کالم

ایک ہی ریفرنس کیوں نہیں

اکتوبر 13, 2017 2 min

ایک ہی ریفرنس کیوں نہیں

Reading Time: 2 minutes

عدالت عظمیٰ سے نظرثانی درخواست مسترد ہونے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک اور درخواست عدالت عظمیٰ میں دائر کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ان کے خلاف علیحدہ علیحدہ ریفرنسز کی بجائے ایک ہی ریفرنس تیار کیا جائے کیونکہ مبینہ جرم کی نوعیت ایک ہی ہے تو علیحدہ علیحدہ ریفرنسز کیسے دائر کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اگر عدالتی فیصلے میں کئی غلطیاں یا کوئی ایسی مثال (precedent) قائم ہو جس میں قانونی سقم ہو تو عدالتی نظرثانی (Judicial Review) بھی کی جا سکتی ہے۔ ایڈوکیٹ خواجہ حارث کے توسط سے دائر درخواست میں تمام ریفرنسز کو یکجا کرنے کی دس وجوہات بتائی گئی ہیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تمام ریفرنسز کی ایک ہی بنیاد یعنی معلوم آمدن سے زائد اثاثے ہیں جب مبینہ جرم کی نوعیت ایک ہے تو اس پر مختلف ریفرنسز دائر کرنا قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی شق 9(a) (v) سے متصادم ہے۔ نواز شریف اور ان کے بچوں پر اس وقت تین ریفرنسز احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں جن میں العزیزیہ ملز ریفرنس، لندن فلیٹس ریفرنسز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹس سمیت دیگر کئی کمپنیوں پر ریفرنس شامل ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تینوں ریفرنسز جے آئی ٹی کی 9 والیمز پر مشتمل رپورٹ کا ضمیمہ ہیں حتیٰ کے ایک ریفرنس میں نو گواہان میں سے چھ گواہان دوسرے ریفرنس کے تیرہ گواہان میں شامل ہیں جبکہ دوسرے ریفرنس کے دس گواہان میں دو گواہان تیسرے ریفرنسز میں بھی گواہان ہیں۔ جرم کی نوعیت ایک ہونے کے باوجود نواز شریف کے خلاف مختلف ریفرنسز آئین کے آرٹیکل 4 اور 10A اور 13 کی خلاف ورزی ہے۔جرم کی نوعیت ایک ہونے پر کئی ریفرنسز دائر کرنے کی کوئی نظیر نہیں اور درخواست گزار کے خلاف کئی ریفرنسز دائر کرکے انکے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا جو کہ آئین کے آرٹیکل 25، 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے ۔ مزید موقف اختیار کیا گیا کہ ایک جرم پر علیحدہ علیحدہ ٹرائل فوجداری قوانین کے اصولوں کے بھی منافی ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمی کا مختلف ریفرنسز کے فائل کرنے سے نا صرف نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے ہیں بلکہ آئندہ کوئی بھی شہری جس کے خلاف ایسے الزامات ہو وہ بھی متاثر ہوگا۔ حالیہ درخواست میں مزید کہا گیا ہے نظرثانی درخواست میں الگ الگ ریفرنسز کا معاملہ اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ انہیں نوعیت معلوم نہیں تھی مگر جب احتساب عدالت سے ریفرنسز کی نقول موصول ہوئیں تو دیکھنے پر معلوم ہوا کہ مبینہ جرم کی نوعیت ایک ہی تھی۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ نے کہا تھا کہ وہ ملزمان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گے مگر ٹرائل شروع ہو گیا ہے اور تفصیلی فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ملزم نواز شریف پر قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی شق 9(a)(v) کے تحت ایک ہی ریفرنس دائر کیا جائے اور اس وقت تک احتساب عدالت کی کاروائی روکی جائے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) میں دائر درخواست میں وفاقی حکومت، قومی احتساب بیورو، احتساب عدالت، حسن نواز شریف، حسین نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹین (ر) محمد صفدر کو فریق بنایا گیا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے