کالم

ترین کی کاشت کاری مشکوک

اکتوبر 17, 2017 6 min

ترین کی کاشت کاری مشکوک

Reading Time: 6 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواستیں گزشتہ سال نومبر میں اس وقت دائر کی تھیں جب پاناما پیپرز کے شور میں نوازشریف کے خلاف تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور شیخ رشید عدالت عظمی پہنچنے تھے۔ وہ مقدمہ تو نمٹ گیا مگر یہ کیس تاحال لٹک رہا ہے اور اس میں آئے دن نئے موڑ آ رہے ہیں۔
گزشتہ روز سولہ اکتوبر کو عمران خان کی جانب سے ایک اور متفرق درخواست دائر کرکے نیا جواب جمع کرایا گیا جس کے ساتھ بنک اسٹیٹمنٹ بھی لگائی۔ آج کمرہ عدالت میں جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل شروع کیے کیونکہ عمران خان کے کیس کی سماعت مکمل ہونے کا خود سپریم کورٹ نے آرڈر لکھوایا تھا لیکن چیف جسٹس نے وکیل نعیم بخاری سے کہاکہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی، گزشتہ روز جمع کرائے جواب پر بتائیں کیا موقف ہے۔ نعیم بخار ی نے جواب پڑھا تو چیف جسٹس نے کہاکہ یہی سب سے بڑی مشکل درپیش ہے کیونکہ دستاویزات میں تسلسل نہیں۔ اکاﺅنٹنٹ طاہرنواز کے بیان کے بعد اب یہ دستاویزات آئی ہیں، اس میں یہ ننانوے ہزار پاﺅنڈ کی رقم کا مسئلہ ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ یہ جمائما نے بائیس مئی دوہزار تین کو بھیجے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا پہلے بھی آپ کا یہی موقف تھا یا اب نئی پوزیشن لے رہے ہیں؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ پہلے والی پوزیشن کی وضاحت کر رہا ہوں، چونکہ مخاصمانہ نوعیت کی مقدمہ نہیں اس لیے وضاحت کو بہتر بنانے کیلئے یہ دستاویزات فراہم کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کچھ پہلے دن ہونا چاہیے تھا، پہلے دن سے یہ ضروری تھا۔ وکیل نے کہاکہ کیس میں دلائل دیتے وقت نیازی کمپنی پر لگائے گئے فراڈ کے الزامات کا جواب دے رہاتھا، یہ معاملہ عدالتی سوالات کے ذریعے سامنے آیا اور اس پر جواب دینا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی ریکارڈ پر آج تک یہ چیز کسی معاہدے کی دستاویز کے ذریعے نہیں لائی گئی کہ نیازی کمپنی نے کیسے فنڈز ٹرانسفر کیے۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ ہرممکن کوشش کی ہے دوہزار تین تک جو کچھ ہوا، اس کی تفصیلات و ریکارڈ پیش کروں۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ پہلے کہا گیا تھاکہ لندن فلیٹ کے کرایہ دار سے وصولی نہیں ہوسکی تھی جبکہ نئے دستاویزات میں بنک اسٹیٹمنٹ بتاتی ہے کہ کچھ رقم نیازی کمپنی کے اکاﺅنٹ میں آئی تھی۔ وکیل نے کہاکہ مجھ سے غلطی ہوئی، چالیس ہزار پاﺅنڈ اور بیالیس ہزار یورو کرائے کی مد میں وصولی بنک اسٹیٹمنٹ میں موجود ہے، شرمندگی محسوس کر رہا ہوں کہ پہلے درست طور پر نہ پیش کرسکا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ان دستاویزات کے مصدقہ ہونے کوکسی بھی وقت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا نے وکیل کی توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ بنک اسٹیٹمنٹ میں کمپنی کی سالانہ ساڑھے تین ہزار پاﺅنڈ فیس بھی درج ہے، درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے یہ بات بہت پہلے بتادی تھی، اس کا مطلب ہے کہ ان کو معلوم تھا۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ اگر ان کے پاس دستاویزات ہیں تو عدالت میں لے آئیں۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ یہ دستاویزات پہلے دن عدالت میں جمع کرائی جاتیں تو وقت بچتا۔ نعیم بخاری بولے کہ باربار کہہ رہاہوں کہ عدالت میں خود شرمندگی محسوس کررہاہوں۔ وکیل نے کہاکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ رقم پاکستان آئی ہے، یہاں سے ایک روپیہ باہر نہیں لے جایا گیا اور ساری ٹرانزیکشن بنک کے ذریعے ہوئی۔ عدالت نے عمران خان کے نئے متفرق جواب پر درخواست گزار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری ردعمل طلب کرلیا۔
جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے دائر درخواست میں لگائے گئے الزامات پر جوابی دلائل میں ترین کے وکیل سکندر بشیر مومند نے بھرپور انگریزی اور اسٹائل کے ساتھ پرانے دلائل کا ازسرنو آغاز کیا۔ کہاکہ جہانگیر ترین کے پاس چونکہ بہت زیادہ زمین ہے اس لیے جن سے لیز پر لی گئی ان گھرانوں کے سربراہوں کے نام پر چیک جاری کیے گئے اور یہ عدالت میں جمع کرا دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں لیز زمین کی خسرہ گرداوری نہیں دی گئی، صرف ترین کی ذاتی زمین کی تفصیلات فراہم کرنے سے کوئی مدد نہیں ملے گی، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم علاقے کے محکمہ مال کے حکام کو طلب کریں یا ریکارڈ منگوا کر کمیشن سے تحقیقات کرائیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ادائیگیاں کراس چیک کے ذریعے کی گئیں اور اس کا ریکارڈ بھی عدالت کو فراہم کیا ہے، اگر عدالت مطمئن نہ ہوتو پھر ایسی بات ہو سکتی ہے لیکن پہلے میری بات کو بھی مان لیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو سن رہے ہیں اس لیے خود ہی بتادیں، جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہوتا، ادائیگی کراس چیک سے ہوتی ہے لیکن محکمہ مال میں درج بھی ہوتاہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ پہلے دن سے جانتے ہیں کہ عدالت کو محکمہ مال کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ترین شوگر مل کے مالک ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کراس چیک گنا مالکان کو جاری کیے گئے ہوں۔ وکیل نے کہاکہ عام طور پر یہ باتیں صرف قانون یا کاغذوں میں لکھی ہوتی ہیں مگر عملی طور پر زمین مالکان اس کا اطلاق نہیں کرتے اور اسی طرح کام چل رہا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسی بات نہ کریں یہ قانون ہے اور انیس سو بیس سے زمین کی کاشت کاری کے معاہدوں کا محکمہ مال میں اندراج کیا جا رہا ہے کہ زمین کس کی ہے اور اس پر کاشت کون کرتاہے اور کتنا ٹھیکہ ہے۔ وکیل نے کہاکہ زمین لیز پر دینے والے محکمہ مال میں کاشت ٹھیکے کو رجسٹرڈ کرنے میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ ٹھیکے کی مد میں بہت بڑی رقم وصول کرتے ہیں اس وقت کیوں نہیں ہچکچاتے؟۔جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ کیا ترین زمین کا آبیانہ دیتے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ وہ آبیانہ دیتے ہیں اور بجلی کا بل بھی پانی لگانے کی مد میں ادا کرتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے پاس زمین کی کاشت کاری کا کوئی سرکاری ثبوت نہیں ۔ وکیل نے کہاکہ بنچ میں شامل ججوں کے برعکس بات نہیں کر رہا، صرف یہ کہہ رہاہوں کہ عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا، ترین نے اکیس کروڑ روپے زمین لیز کے دیے ہیں، عدالت کے مفروضے میرے دلائل سے مختلف ہوسکتے ہیں مگر بہرحال وہ مفروضے ہی ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ اگر آپ کے پاس دستاویزات ہوں تو اپنی بات کو ثابت کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں چاہتے اس لیے خود ہی بتادیں کہ کس طرح اپنی بات کو ثابت کریں گے۔ وکیل بولے کہ سمجھ رہا ہوں کہ عدالت کس طرح ڈھکے چھپے انداز میں مجھ تک بات پہنچارہی ہے اسی لیے کوشش میں ہوں کہ وضاحت دے سکوں اورمطمئن کروں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا زمین کے نقشے سے لیز کا معاملے سمجھا سکتے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے، مختلف موضعات میں زمین ہے تاہم عدالت کو یہ بتا رہا ہوں کہ عملی طور پر وہاں حالات مختلف ہوتے ہیں، اپنی نیک نیتی ثابت کرنا چاہتا ہوں وگرنہ یہ بات بھی کہہ سکتا تھا کہ اپنے زیرقبضہ زمین پر کاشت کر رہا تھا مگر یہ مجھ سے جڑتا نہیں اس لیے عدالت کے سامنے چیک پیش کیے۔ وکیل نے جسٹس فیصل عرب کی بات کے جواب میں کہاکہ ترین نے گنا مالکان کو ادائیگیاں نہیں کیں بلکہ ان کے شوگر مل جے ڈی ڈبلیو نے کی ہوں گی اس لیے یہ چیک صرف لیز کے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ممکنات میں شامل ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم تحقیقات کرائیں کہ واقعی ترین نے ان زمینوں پر کاشتکاری کی۔موقف اورحقائق میں بہت بڑا تضاد ہے، ایک طرف عدالت کو کچھ بتایا جا رہا ہے جبکہ وہ ریکارڈ پر موجود ہی نہیں۔ زمین کی خسرہ گرداوری ہی اصل چیزہے جو فراہم نہیں کیاگیا۔ جمع بندی آپ کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ وکیل نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے لیز کے مالکان کا ثبوت مانگا تھا وہ پیش کر دیا ہے مالکان کے نام چیک دکھا دیے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ایسا بھی کیا جاتاہے کہ گنا مالکان کو بوگس ادائیگیاں کی جاتی ہیں تاکہ آمدن بڑھا کر بتائی جاسکے۔ وکیل نے کہاکہ جب تک جہانگیر ترین پر ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی ایسی بات نہ ہی کی جائے کیونکہ آپ عمومی بات کرتے ہیں اور کل میڈیا میں جہانگیر ترین کانام لے کر سرخی لگی ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین کیلئے ترین نے کھاد بھی لی ہوگی، وہ دکھادیں اور اپنا مقدمہ ثابت کریں۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ گنا مالکان کو ملز کی ادائیگی سے قبل ایجنٹ ادائیگی کرتے ہیں اور اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں اس لیے بھی بنک چیک کے بارے میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ زمین مالکان کے بیان حلفی عدالت کو دکھائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ محکمہ مال کا اصل ریکارڈ دکھائیں جس زمین پر ترین کاشت کاری کرتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ یہ کوئی جھوٹا یا غلط نہیں بلکہ اصل کاروبار ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خسرہ گرداوری بتائے گا کہ زمین کی ہے، کس کے قبضے میں ہے اور کون کاشت کاری کرتاہے۔ وکیل نے کہاکہ اس کاریکارڈ بھی منگوا کر دکھاﺅں گا اور خود بھی اس معاملے کوسمجھنے کی کوشش کروں گا۔
اس کے بعد وکیل نے جہانگیرترین کے خلاف اسٹاک ایکسچینج میں انسائیڈ ٹریڈنگ کے الزام پر جوابی دلائل کا آغازکیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا حاجی خان اور اللہ یار ترین کے ڈرائیور اور خانساما ں تھے؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ پوچھ کر بتاﺅں گا۔ وکیل نے کہاکہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں الزام لگایا ہے کہ انسائیڈ ٹریڈنگ کی گئی جو کہ جرم ہے اور جہانگیر ترین نے اس کا اعتراف کیا اس طرح وہ نااہل ہوتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ ایس ای سی پی آرڈی ننس انیس سو انہتر کی شق پندرہ ای دوہزار آٹھ میں شامل کی گئی اور یہ قانون ہی غلط تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ عدالت سے یہ چاہتے ہیں کہ نااہلی کیلئے دائر درخواست میں اس قانون کے غلط ہونے کا فیصلہ کریں؟۔ اس وقت قانون کو چیلنج کیوں نہیں کیا گیا۔ وکیل نے کہاکہ انسائیڈ ٹریڈنگ کو دنیا کے بہت سے ممالک میں غیرقانونی نہیں کہا گیا۔ عدالت پہلے اس ٹریڈنگ کو سمجھے پھر ترین کی بددیانتی کا تعین کرے۔
مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے