کالم

چیف جسٹس کی وضاحتیں

اکتوبر 4, 2017 4 min

چیف جسٹس کی وضاحتیں

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ میں عمران خان نا اہلی کیس سماعت کے بعد تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کا احتساب شروع ہوگیا ہے، آج کی عدالتی کارروائی اس لحاظ سے بھی اہم رہی کیونکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ارکان پارلیمان اور ان کے احتساب پر دیے ریمارکس میڈیا کی ہیڈ لائنز بن چکے ہیں،چیف جسٹس نے کہہ دیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق تمام درخواستوں کو پنامہ کیس میں سنا جا نا چاہیے تھا، دوران سماعت انہوں نے عمران خان نا اہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ نہ کرنے کی وضاحت بھی کی_

عدالتی کارروائی  کے آغاز  میں جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف درخواست پنامہ درخواستوں کا کاونٹر بلاسٹ ہے، یہ درخواست مفاد عامہ میں نہیں بلکہ سیاسی مفاد خاطر دائر ہوئی، جہانگیر ترین کا نام پنامہ پیپرز میں نہیں آیا، درخواست بد نیتی کے ارادے سے دائر کی گئی،درخواست گزار کے ہاتھ صاف نہیں،جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کیا جہانگیر ترین نہیں چاہتے پنامہ فیصلہ میں طے پیرامیٹرز کا اطلاق ان پر بھی ہوَ کیا جہانگیر ترین عوالہ عہدہ نہیں رکھتے،وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کریں گے،ہمارا اعتراض درخواست کی نیت پر ہے،درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین نواز شریف کی سیاسی حریف ہو سکتے ہیں،سیاسی مخالفت کی بنیاد پر درخواست کو بد نیتی کیسے کہہ دیں،وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار نے ان کے موکل پر چار الزام عائد کیے ہیں،پہلا الزام بنک قرض واپس کرانے کا ہیں،دوسرا الزام انتخابی گوشواروں میں غلط بیانی کا ہے،تیسرا الزام یونائیٹڈ شوگر مل کے شیئرز غیر قانونی طریقے سے خریدنے اور چوتھا الزام آف شور کمپنی کو ظاہر نہ کرنے کا لگایا گیا ہے ،انہوں نے کہا جہانگیر ترین آف شور کمپنی کے بینیفشل مالک نہیں،ان پر آرٹیکلباسٹھ ون ایف کا اطلاق نہیں ہو سکتا،سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کے مقدمہ میں نا اہلی تسلیم شدہ حقائق پر ہو سکتی ہے ،ان کے موکل کسی بنک کے ڈیفالٹر نہیں تھے تو قرض کیسے معاف کرا تے،جس کمپنی کا قرض معاف کرانے کا الزام لگایا گیا اس کے ڈائریکٹر جہانگیر ترین دو ہزار دس میں بنے اور دو ہزار تیرہ میں ڈایئریکٹر شپ سے استعفی دے دیا جبکہ کمپنی کا قرض دو ہزار سات میں معاف کرایا گیا ،وکیل حنیف عباسی نے عدالت کو بتایا کہ جب قرضہ معاف کرایا گیا اس وقت جہانگیر ترین وفاقی وزیر صنعت و پیداوار تھے،ان کے دامار کمپنی میں حصہ دار تھے،کمپنی کے قرض معافی میں سرکاری حیثیت کا استعمال کیا گیا ،چیف جسٹس نے وکیل کی اثرانداز ہونے کی دلیل کو کاونٹر ان ریمارکس کے ساتھ کہا کہ عدالت کے سامنے جہانگیر ترین کا قرض معافی کے معاملہ پر بطور وفاقی وزیر اثرانداز ہونا ایک مفروضہ ہے ،اس دلیل کو ثابت کرنے کا کوئی ثبوت عدالت کو فراہم نہیں کیا گیا،دیکھنا ہے کہ عوامہ عہدے رکھنے والے نے کوئی کرپشن یا دھوکہ دہی تو نہیں کی،اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل اکرم شیخ کے موقف کی توثیق میں کہا کہ پنامہ کیس اور آف شور کمپنیوں سے متعلق درخواستوں کو یک جا کر کے سنا جانا چاہیے تھا ،تینوں مقدمات میں سوالات مشترک ہیں،کچھ کہہ نہیں سکتا ،پنامہ کیس اور ان درخواستوں کو الگ الگ سننے کا فیصلہ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کیا،وکیل سکندر بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر ترین دو ہزار تیرہ کے کاغذات نامزدگی پر نہیں بلکہ دو ہزار پندرہ کے ضمنی الیکشن میں رکن قومی اسمبلی بنے،ان کے سال دو ہزار پندرہ کے کاغذات نامزدگی کو کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا گیا ،دو ہزار کے کاغذات نامزدگی میں کوئی تضاد کا معاملہ متعلقہ فورم پر زیر سماعت ہیں،چیف جسٹس نے نشاندہی کہ جہانگیر ترین نے 2010 میں الیکشن کمیشن کو زرعی آمدن بارہ کروڑ اور 2011 میں سولہ کروڑ بتائی،دوسری جانب ٹیکس تھارٹی کو انہی سالوں میں آمدن باالترتیب چون اور ستر کروڑ بتائی،الیکشن لڑنے کے لیے انتخابی گوشواروں دو ہزار تیرہ میں بھرے،الیکشن اور ٹیکس گوشواروں میں یکسانیت نہیں،وکیل نے کہا جہانگیر ترین الیکشن کمیشن کو صرف اپنی ذاتی زرعی زمین کی آمدن بتائی جبکہ ایف بی آر کو ذاتی اور ٹھیکہ پر لی اراضی کی مجموعی آمدن کو ظاہر کیا،اس موقع پر چیف جسٹس نے میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر کہا جاتا ہے کہ مقدمہ کی چھتیس سماعتیں ہو چکی ہیں،یہ کوئی نہیں کہتا کہ عدالت تحمل سے مقدمہ کو سب رہی ہے تاکہ کوئی غلطی نہ ہوا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو،پارلیمان کے اراکین ہمارے نمائندے ہیں،ان کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹکتی نہیں رہنی چاہیے،سب کو ایک ترازو پر پرکھنا ہے،عدالت کرپشن کے مرتکب افراد کو واضع کردہ اصولوں پر پرکھے گی،جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پنامہ فیصلے کے بعد انتخابی گوشواروں کی سکروٹنی کے معیار انتہائی سخت ہو چکے ہیں،عدالتی کاروائی ملتوی ہونے لگی تو عمران خآن کے خلاف حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ روسٹرم پرآگئے،انہوں نے عدالت کو بتایا گزشتہ روز عمران نا اہلی کی سماعت مکمل ہوئی ،تاہم مقدمہ کا فیصلہ محفوظ نہیں کیا ،فیصلہ محفوظ نہ کرنا سپریم کورٹ قواعد کے برعکس ہیں،چیف جسٹس نے وضا حت کی نا اہلی کا فیصلہ محفوظ کیا نہ ہی سماعت مکمل ہوئی،جج کے لیے روز امتحان کا دن ہو تا ہے ،چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ بوجھ ہمارے کندھوں سے اتر جائے،مقدمہ کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے