کالم

بس اب امریکا گیا

اگست 25, 2017 4 min

بس اب امریکا گیا

Reading Time: 4 minutes

اپنے ربّ کا میں دل و جان سے شکر گزار ہوں۔ ربّ کریم کے بعد سلام پیش کرتا ہوں جنرل مشرف صاحب کی عظمت و فراست کو انہوں نے ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے انتہائی حساس اور دوراندیش افراد کے تحفظات کو ٹھکراتے ہوئے پاکستان میں 24/7 چینل قائم کرنے کی اجازت دی۔ اس اجازت کا ذاتی طور پر فائدہ یہ ہوا کہ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے بینک اکاﺅنٹ میں ہزاروں کی بجائے لاکھوں میں جمع ہوئی رقوم دیکھنے کا موقعہ ملا۔ بازار میں گھومتے ہوئے کسی بھی شے کو خریدنے کو دل چاہا تو وہ شے اٹھائی اور کاﺅنٹر پر کھڑے شخص کو رعونت سے اپنا ATM دے کر حسرت پوری کرلی۔ انسان کو مگر خود غرض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں دن کے 24گھنٹے مستعد ہوئے بہت ہی آزاد اور بے باک میڈیا کا فائدہ میری قوم کو اجتماعی طور پر بھی ہوا۔ اسے ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد رکھنے والے عقلِ کل اینکر خواتین وحضرات مل گئے۔ مستعدوآزاد میڈیا کو عدالتوں سے فوری اور سستا انصاف دلوانے کی فکر بھی لاحق ہوگئی۔ آزاد عدلیہ اور مستعد میڈیا نے باہم مل کر آصف علی زرداری کے سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں مبینہ طور پر چھپائے کروڑوں ڈالروں کا سراغ لگا لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کے دوران ریاستی اختیارات کی بدولت کمائے یہ ”حرام“ ڈالر قومی خزانے میں لانے کا عزم ہوا۔ اس عزم کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ حکومت پاکستان سوئس حکومت کو سرکاری طور پر ایک خط لکھے۔ یوسف رضا گیلانی نے مگر وہ خط لکھنے سے انکارکردیا۔ ارسلان کے ابو بارہا سپریم کورٹ میں بیٹھے موصوف کو یہ چٹھی لکھنے کا حکم دیتے رہے۔ بالآخر وہ چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے گیلانی صاحب کو ”حیف ہے اس قوم پر“ کی دہائی دیتے ہوئے توہینِ عدالت کے جرم میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے لئے ”نااہل“ قرار دے دیا گیا۔ وہ فارغ ہوئے تو ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف تشریف لائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق سوئس حکومت کو ”وہ چٹھی“ بھی بالآخر لکھ ڈالی۔ آصف علی زرداری کے نام سے سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر جمع ہوئے ڈالر لیکن ابھی تک قومی خزانے میں واپس نہیں آئے ہیں۔ ہم انہیں بھول گئے اور اپریل 2016ءمیں پانامہ دستاویزات منکشف ہوگئیں۔ اس دھماکہ خیز انکشاف کے بعد عمران خان اور راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر متحرک ہوئے۔ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے پر مجبور کیا۔ روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئیں۔ان سماعتوں کے ذریعے دریافت ہوا کہ آصف علی زرداری کرپشن کے معاملے میں فقط ”چھوٹے میاں“ ہیں۔ لاہور سے آئے میاں صاحب تو ”سبحان اللہ“ ثابت ہوئے۔ انہیں ”گاڈ فادر“ کا خطاب ملا اور ان کا خاندان ”سسیلین مافیا“ قرار پایا۔ ہمارے آئین میں سیاست دانوں کی صداقت وامانت کی جانچ کے لئے جو پیمانہ مقرر ہے،نواز شریف اس پر پورا نہ اترتے ثابت ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لئے نااہل ٹھہرکر فارغ ہوگئے۔ مجھے امید ہے کہ وزارتِ عظمیٰ سے محض فراغت ہی اب ان کا مقدر نہیں۔ احتساب بیورو مختلف النوع مقدمات ہر صورت قائم کرنے کے بعد ان سے ایک ایک پائی کا حساب لے گا۔ وہ اور ان کا خاندان حساب نہ دے پائے تو اپنی بقیہ زندگی مختلف جیلوں میں چکّی پیستے یا قالین بنتے نظر آئیں گے۔ آزاد عدلیہ اور مستعد اور بے باک میڈیا کے باہم اشتراک نے نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں سے نجات دلانے کا طریقہ دریافت کرلیا تو امریکی صدر نے اس ہفتے کے آغاز میں ایک تقریر جھاڑ دی۔اس تقریر کے ذریعے ٹرمپ نے پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی جھوٹی کہانی بیان کی۔ ہمیں تڑیاں لگائیں۔ اقتدار میں بیٹھے ہمارے نااہل اور بدعنوان سیاست دان اسے منہ توڑ جواب نہ دے پائے۔ بالآخر آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب نے بدھ کے روز پاکستان میں متعین امریکی سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور اسے واضح الفاظ میں بتادیا کہ پاکستان کو اس کے ملک سے ڈالر نہیں اپنے لئے عزت درکار ہے۔ امریکی سفیر کو آرمی چیف نے ”جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا“ والے انداز میں تقریباََ منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ قومی غیرت وحمیت کی ترجمانی اس کے بعد ٹی وی سکرینوں پر براجمان محبانِ وطن کی ذمہ داری ہے۔ ایک بات طے ہوچکی ہے کہ ہمارے نااہل اور بدعنوان سیاستدان ہی نہیں پوری وزارتِ خارجہ قطعاََ نکمے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس کے لئے معقول تنخواہوں اور بھاری مراعات کے ساتھ کام کرنے والے سفارت کار دُنیا کو یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ پاکستان بذاتِ خود دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے۔ دہشت گردی کے ہاتھوں زخم زخم ہوئے پاکستان کی داستان پوری دنیا کو بیان کرنا ان سفارت کاروں کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ وہ اسے نبھانے میں ناکام رہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ٹرمپ کی جانب سے ہوئی تقریر کے باوجود ہم نے اپنی وزارتِ خارجہ کو ابھی تک کالعدم کیوں نہیں قرار دیا۔ ذرا سوچئے کہ یہ وزارتِ اگر بند کردی جائے۔ غیر ملکوں میں قائم ہمارے سفارت خانوں پر تالے لگادئیے جائیں تو غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے کراہتی ہماری قوم کو کتنا سکھ نصیب ہوگا۔ وزارتِ خارجہ کو کالعدم ٹھہراکر اس سے وابستہ لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کردینے کے بعد پوری قوم کو یکسو ہوکر امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہوجانا چاہیے۔ ٹی وی سکرینوں پر براجمان محبانِ وطن نے اچانک دریافت کرلیا ہے کہ افغانستان میں متعین امریکی افواج کو سامانِ رسد پہنچانے کے تمام زمینی راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ ہم ان راستوں کو امریکہ کے لئے بند کردیں تو ٹرمپ کے لئے ہماری درد بھری داستان کو سننا اور سمجھا ضروری ہوجائے گا۔ زمینی راستوں کے علاوہ ایک فضائی روٹ بھی ہے وہ بھی ہماری حدود میں ہے۔ ہمیں وہ روٹ بھی امریکی طیاروں کے لئے بند کردینا چاہیے۔ اس کے بعد یہ عہد بھی کہ اگر آئندہ کوئی ڈرون طیارہ پاکستان کی فضاﺅں میں نظر آیا تو اسے مارگرایا جائے گا۔ مذکورہ بالا ”انتہائی“ دِکھتے اقدامات اٹھانے کے علاوہ ٹرمپ کے امریکہ کو سبق سکھانے کا اور کوئی طریقہ کم از کم مجھ بے بصیرت کو تو نظر نہیں آرہا۔ امید ہے کہ ہماری ریاستی اشرافیہ ٹی وی سکرینوں پر براجمان محبانِ وطن کے بیان کردہ نسخے پر فی الفور عمل پیرا ہونے کی ہمت دکھائے گی۔ بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کا اس سے بہتر موقعہ شائد ہمیں آئندہ نصیب نہیں ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے