کالم

اصل قوت و اختیار

جولائی 31, 2017 5 min

اصل قوت و اختیار

Reading Time: 5 minutes

کسی بھی ریاست کی اصل قوت و اختیار اس کے دائمی اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ محض عوامی مقبولیت کی بنیاد پر ان اداروں کو نظرانداز کرنے یا اپنے تابع لانے کی خواہش کرنے والے سیاستدان کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔
امریکی صدر ریگن کے ساتھ واٹر گیٹ سکینڈل کی بدولت یہی کچھ ہوا تھا۔ سرد جنگ کے دوران چین سے دوستی کی راہ بنانے کے بعد وہ امریکی ریاست سے بالاتر ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اپنے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی تقریباً یہی ہوا تھا۔ اس لئے تو کال کوٹھری میں بیٹھ کر ”اگر مجھے قتل کردیا گیا“ والی کتاب لکھتے ہوئے وہ بارہا اس حقیقت کا اعتراف کرتے رہے کہ اپنی مقبولیت کو وہ ”انقلابی“ بنانے میں ناکام رہے۔ اقتدار کے کھیل کو انہوں نے روایتی انداز میں لیا اور بالآخر دھوکا کھا گئے۔ ترکی کے صدر اردوان نے بھٹو جیسی غلطیاں نہیں کیں۔ اسی لئے ان دنوں اپنے ملک کا ”سلطان“ ہوا بیٹھا ہے۔
نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگائے جانے کے بعد ہمارے سیاسی اُفق پر 1981ء میں نمودار ہوئے تھے۔ پنجاب کے فوجی گورنر جنرل جیلانی نے انہیں اپنا وزیر خزانہ بنایا۔ یہ جنرل، بھٹو کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ ان کے دستِ شفقت تلے نواز شریف کو ریاست کے دائمی اداروں کی قوت کا حقیقی ادراک ہوا۔ اسی لئے تو وہ اپنی ہی جماعت مسلم لیگ، جسے 1985ءکے بعدفوجی نگرانی میں نئی زندگی عطا ہوئی تھی، کے سربراہ اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خلاف دل وجان سے استعمال ہونے کو آمادہ ہوئے تھے۔
ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے ”طریقہ واردات“ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد نواز شریف نے ان کی قوت کو 1990ءمیں پہلی بار اس ملک کا وزیراعظم بننے کے لئے بہت مہارت سے استعمال کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی فراغت کے بعد اگرچہ ان دنوں کے صدر اور آرمی چیف کی خواہش غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانا تھا۔ وزیراعظم بننے کے چند ہی ماہ بعد مگر ان کے صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ سے اختلافات شروع ہوگئے۔ ریاست کے دائمی اداروں کی سوچ مگر ان دنوں متفقہ نہ تھی۔ نوکر شاہی کے لئے ”بابا“ غلام اسحاق خان ”فرسودہ سوچ کا حامل ہوچکا تھا“۔عسکری قیادت کو خدشہ تھا کہ اسلم بیگ کسی نہ کسی صورت جنرل ضیاءکے دور کی جانب واپس لوٹنا چاہ رہے ہیں۔ نواز شریف نے بہت ذہانت سے ریاست کے دائمی اداروں میں ابھرتے خدشات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو وقت سے تین ماہ قبل جنرل بیگ کا جانشین نامزد کروادیا۔غلام اسحاق خان کو گھیرنے کاطریقہ کار مگر وہ سوچ نہ پائے۔ اس لئے کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے 11 اپریل 1993ءمیں ان کی پہلی حکومت کو ”بابے“ نے فارغ کردیا۔ نواز شریف کی یہ فراغت عوامی سطح پر ناپسند ٹھہری۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی حکومت کو بحال کردیا۔ اپنی آئینی مدت وہ اس کے باوجود مکمل نہ کر پائے۔ جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کی۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے عہدوں سے استعفے دے کر 1993ءمیں قبل از وقت انتخابات کی راہ بنائی جن کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم کے دفتر پہنچ گئیں۔ محترمہ کی دوسری حکومت کو قبل از وقت اقتدار سے فارغ کروانے کے لئے نواز شریف نے ریاست ہی کے دائمی اداروں میں حلیف تلاش کئے۔ صدر فاروق خان لغاری کو شاہد حامد کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا۔انہوں نے محترمہ کی حکومت کو فارغ کیا تو سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کو جسٹس نسیم حسن شاہ کا لکھا ”تاریخی فیصلہ“ یاد ہی نہ آیا۔ایک اور قبل از وقت انتخابات کے بعد نوازشریف دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم بن جانے کے چند ہی روز بعد انہوں نے لغاری اور سجاد علی شاہ کو گھر جانے پر مجبور کردیا۔ ان دونوں کی فراغت نے انہیں جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے کر پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف لگانے کا حوصلہ بخشا۔اس کے بعد کے واقعات حالیہ تاریخ ہےں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کالم کے لئے مختص جگہ کی تنگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف کو پانامہ دستاویزات کی بنا پر اچھلے سکینڈل کی ازخود اختیارات کے تحت تحقیقات کرنے والے سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد کچھ حقائق کو جبلی طور پر سمجھ لینا چاہیے تھا۔ وہ یہ سمجھنے میں بالکل ناکام رہے کہ جے آئی ٹی درحقیقت ریاست کے دائمی اداروں کا ان کے خلاف بنایا ایک بہت ہی تگڑا ”متحدہ محاذ“ تھا۔ متحد ہوئی اس ریاستی قوت کو پاکستان کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی سرپرستی بھی مہیا تھی۔ جے آئی ٹی کے قیام کے بعد معاملہ محض ”قانونی“ نہیں بلکہ ”سیاسی“ ہوگیا تھا۔
نواز شریف انتہائی سادگی اور خاموشی کے ساتھ مگر صرف ”قانونی“ جنگ لڑتے رہے۔ کوئی سیاسی پیش قدمی نہ لے پائے۔ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتے تو معاملہ دگرہوتا۔ اس کے علاوہ واحد راستہ یہ تھا کہ بطور وزیراعظم جے آئی ٹی کے
روبروپیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے وہ یوسف رضا گیلانی کی طرح توہینِ عدالت کے جرم میں نااہل قرار پاتے۔ اپنے طویل سیاسی دور کے اس کڑے مقام پر انہیں کم از کم اس حقیقت کا اب اعتراف کرلینا چاہیے کہ وہ جے آئی ٹی کی صورت اپنے خلاف ریاست کے دائمی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ”متحدہ محاذ“ کی اصل طاقت اور قوت کو سمجھ ہی نہ پائے۔
نواز شریف کو ”سیاسی“ کے بجائے ”قانونی“ محاذ پر مصروف رکھنے والے مشیروں کا اب بھی اصرار ہے کہ وہ بھاری بھر کم فیسیں لے کر ”قانونی “ جنگ لڑنے والے لوگوں کی ایک تگڑی ٹیم بناکر سپریم کورٹ کے فل بنچ سے اپنے خلاف آئے فیصلے کے Reviewکا نہیں Revisionکی درخواست کریں۔ نواز شریف ان مشیروں کے جھانسے میں آگئے تو سو پیاز اور سو جوتوں کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ کرپائیں گے۔ ہماری تاریخ میں آرٹیکل 62/63 نے پہلی بار اپنے کھانے والے دانتوں کو استعمال کیا ہے۔ ان دانتوں کے رونما ہونے کے بعد ہمارے عوام کی ایک بھرپور اکثریت 62/63کے مضحکہ خیز مضمرات سے آگاہ ہوئی ہے۔ ”صادق“ اور ”امین“ کا فانی انسانوں پر اطلاق ناممکن نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ ان شقوں کو آئین سے باہر نکالنے یا ان کا دائرہ ججوں اور جرنیلوں تک پھیلانے کی خواہش جاگ اُٹھی ہے۔ نواز شریف کو اس خواہش کا فوری ادراک کرنا چاہیے۔
شاید میری یہ بات نواز شریف کے بہت جذباتی ہوئے متوالوں کو اس وقت بہت بُری لگے۔ ان کی یقینی خفگی کا ادراک کرتے ہوئے بھی لیکن میں یہ مشورہ دینے سے باز نہیں رہوں گا کہ اگر کسی سیاستدان کی 62/63کے تحت غیر منتخب اداروں کے ذریعے ”نااہلی“ اصولی طور پر غلط ہے اور کسی سیاست دان کی قسمت کا فیصلہ صرف اور صرف ووٹ کی طاقت سے ہونا چاہیے تو عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ہوئی نااہلی کی درخواستیں واپس لے لی جائیں۔
نواز شریف کی 62/63 شقوں کے تحت نااہلی کے بعد ان ہی کے اطلاق سے عمران خان اور جہانگیر ترین کو بھی ”نااہل“ کروادینے والی خواہش ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والا بچپنا ہے۔ اگرچہ دریں حالات مجھے ان دونوں کی ”نااہلی“ کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے۔عمران خان کو اپنی ہی طرح نااہل کروانے کے بعد نواز شریف تحریک انصاف کے ساتھ 62/63کے خلاف کوئی ”میثاقِ جمہوریت“ کرتے بہت عجیب لگیں گے۔
سیاست دانوں کو اب صرف سیاست کرنا ہوگی اور سیاست میں کچھ اصول طے کئے جاتے ہیں۔ Redlinesلگائی جاتی ہیں۔ہمارے سیاست دان کچھ اصول اور Redlinesطے کرنے میں اب بھی ناکام رہے تو ہمارا مستقبل نام نہاد ”بنگلہ دیش“ ماڈل ہے ”جمہوری نظام“ کا تسلسل ہرگز نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے