیا ۔ وکیل نے کہاکہ شیخ حمد نے دیگر سرمائے کا بھی کہاہے اس کو بلایا جاتا تو وہ وضاحت کردیتے کہ دیگر میں یہ سرمایہ شامل تھا۔
جسٹس عظمت نے کہاکہ شیخ حمد یہاں آنے کیلئے تیار نہیں، اس نے کہاکہ وہاں آجائیں۔ اب اگر ہم دوحا جائیں تو واپس کیسے آئیں گے اور وہاں تو براہ راست فلائٹ بھی نہیں جاسکتی۔ اس مذاق کے بعد جسٹس اعجازالاحسن کو بھی مذاق سوجھا اور کہنے لگے کہ جب شیخ حمد پیش ہونے کیلئے تیار ہی نہیں تو معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے، وہ تو ویڈیو لنک پر بھی نہیں آتے، شاید فوٹو جینک نہ ہوں۔ اس پر عدالت میں قہقہے گونجے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ شیخ حمد اہم گواہ ہیں مگر کسی بات کیلئے تیار ہی نہیں تو عدالت کیا کرے۔ وکیل نے کہاکہ یہ عدالت ارسلان افتخار کیس فیصلے میں اسی طرح کی صورتحال پر کو تفصیل سے بیان کرچکی ہے، تفتیش کی رپورٹ پر رائے دی گئی ہے۔ میری استدعا یہ ہے کہ جب معلومات درکار ہوں تو گواہ سے رابطے کیلئے بہت کچھ کیا جاتاہے، یہاں تو شیخ حمد سے گواہی کیلئے بات ہی نہیں کی گئی۔ شیخ حمد کو صرف قوانین کے حوالے دے کر بلایا گیا، عدالت کو معلوم ہے کہ قطر میں ان دنوں کیا صورتحال ہے۔ جسٹس عظمت نے پوچھا کہ کیا آپ کو حسین نواز نے کوئی ہدایات دی ہیں کہ شیخ حمد آنے کیلئے تیار ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ مجھے ایسی کوئی ہدایات نہیں ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ شیخ حمد کو پیش کرنا حسین کی ذمہ داری تھی کیونکہ ان کے گواہ ہیں۔
سماعت کے اختتام پر جسٹس عظمت نے پوچھا کہ دبئی میں ایف زیڈ ای کمپنی تھی اس کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا؟۔ جسٹس اعجاز افضل نے پوچھاکہ کیا وزیراعظم اس کمپنی کے بورڈ میں چیئرمین تھے اور کیا تنخواہ بھی لیتے تھے؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ یہ کمپنی دوہزار چھ سے دوہزار چودہ تک قائم رہی، وزیراعظم بورڈ چیئرمین تھے مگر تنخواہ نہیں لی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اس کمپنی کے ذریعے حسن کی فلیگ شپ کمپنی کو ساڑھے چھ لاکھ پاﺅنڈ بھیجے گئے۔ وکیل نے کہاکہ اس پر کل دلائل دوں گا۔
عدالت کے پوچھنے پر ایف بی آر کے وکیل نے بتایاکہ اسحاق ڈار کے گوشوارے نیب کی جانب سے لیے جانے اور واپس کیے جانے کی سرکاری رسیدیں موجود نہیں ہیں۔ عدالت نے سماعت کے اختتام پر ہدایت کی کہ کیپٹن صفدر کی جانب سے اگر کسی نے پیش ہونا ہے تو کل آگاہ کیا جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے