پاکستان

جرائم رپورٹ کرنے والوں کی غیر ذمہ داری

اگست 31, 2017 3 min

جرائم رپورٹ کرنے والوں کی غیر ذمہ داری

Reading Time: 3 minutes

پاکستان میں کسی بھی مافیا کے بارے میں درست خبر شائع یا نشر کرنا کوئی آسان کام نہیں اور کئی بار خبرنگار کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ پہلے یہ معاملہ صرف زیادہ طاقت ور اداروں اور خفیہ ایجنسیوں تک محدود تھا مگر اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی جانب سے دن کی روشنی میں کی گئی فائرنگ سے نہتے شہریوں کے مارے جانے کی خبر بھی درست طور پر شائع اور نشر نہیں کی جاتی۔
پنجاب اور سندھ پولیس کی جانب سے دیہی علاقوں میں عام شہریوں سے روا رکھے مظالم کی خبر قومی میڈیا تک اس وجہ سے نہیں پہنچتی کہ مقامی نمائندہ پولیس کے خلاف نہیں جاسکتا، اسی طرح مقامی نمائندہ کو تحفظ حاصل ہوتاہے اور نہ ہی میڈیا کا ادارہ اسے کوئی تنخواہ دیتا ہے۔
اسلام آباد جیسے شہر میں مثالی پولیس کے ظلم کی درست خبر شائع کیوں نہیں ہوتی، اس کا جواب اتنا آسان نہیں۔ جرائم کی خبریں بنانے اور شائع کرنے والے کئی رپورٹرز پولیس سے باقاعدہ ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ کئی خبرنگاروں نے وزیرداخلہ سے کام نکلوانے ہوتے ہیں، اس کی زندہ مثال اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے سب سے ’شاندار کارکردگی ‘ کے حامل سابق وزیرداخلہ چودھری نثار ہیں جن کے دور میں اسلام آباد پولیس نے کئی شہریوں کو تھانوں اور ناکوں پر قتل کیا مگر کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوئی۔ چودھری نثار کے قصیدے لکھنے والے کئی ’نامورصحافی‘ ملک کے سب سے نظریاتی اخبار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ روز تھانہ شہزاد ٹاﺅن کے علاقے میں ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک شہری کو قتل اور دوسرے کو زخمی کردیا تھا۔ یہ فائرنگ راول ٹاﺅن کی سڑک پر دن دیہاڑے ہوئی اور درجنوں شہری اس کے چشم دید گواہ بنے، کئی افراد نے جائے وقوعہ کی ویڈیوز بھی بنائی اور سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ دارالحکومت کے کرائم رپورٹرز کو پہلے ایک گھنٹے تک خبر ہی نہیں پہنچی اور جب پہنچی تو ایک گروپ کے کرائم رپورٹرز اس قتل کو پولیس کی جوابی کارروائی کے طور پر نشر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کرائم رپورٹرز کے اس گروہ کے بارے میں شہر میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ ’پولیس کے لوگ‘ ہیں اور ان کی خوشنودی کیلئے ان کی مرضی کی خبریں شائع کرتے ہیں۔
سب سے افسوس ناک صورتحال یہ ہوئی کہ ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان نے مکمل طور پر پولیس کے موقف کو خبر کے طور پر شائع کیا۔ڈان اخبار کے رپورٹر کی جانب سے شائع خبر میں ’ایک سینئر پولیس افسر‘ کے موقف کو ہی دہرایاگیاہے اور کہیں بھی ایف آئی آر اور عینی شاہدین یا مارے جانے والے شہری کے لواحقین سے بات نہیں کی گئی۔ ڈان کے رپورٹر کی خبر میں واقعہ کو پولیس مقابلے کا رنگ دیا گیا ہے ۔ اس خبرنگار کے بار ے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے ماموں نے اس کی بیروزگاری سے تنگ آکر اسے ’صحافی‘ بنایا۔ کئی سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اس خبرنگار کے ماموں کسی زمانے میں ڈان اخبارمیں کسی اہم عہدے پر تعینات تھے۔
دوسری جانب پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے عنایت حسین شاہ کے بیٹے ولید شاہ نے تھانہ شہزاد ٹاﺅن میں رات پونے دس بجے مقدمہ درج کرایا جس میں کہاگیا ہے کہ پولیس کی جانب سے فائرنگ کا واقعہ شام ساڑھے پانچ بجے پیش آیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ولید شاہ نے کہاہے کہ ان کے والد اپنے دوست اعجازشاہ کے ساتھ مارگلہ ٹاﺅن میں واقع ان کے گھر جارہے تھے جب پولیس نے ان پر فائرنگ کی۔ ولید شاہ کے مطابق ان کو وقوعہ کی تمام تفصیلات زخمی ہونے والے کار ڈرائیور اعجاز شاہ نے بتائی ہیں جن کے مطابق پولیس کی ڈبل کیبن گاڑی نمبر جی وی 249 نے ان کی کار کو روکا اور بلااشتعال فائرنگ کی۔
جائے وقوعہ پر موجود کئی افراد نے بعدازاں بتایا کہ جس وقت پولیس نے فائرنگ کی، کار سوار نے باہر آکر ہاتھ اوپر کھڑے کر دیے لیکن اس کے باوجود اس کی ٹانگوں پر فائرنگ کی گئی۔سوشل میڈیا پر دستیاب کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فائرنگ کے بعد زخمی کارڈرائیور کو پولیس اہلکارں نے ڈبل کیبن کے فرش پر بٹھایا ہواہے اور مقامی لوگ پولیس اہلکاروں کو سیدھی فائرنگ کرنے پر لعنت ملامت کر رہے ہیں۔ پولیس اہلکار گاڑی میں زخمی ڈرائیور کو لے کر جارہے ہیں اور دوسری بزرگ شہری کو اسی طرح کار میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ کئی افراد کا یہ بھی کہنا تھاکہ بزرگ شہری خون بہنے کی وجہ سے ایک گھنٹے بعد جاں بحق ہوا مگر اسے ہسپتال نہیں لے جایا گیا۔
وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے شہری کے قتل کا نوٹس لے کر اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے، اس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے مگر کیا ملک کے سب سے بڑے اخبار کی ایڈیٹر بھی اپنے رپورٹر کی خبر کا نوٹس لیں گی؟۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے