کالم

ٹیکنوکریٹی حکومت کا انتظار

اکتوبر 13, 2017 4 min

ٹیکنوکریٹی حکومت کا انتظار

Reading Time: 4 minutes

بہت ہی متقی، پرہیز گار اور اپنے اپنے شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی آمد آمد کے اسلام آباد میں بہت چرچے ہیں۔ افواہیں اس شہر میں اکثر حقیقت میں ڈھل جایا کرتی ہیں۔ صحافی مگر جھکی ہوا کرتے ہیں۔ شک وشبے کے مستقل اسیر ہوئے رپورٹر کی مجبوری ہے کہ کیوں اور کیسے والے سوالات اٹھائے۔
متقی، پرہیز گار اور اپنے اپنے شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے حوالے سے ’’کیوں‘‘ والے سوالات اٹھائے تو پاکستانی معیشت کی مبینہ تباہ حالی پر لیکچر سنے۔ درآمدات اور برآمدات کے مابین بڑھتے ہوئے خوفناک فرق کے بارے میں اعدادوشمار کاپتہ چلا اور اب تو IMF سے منسوب ایک رپورٹ بھی یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ آئندہ سال کا بجٹ تیار کرنے والوں کو 17 ارب ڈالر کے خسارے کے ساتھ کاروبار ریاست کو جاری رکھنے کا بندوبست کرنا ہو گا۔
2008ء کے بعد ’’باریاں‘‘ لیتی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں نے ٹیکنوکریٹی حکومت کا انتظار کرتے ہوئے لوگوں کے بقول ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ پاکستان کے خوش حال افراد سے ٹیکس جمع کرنے کی بجائے یہ حکومتیں ورلڈ بینک اور IMF سے قرضے لیتی رہیں۔ اس بات کا احساس کئے بغیر کہ بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت بالآخر دیوالیہ ہو جایا کرتی ہے۔ خود کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے جب IMF کے ہاں جائو تو وہ شرائط عائد کرتا ہے۔ یہ شرائط معاشی سے زیادہ سامراجی خواہشات وترجیحات پر مبنی ہوتی ہیں۔ پاکستان چونکہ اُمتِ مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے اس لئے ایک دن ہمیں مجبور کیا جاسکتا ہے کہ اپنے ایٹمی پروگرام کو قربان کرتے ہوئے قرضوں کی کثیر رقوم کو معاف کروالیں۔ ہماری قومی غیرت وحمیت یقینا یہ قربانی برداشت کر ہی نہیں سکتی۔ لہذا ماہرین پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹی حکومت بنائو اور اس وقت سے بچنے کا بندوبست کرو جب IMF آپ سے قربانیوں کا تقاضہ کرے۔
ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے معیشت کی باریکیوں کا ککھ پتہ نہیں۔ اپنی معیشت کے بارے میں اسلام آباد میں پھیلے خدشات کا جب بھی حکومتی وزراء اور نسبتاََ تجربہ کار سرکاری افسران سے تذکرہ کیا تو انہوں نے ان خدشات کو بے بنیاد پراپیگنڈہ قرار دیا۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ ملک کوفی الوقت خسارے کا سامنا ہے۔ یہ خسارہ مگر ان کے خیال میں ضروری تھا۔ اس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگائے گئے ہیں،سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں،ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتربنایا گیا ہے۔ یہ سب منصوبے اپنی تکمیل کے بعد ملکی صنعت کو فروغ دیں گے۔ ہمارا کاروبار نہ صرف چلے گا بلکہ اس میں رونق لگ جائے گی۔
حکومتی وزراء اور نسبتاََ تجربہ کار افسروں کی یہ خوش فہمی مگر Whatsapp پر متحرک ریٹائرڈ فوجی افسروں کے گروپس کو متاثر نہیں کرپائی ہے۔ چند ہی روز قبل پاک فوج سے کئی برس قبل ریٹائر ہوئے ایک جنرل صاحب نے جو ایک ’’حساس‘‘ ادارے کے سربراہ بھی رہے ہیں،ایسے ہی ایک گروپ میں اپنے دوستوں کو یاد دلایا کہ سوویت یونین کبھی ایک سپرطاقت ہوا کرتا تھا۔ وہ غلط ’’معاشی نظام‘‘ کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوا تو وہاں کے فوجیوں کوماہوار تنخواہیں دینا بھی ناممکن ہوگیا۔ ان میں سے اکثر فوجی مجبور ہوکر افواج کے لئے جمع ہوئے اناج،وردیوں اور حتیٰ کہ اسلحہ کو چوری کرکے بازار میں بیچتے پائے گئے۔
مجھے جب وہ پیغام ملا تو پہلا سوال یہ ذہن میں آیا کہ کیا سوویت یونین واقعتا اپنے ’’غلط معاشی نظام‘‘ کی وجہ سے تباہ ہوا تھا۔ یہ سوال اس لئے اُٹھا کہ 90ء کی پوری دہائی میں مجھ ایسے جاہل کو یہ بتایا جاتا رہاکہ سوویت یونین کو ’’افغان جہاد‘‘ نے تباہ کیا تھا۔ وہ جہاد جس کی پاکستان نے دل وجان سے پشت پناہی کی تھی اور اسے ایمان کی قوت سے منطقی انجام تک پہنچایا۔
سوویت یونین کے افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے ہوئے انجام کو حوالہ بناتے ہوئے نائن الیون کے بعد سے میرے کئی ایمان کی دولت سے مالا مال ماہرین اب یہ امید دلاتے چلے جارہے ہیں کہ امریکہ بھی افغانستان کی وجہ سے ایسے ہی انجام سے دو چار ہوگا۔
اپنے جھکی ذہن کی آشفتہ سری پر قابو پاتے ہوئے فوری طور پر لیکن اعتراف یہ کرنا ہے کہ ہماری عسکری قیادت بھی اب ملکی معیشت کے بارے میں برسرِ عام فکر مند نظر آرہی ہے۔ کراچی میں بدھ کے روز ایک سیمینار ہوا جہاں سرمایہ کاروں اور ماہرینِ معیشت نے اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب اس سیمینار کے مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے وہاں کلیدی خطاب بھی کیا۔
آئی ایس پی آر نے ان کے خطاب کا جو مسودہ جاری کیا اسے میں نے دو سے زیادہ بار پڑھا ہے۔ مجھے اس خطاب کے مندرجات ہرگز Alarming محسوس نہ ہوئے۔ معیشت کے بارے میں مثبت اور منفی اشاروں کا مناسب انداز میں تذکرہ ہوا۔ صنعت کاروں کو مگر یہ امید بھی دلائی گئی کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں منفی رجحانات پر توجہ دلائی جاتی ہے اور ان کے تدارک کی تدابیر بھی سوچی جاتی ہیں۔
بہت ہی متقی، پرہیز گار اور اپنے اپنے شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹی حکومت کی آمد کے منتظر افراد مگر بضد ہیں کہ ملکی معیشت کی تباہی کا مذکورہ سیمینار کے ذریعے ’’اثباتی اعلان‘‘ کردیا گیا ہے۔ اب باری ’’اگلے قدم‘‘ کی ہے۔
جو ’’قدم‘‘ اُٹھنے کا انتظار ہو رہا ہے میں اس سے ابھی تک متفق نہیں ہو پا رہا۔ سرگوشیوں نے ماحول مگر بنا دیا ہے۔ بلھے شاہ کے بیان کردہ ’’شک دے ویلے‘‘ میں منطقی دلائل کی گنجائش ویسے بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ہیجانی کیفیت طاری رہتی ہے جس میں ہر شخص دیوانہ ہوا اپنی پسند کے منظرنامے ہذیانی حالت میں بیان کئے چلے جاتا ہے۔
یہ ہذیان کسی صورت کم ہو تو معاشی اعتبار سے تقریباََ جاہل ہوتے ہوئے بھی میں ٹھوس دلائل کے ذریعے یہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا کہ نام نہاد ٹیکنوکریٹس نے ہماری معیشت میں جلوے صرف اس وقت دکھائے جب امریکہ کو سردجنگ اور بعد ازاں افغانستان کے حوالے سے ہماری ضرورت پڑی۔ امریکی ترجیحات کے حصول کا آلہ کار بنے بغیر کسی دیسی ایڈم سمتھ یا کینز نے ہماری تاریخ میں کسی ایک دن بھی کوئی معجزہ برپا نہیں کیا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے