کالم

ضمنی الیکشن ٹریلر تھا

ستمبر 18, 2017 4 min

ضمنی الیکشن ٹریلر تھا

Reading Time: 4 minutes

آپ اگر واقعتا صرف اور صرف ایک صحافی ہیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ NA-120 کا انتخابی معرکہ کون جیتے گا تو یہ ہرگز کوئی مشقت طلب کام نہیں تھا۔ اس حلقے میں صرف ایک دن گزارنے کے بعد متوقع نتائج کو بہت اعتماد کے ساتھ بیان کیا جاسکتا تھا۔ ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے میں اس ضمن میں آپ کو چند تیر بہدف نسخے پیش کرسکتا ہوں۔
اس حلقے میں لاہور کا قدیمی اور مشہور مزنگ چوک ہے۔ وہاں روایتی کھابوں کی بہت دکانیں ہیں۔ صبح ذرا جلدی اُٹھ کر وہاں کسی دُکان میں جاکر اپنی پسند کا ناشتہ لینے کے بعد ٹیمپل روڈ سے ہوتے ہوئے ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے موجود کیتھڈرل والی سڑک کے کسی مقام پر میو ہسپتال کے لئے بائیں جانب مڑتے ہوئے آپ نسبت روڈ پہنچ جاتے۔
لاہور کے لوگ کافی ”فارغ“ ہوا کرتے ہیں۔ ”ممی ڈیڈی“ مارکہ نوجوان انہیں حقارت سے ”ویہلے“ پکارتے ہیں۔ وہ بہت باتونی اور منہ پھٹ ہیں مگر اپنے ہاں آئے مہمانوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ”چائے پانی“ سے ان کی تواضع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مارشل لاءکے بدترین ادوار میں بھی اپنے خیالات کو ”سنسر“ کرنا نہیں سیکھ پائے۔ نسبت روڈ سے گوالمنڈی چوک اور وہاں سے ریلوے روڈ کی طرف مڑ کر کئی مقامات پر اچانک کسی تھڑے پر رُک کر آپ اپنا ”ریسرچ ورک“ بآسانی مکمل کرسکتے تھے۔
اس ضمن میں اگرچہ تھوڑی ”کجی“ شاید اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ جن علاقوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں کے مکینوں کی اکثریت کے بزرگ 1947ءکے بعد امرتسر سے ہجرت کے بعد لاہور آئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کشمیری نژادبھی ہیں۔ لوہے، قالین اور سفری بیگ اور سوٹ کیسزوغیرہ سے متعلق کاروبار سے تعلق رکھتے ہیں۔ پڑھے لکھے بچوں کا رجحان مگر بہت عرصے تک سرکاری نوکری کے حصول پر مبذول رہا۔ ایک مخصوص ”نسلی گروہ“ کی یہ برتری شاید آپ کو معروضی نتائج اخذ کرنے میں رکاوٹ نظر آتی۔ اگرچہ یہ فرض کرلینا بھی کافی جاہلانہ عمل ہے کہ لاہور کا ہر کشمیری نژاد ووٹر نواز شریف کا حامی ہے۔
اس Segment سے تعلق رکھنے والے افراد ضرورت سے زیادہ Free Thinkers ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی طورپر جو انفرادی رائے بنالیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا اس ضمنی انتخاب میں امیدوار فیصل میر امرتسر سے نہیں جموں سے وابستہ ہے مگر 30سالوں سے اسی حلقے کے قلب میں رہتے ہوئے بھی نواز شریف کی جماعت کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔
بہرحال اپنی تحقیق میں تنوع لانے کی خاطر آپ کو سنت نگر اور راوی روڈ وغیرہ میں گھومنا بھی ضروری تھا۔ ان علاقوں میں مشرقی پنجاب کے انبالہ اور بٹالہ کے علاوہ یوپی سے بھی کئی مہاجرین 1947ءکے بعد آکر بسے تھے۔ دھیمے لہجے میں محبت کی اداسیاں بیان کرنے والا ناصر کاظمی اور بلند شہر سے آکر ”منہ پھٹ“ ہوئی ہر موقع پر میری بہت ہی بے عزتی کرنے کے بعد اپنے ہاتھ سے بنائے کھانے کو مجبور کرنے والی بہت ہی شفیق کشور ناہید کا تعلق بھی NA-120ہی سے تھا۔
یہ حلقہ سیاسی اعتبار سے کافی ”ٹیڑھا“ ہے۔ اپنی سرشت میں کافی ”باغی“۔ اسی حلقے نے وہ ملک برکت علی پیدا کئے جنہوں نے یونینسٹ پارٹی کی مسلط کردہ عاجزی کے دورمیں بھی قائد اعظم کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ وہ اور ڈاکٹر عاشق بٹالوی اقبال کے عاشق تھے۔ جاگیرداروں کی ریشہ دوانیوں سے اکتائے ہوئے اور محلاتی سیاست کے دشمن۔ NA-120 ہی میں وہ دفتر بھی قائم ہوا تھا جہاں سے حمید نظامی مرحوم نے آزاد صحافت کو متعارف کروایا۔ میاں افتخار الدین کے نکالے پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار کے دفاتر بھی اسی حلقے میں قائم ہوئے تھے۔
ناموں اور واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ان میں الجھے بغیر بتانا آپ کو صرف اتنا ہے کہ NA-120 کا مزاج ”بلغمی“ ہے۔ اسے بس گرمی ہی راس ہے۔ حالیہ تاریخ میں بھٹو کے خلاف 1977ءوالی تحریک کا آغاز بھی اسی حلقے سے ہوا تھا جب پیپلز پارٹی کے ملک اختر ایک پولنگ سٹیشن پر سٹین گن لہراتے نظر آئے تھے۔ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد کے سسر ملک غلام نبی بھی اس حلقے کی ایک طرح دار شخصیت تھے۔ فروغ تعلیم کے جنون میں مبتلا مگر گالیوں کی بوچھاڑ سے مخالفین کو ان کی اوقات یاد دلاتے ملک صاحب۔
اس حلقے کے عمومی مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے خدارا یہ بات طے کرلیجئے کہ کوئی شخص اربوں روپے خرچ کرکے بھی اس حلقے میں اپنے لئے جیت ”خرید“ ہی نہیں سکتا۔ ضمنی انتخاب کے لئے کھڑے ہوئے امیدواروں کو صرف اور صرف اپنے پیغام اور لگن کے ساتھ ووٹروں کے دل جیتنا درکار تھا۔ جو نتائج میرا کالم چھپنے تک آئیں گے انہیں صرف اس تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا۔ اس کے علاوہ سب کہانیاں ہوں گی۔ چسکہ فروشی ہوگی۔ اس حلقے کے غیور، اناپرست اور خود دار لوگوں پر یہ تہمت لگانا ہوگی کہ ان کے ضمیر ”خرید“ لئے گئے ہیں یاا نہیں ”گمراہ“ کردیا گیا۔
NA-120 کا ضمنی انتخاب کئی حوالوں سے بلکہ وسطی پنجاب میں پہلے سے موجود یا حالیہ چند مہینوں سے دلوں میں اُبلتے نئے جذبات جنہیں Public Sentiment بھی کہا جاسکتا ہے کا ایک مستند اظہار ہوگا۔ کئی حوالوں سے یہ آپ کو 2018ءمیں متوقع عام انتخابات کے نتائج کا ایک مو¿ثر اور نظیر ٹھہرا ”ٹریلر“ بھی فراہم کردے گا۔
NA-120 کا ذکر کرتے ہوئے میرا اصل دُکھ یہ ہے کہ اس ضمنی انتخاب کی ”رپورٹنگ“ کرتے ہوئے سب کچھ ہوا ہے۔ ”صحافت“ نہیں ہوئی۔ بھاشن دئیے گئے ہیں۔ انتہائی ڈھٹائی سے ”طوطا فال“ ایسی پیش گوئیاں فرمائی گئی ہیں۔ ٹی وی پر براجمان چند افراد کو یہ زعم بھی ہے کہ وہ ”غیر جانب دار“ ہوا کرتے ہیں۔ ان کے تجزیے ”متوازن“ ہوتے ہیں۔ اپنی رائے دینے سے قبل انہوں نے نہایت خلوص سے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹس کے ذریعے ”سروے“ بھی کروائے۔ ان کا بغور مطالعہ کریں تو فوراََ پتہ چل جاتا ہے کہ اگر آپ سکرین پر عمران خان صاحب کی پھیلائی صداقت وامانت کے علم بردار نظر آتے ہیں تو آپ کے سروے پر رائے دینے والوں نے یاسمین راشد صاحبہ کو بھاری اکثریت سے جتوادیا۔ ”لفافہ“ کے طورپر بدنام ہوئے اینکر حضرات کو ان سرویز نے قطعاََ برعکس اطلاع دی۔
ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے بھی میں یہ بات سمجھ نہیں پایا کہ اگر کوئی صحافی اپنی ٹانگوں اور ذہن کو ذرا استعمال کرتے ہوئے مزنگ سے نسبت روڈ اور گوالمنڈی جاسکتا ہے۔ ایک پھیرا سنت نگر اور راوی روڈ وغیرہ کا بھی لگاسکتا ہے تو اسے اپنی رائے بنانے کے لئے ایسے سروے کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ایسا شخص خود کو صحافی کہلوانے کا ہرگز حقدار نہیں ہے جو کھلے ذہن کے ساتھ دویا تین روز کے چند گھنٹے NA-120 میں گزارنے کے بعد بھی یہ جان نہیں پایا کہ اس حلقے میں پبلک موڈ کیا چل رہا ہے۔ وہ شوبز کا کلاکار تو ہوسکتا ہے۔ کئی صورتوں میں مہا کلاکار بھی مگر صحافی ہرگز نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے