کالم

سوچی کو بہت سوچا

ستمبر 5, 2017 5 min

سوچی کو بہت سوچا

Reading Time: 5 minutes

جب مغرب سیاسی میدان میں ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹنے لگے اور ہمارے ہاں بھی اس بھیڑ چال کی تقلید ہونے لگے تو سمجھ لیجئے کہ آنے والے وقت میں کچھ بڑا گند ہونے جا رہا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن آج کی تاریخ میں اس کی سب سے تازہ مثال میانمار (سابق برما) کی آنگ سان سوچی ہیں۔ اس خاتون کو انسانی حقوق کے لئے ان کی ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں دنیا نے جو بڑے ایوارڈز دیئے ان میں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ نوبل پیس پرائز، امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ پریزیڈینشل میڈل فار فریڈم، امریکی کانگریس کا کانگریشنل گولڈ میڈل، یورپی یونین کا سخاروف ایوارڈ، اقوام متحدہ کا انٹرنیشنل سائمن بولیور پرائز، ناروے کا رافتو میموریل ایوارڈ، بھارت کا جواہر لعل نہرو ایوارڈ، بھارت ہی کا بھگوان مہاویر ورلڈ پیس ایوارڈ، ، آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کا فریڈم آف سٹی آف ڈبلن ایوارڈ، سویڈن کی سیاسی جماعت سویڈش سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا اولوف پام پرائز، پاکستان پیپلز پارٹی کا بینظیر بھٹو ایوارڈ اور ایم ٹی وی یورپ کا فری یور مائنڈ ایوارڈ شامل ہیں۔ اعزازات کا یہ سفر ان ایوارڈز پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ آنگ سان سوچی کو کینیڈا نے اپنی اعزازی شہریت بھی دی ہے جو آج تک صرف چار افراد کو ملی ہے۔ جب مغرب ریڑیوں کی طرح ایوارڈ بانٹنے لگتا ہے تو اس دوڑ میں اس کی عظیم الشان درسگاہوں کی شمولیت بھی پکی ہوتی ہے۔ چنانچہ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی نے سوچی کو ویلن برگ ایوارڈ سے نوازا جبکہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطاء کی، جلد ہی عالمی سطح پر احساس کیا گیا کہ اتنی عظیم خاتون کے لئے ڈاکٹریٹ کی صرف ایک ڈگری ناکافی ہوگی چنانچہ جنوبی کوریا کی سول نیشنل یونیورسٹی، اٹلی کی یونیورسٹی آف بلوگنا اور آسٹریلیا کی چار یونیورسٹیوں موناش یونیورسٹی، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سڈنی اور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگڑیوں سے نواز کر اس کمی کو پورا کیا۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے معروف ادارے ایکولٹی ناؤ نے 2005ء میں ان کا نام اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کے عہدے کے لئے بطور امیدوار بھی پیش کیا جو بجائے خود بطور اعزاز کیا گیا۔
آنگ سان سوچی کو ان ایوارڈز اور اعزازات سے نواز کر ہمیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب انسانوں میں آنگ سان سوچی ایک عظیم انسانی سرمایہ ہیں، کیونکہ اس عظیم عورت کے سینے میں دل نہیں خود انسانیت دھڑکتی ہے۔ یہ جاگتی ہیں تو انسانیت کے سوا کچھ نہیں سوچتیں اور سوتی ہیں تو انہیں خواب بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے آتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے انسان کی طرح یہ جاگتی آنکھوں بھی خواب دیکھتی ہیں لیکن دوسروں کی طرح ان کے جاگتی آنکھوں والے خواب تعبیر سے محروم نہیں رہتے کیونکہ ان کے یہ خواب بھی انسانیت کے درد سے وابستہ ہوتے ہیں۔ انسانیت کے عالمی ٹھیکیداروں نے ہمیں یہ سب باور کرایا اور ہم نے باور کرلیا۔ ہم نے آنگ سان سوچی کو عظیم عورت مان لیا، ہمارے ہاں بھی ان کی شان میں نثری قلابے ملائے گئے اور شعری شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ لیکن وہ بھرم اب بکھر چکا اور اسے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام نے بکھیرا ہے۔ یہ بھرم شاید نوے کی اس دہائی میں ہی بکھر جاتا جس کے آغاز میں ہی سوچی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن تب ہم پوچھتے کہ اگر انسانیت کے حوالے سے سارے جہاں کا درد سوچی کے ہی جگر میں ہے تو وہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر کچھ کیوں نہیں بولتیں ؟ تو جواب ملتا کہ وہ تو قیدی ہیں، ان کی پہلی ترجیح اپنے ملک میں جمہوریت کا احیا ہے، ایک بار جمہوریت آگئی تو باقی جمہوری دنیا کی طرح رخائن سٹیٹ (سابق اراکان) میں بھی دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ بات کسی حد تک معقول تھی سو ہم نے یقین کر لیا۔
نومبر 2010ء میں سوچی رہا ہوئیں تو ہم نے سوچا مصائب صرف سوچی کے لئے ختم نہیں ہوئے بلکہ دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے لئے بھی اب ختم ہوتے جائیں گے۔ گمان تھا کہ انسانی حقوق کی یہ چیمئن کھلی آنکھوں ان دس لاکھ انسانوں کا کرب دیکھتے ہی صدمے سے بیہوش تو ہوجائیں گی لیکن جیسے ہی ہوش میں آئیں گی اپنی زندگی ان کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیں گی۔ وہ بیہوش ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی لفظ کہا۔ انسانی حقوق کے سیانوں سے وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ پہلے انہیں پارلیمنٹ تو پہنچنے دیں۔ بات ایک بار پھر معقول لگی اور ہم نے ایک بار پھر یقین کر لیا۔ 2012ء کے ضمنی الیکشن میں وہ پارلیمنٹ پہنچ کر اپوزیشن لیڈر بن گئیں تو ہمیں پختہ یقین تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے وہ روہنگیا مسلمانوں کے استحصال کے خلاف بولیں گی۔ وہ ہر موضوع پر بولتیں مگر روہنگیا مسلمانوں سے تو جیسے وہ واقف ہی نہ تھیں۔ ہم نے پھر انسانی حقوق کے سیانوں سے رجوع کیا۔ جواب ملا کہ اگر وہ اس مسئلے پر بولیں تو اس سے 2015ء میں آنے والا جنرل الیکشن ہار جائیں گی کیونکہ بدھسٹ میانمار کی غالب قوت ہیں اور وہ روہنگیا مسلمانوں کے دشمن ہیں، ایک بار آنگ سان سوچی وہ الیکشن جیت جائیں اور ان کی جماعت اقتدار میں آجائے تو وہ قانون سازی کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیں گی۔ بات اس بار بھی معقول لگی لیکن پھر 2015ء کے عام انتخابات آگئے۔ آنگ سان سوچی کی جماعت اقتدار میں آگئی، آئینی رکاوٹوں کی وجہ سے وہ صدر تو نہیں بن سکیں لیکن اپریل 2016ء میں ان کے لئے سٹیٹ کونسلر کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس پر بیٹھ کر حکومت در حقیقت وہی کر رہی ہیں۔ میانمار کی فوجی حکومت نے 1982ء میں قانون بنایا تھا کہ 1823ء کے بعد یہاں آنے والا کوئی بھی شخص ہمارا شہری نہیں ہے۔ سوچی سٹیٹ کونسلر بنیں تو ہم نے سوچا وہ قانون اب ختم ہوجائے گا لیکن جب سوچی کو اس جانب متوجہ کیا گیا تو انسانی حقوق کی اس چیمپئن نے کہا، میں نے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کا وعدہ کبھی نہیں کیا، انہیں شہریت نہیں مل سکتی، ہاں ! شناختی کارڈ چاہئے تو وہ دیدیتے ہیں۔ بات صرف یہیں تک نہیں رہی بلکہ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا ہے۔ صرف 2 ستمبر 2017ء کو روہنگیا مسلمانوں کے 2600 گھر فوج نے جلائے ہیں جسے عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔ سوچی نے اس قتل عام کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کے گروپ کو میانمار آنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ سوچی کے دور حکومت میں ہونے والا قتل عام فوجی دور کے مظالم سے کئی گنا بدتر ہے۔ وہ اپنے اس دور حکومت میں میانمار کو روہنگیا مسلمانوں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانے کے عزم پر قائم نظر آرہی ہیں۔ دنیا نے شاید اسے اسی دن کے لئے ایوارڈز اور اعزازات کی ریوڑیاں دی تھیں، ہم ہی غلط سوچتے رہے۔ ہم نے 1992ء سے سوچی کو بہت سوچا لیکن جو وہ کر رہی ہے وہ کبھی نہیں سوچا۔ اب ہم کچھ اور بھی سوچنے لگے ہیں، ہم سوچتے ہیں، انہی عالمی ٹھیکیداروں کی طرف سے ایوارڈ تو ملالہ کو بھی بہت ملے ہیں !
(بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے