کالم

کس کی ماں کو ماسی کہیں

اگست 19, 2017 4 min

کس کی ماں کو ماسی کہیں

Reading Time: 4 minutes

اپنے قیام کے پہلے روز ہی سے خود کو اس قوم کی حقیقی نمائندہ ثابت کرنے کو بے قرار اور وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ہر دم پھڑپھڑاتی ہماری قومی اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے لئے مزید دس ماہ درکار ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد اس کے قائد ایوان منتخب ہوئے ہیں۔ کم از کم 6 بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ اہم وزارتی مناصب پر بھی فائز رہے۔ دفاع اور قومی سلامتی کے امور مگر کبھی ان کا شعبہ شمار نہیں ہوئے۔
وزیر خارجہ اس نومنتخب وزیراعظم کے خواجہ آصف ہیں۔ ان کی صورت عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کو چار سال کے طویل وقفے کے بعد ایک کل وقتی وزیر خارجہ نصیب ہوا ہے۔ خواجہ صاحب بھی 90ءکی دہائی سے پارلیمان کے ایک متحرک رکن رہے ہیں۔ سابقہ بینکار ہیں۔ زیادہ دلچسپی ہمیشہ معاشی معاملات میں دکھائی۔
نواز شریف نے انہیں افتخار چودھری کے سپریم کورٹ سے گم شدہ افراد سے متعلق اٹھائے سوالات سے اپنی جند چھڑانے کے لئے وزیر دفاع بھی مقرر کر دیا تھا۔ اصل ذمہ داری اگرچہ ان کی وزارتِ بجلی اور پانی ٹھہرائی گئی تھی۔ لوڈشیڈنگ اس وزارت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے سرمایہ کاروں کی تلاش مگر پنجاب کے خادم اعلیٰ کے ہاتھ میں رہی۔ خواجہ آصف دو اہم ترین وزارتوں کے منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی مضحکہ خیز حد تک بے اختیار اور غیر متعلق نظر آتے رہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کوئی وزیر ریلوے ہوتا تو شاید ان ہی جیسا اقتدار کے ایوانوں میں گھسا ”اجنبی“ نظر آتا۔
شاہد خاقان عباسی کی ٹیم میں لیکن وہ ایک بااختیار وزیر خارجہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے بااختیار ہونے کی امید اُس ٹیلی فون کے ذریعے مزید روشن ہوئی جو امریکی وزیر خارجہ نے 14 اگست 2017ءکے روز ان سے ملایا تھا۔
امریکہ اگرچہ اب بھی دنیا کی واحد سپرطاقت سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس میں آنے کے 8ماہ گزرجانے کے بعد بھی مگر یہ طے ہی نہیں ہوپارہا کہ وہاں پنجابی محاورے والے ”کس کی ماں کو ماسی“ کہا جائے۔
Post Globalizedدُنیا میں ایشیاءاور یورپ کے کئی ممالک اور خطے بدترین ہیجان اور کئی صورتوں میں خوفناک خانہ جنگی کا شکار ہیں۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعد واحد عالمی طاقت ہوتے ہوئے ا مریکہ عالمی معاملات کے ریگولیٹر کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے بالآخر اسے اپنے اندرونی مسائل میں الجھا دیا۔ صدر اوبامہ کے 6 سالوں کے دوران امریکہ نے عالمی معاملات سے قطعاً تو نہیں مگر واضح انداز میں لاتعلقی اختیار کرنا شروع کر دی۔
ٹرمپ بھی ”سب سے پہلے امریکہ“ والے نعرے کے ساتھ یہ لاتعلقی قطعیت کی صورت دینا چاہ رہا تھا۔ اسے مگر یہ جنون بھی لاحق ہے کہ دنیا امریکہ کی عالمی معاملات سے کنارہ کشی کی بنا پر قیادت کا خلا محسوس نہ کرنا شروع کر دے، جسے چین اور روس اپنی طاقت ور معیشت اور دفاعی قوت کی بنا پر پُرکر سکتے ہیں۔ وہ دفاعی اعتبار سے امریکہ کو اب بھی سب پر بالادست قوت ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اسے مگر ہرگز سمجھ نہیں آ رہی کہ کس ملک کو ”فتح“ کر کے یہ بالادستی ثابت کی جائے۔
امریکی بالادستی کے جاندار اظہار کے لئے ٹرمپ نے جبلی طور پر محسوس کیا کہ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایسا کوئی ”جلوہ“ دکھایا جا سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اس ملک پر ایک ہولناک جنگ مسلط کی تھی۔ کھربوں ڈالر اور ہزارہا جانوں کے زیاں اور 16 سال گزر جانے کے بعد بھی لیکن افغانستان کو استحکام نصیب نہیں ہو سکا۔ خود کو ایک حتمی منتظم ثابت کرنے کے عادی ٹرمپ نے امریکی فوج کے بہت کلاکار مانے جرنیلوں Mattis-اور-Mc Master کو دفاع اور قومی سلامتی کے امور کا انچارج بنایا۔ ان دونوں کو کامل اختیار دیا کہ وہ باہم مل کر افغانستان کا مسئلہ ”ہمیشہ کے لئے حل“ کر دیں۔
جولائی 2017ءکے اختتام تک ان دونوں جرنیلوں نے مسئلہ افغانستان کے حل کی حکمت عملی تیار کرنا تھی۔ طویل اجلاسوں کے کئی ادوار کے باوجود امریکی محکمہ دفاع اور مشیر برائے قومی سلامتی کوئی واضح حکمت عملی ابھی تک تیار نہیں کر پائے ہیں۔ ایک واضح حکمت عملی طے کئے بغیر ٹرمپ کے ان دونوں جرنیلوں نے اگرچہ افغانستان کے تمام مسائل کی واحد وجہ پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے ہمیں دھمکی آمیز پیغامات بھیجنے کا چلن اختیار کیا۔ اب یوں محسوس ہورہاہے کہ بڑھک بازی نے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے ہیں۔ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر Business Likeیعنی بندے کے پُتروں کی طرح Engage کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
ہمارے وزیر خارجہ اگلے ہفتے واشنگٹن کے دورے پر جا رہے ہیں۔ سیاسی اتھل پتھل اور پریشان کن ہیجان کے موجودہ موسم میں مجھے بہت اچھا لگا کہ بدھ کے دن کابینہ کی قومی سلامتی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے قبل ہماری سیکرٹری خارجہ افغان قیادت سے کابل میں ملاقاتیں بھی کر چکی تھیں۔ کل ہوئے اجلاس کے دوران زیر بحث آئے معاملات کی تفصیلات سے قطعاً لاعلم ہونے کے باوجود مجھ خوش گماں کو محسوس ہو رہا ہے کہ اس اجلاس کا زیادہ وقت افغانستان کے تناظر میں امریکہ سے باہمی معاملات طے کرنے کا ایک نیا باب کھولنے کی حکمت عملی تلاش کرنے میں صرف ہوا ہو گا۔
وقت اگرچہ بہت کم ہے۔ امید مگر رکھنا ہو گی کہ عسکری قیادت کے مو¿ثر Input کے ساتھ پاکستان کی وزارتِ خارجہ خواجہ آصف کے لئے ایک ایسا بریف تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جسے لے کر وہ واشنگٹن جائیں۔ وہاں کے پالیسی سازوں سے ملاقاتیں کریں تو پاکستان کی جانب سے تیار ہوا بریف افغانستان کے لئے کوئی واضح حکمت عملی کی تلاش میں پریشان ہوئے افراد اور اداروں کو Win-Win فارمولے جیسا لگے۔ پاکستان اور امریکہ ایسے کسی فارمولے پر متفق نہ ہوئے تو ٹرمپ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑنے کے امکانات کو بھی سنجیدگی سے اپنانے پر تلا بیٹھا ہے۔
ویت نام کے بعد امریکہ کا لیکن ایک بار پھر شکست خوردہ ہو کر کسی محاذ جنگ سے گھر واپس آنا اسے ہضم نہیں ہو گا۔ وہ اپنی ”ہزیمت“ کی ذمہ داری پاکستان کے سر تھوپتے ہوئے افغانستان سے لوٹتے ہوئے پاکستان کے ساتھ وہ رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے جو امریکہ کے سفاک جرنیلوں نے ویت نام کے ہاتھوں شکست کو یقینی دیکھتے ہوئے کمبوڈیا کے ساتھ اپنایا تھا۔ وقت لہٰذا بہت کم ہے اور مقابلہ بہت ہی سخت۔ کاش ”عارضی“ دکھتا ہمارا ریاستی بندوبست اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیں کوئی معجزہ دکھا پائے۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے