کالم

ترین کے سات کروڑ واپس

اکتوبر 18, 2017 4 min

ترین کے سات کروڑ واپس

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے دائر درخواست پر جوابی دلائل دیتے ہوئے ان کے وکیل سکندر بشیر نے آج اپنے دلائل میں خوبصورت انگریزی پر اپنا زور صرف کرتے ہوئے آئین و قانون کی ایسی کھچڑی پکانے کی کوشش کی کہ ٹی وی چینلوں کے رپورٹرز کو اسکرین پر چلانے کیلئے ٹکرز بنانے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تو بھلا ہو چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہ انہوں نے انگریزی کا ہی سہارا لیتے ہوئے جہانگیر ترین کے وکیل کو ایک جملہ مارا تو وہ سٹپٹا کر رہ گئے اور کہا کہ مائی لارڈ یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے۔
مقدمے کی سماعت کے آغاز میں حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں کھڑے ہوئے اور بولے کہ عمران خان نے اب سپریم کورٹ میں نئے متفرق جواب کے ذریعے پرانا موقف تبدیل کرنے کی اجازت چاہی ہے، عمران خان عدالت سے چاند مانگتے ہیں، ان کے جواب پر اپنا ردعمل تحریری طور پر بھی دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ان دونو ں مقدمات میں بہت گہرائی سے چیزوں کا جائزہ لے رہے ہیں اس لیے اس پر اتنا وقت لگ رہاہے، دونوں درخواستوں کی نوعیت ایک جیسی ہے اس لیے ایک ساتھ فیصلہ محفوظ کرکے سنائیں گے۔
جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اسٹاک میں شیئرز خریدار ی ترین کو فائدہ ہوا مگر یہ نہیں بتایا گیاکہ ان کی وجہ سے کس کو نقصان ہوا؟۔ وکیل نے کہاکہ درخواست میں یہ الزام ہے کہ ترین نے اسٹاک کی اندرونی معلومات ہونے کی وجہ سے فائدہ اٹھایا اور شیئرز خرید کرمنافع کمایا۔ عدالت کے پوچھنے پر انہوں نے بتایاکہ ترین پہلے کمپنی کے چیف ایگزیکٹو تھے بعد ازاں بورڈ میں شامل ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے حاجی خان اور اللہ یار کے بارے میں پوچھا تھا جن کے نام ترین نے شیئرز خریدے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اللہ یار اور حاجی خان جہانگیر ترین کے ملازم ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اللہ یار کو شیئرزخریداری کیلئے کتنی رقم دی گئی؟۔ وکیل نے بتایاکہ تیرہ ملین کے شیئرز خریدے، چھیالیس ملین میں بیچے گئے، تینتیس ملین کا منافع ہوا۔ یہ رقم بعد ازاں جہانگیر ترین نے بطور ازالہ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کو واپس کی۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ جب متاثرہ افراد کی نشاندہی نہ ہوسکے تو ایسی صورت میں واپس حاصل کی گئی رقم سرکاری خزانے میں ہی جمع ہوتی ہے اس لیے ازالے کے سات کروڑ ایکسچینج کمیشن کو ملے، وہاں سے خزانے میں ہی جمع ہوئے ہوں گے۔وکیل نے کہاکہ الزام ہے کہ جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز کی خریداری کے وقت ترین پہلے سے باخبر تھے اس لیے ملازمین کے نام شیئرز خریدے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ الزام نہیں ہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ اگر آپ بطور کمپنی ڈائریکٹر اندرونی معلومات سے باخبر ہوں تو کیا شیئرز خریداری درست ہوگی؟۔وکیل بولے کہ ترین کے خلاف کیس یہ ہے کہ اعتراف کو جرم تصور کیاجائے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ اعتراف کا مطلب سزا یافتہ ہونا نہیں ہوتا۔ وکیل نے کہاکہ ایک تو اس قانون کی شقوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا، دوسرا یہ کہ قانون منی بل کی آئینی تشریح کے مطابق ہے اور کیا نیت تھی جب یہ شیئرز کا معاملہ ہوا۔ وکیل نے کہاکہ یہ ٹیکس کا معاملہ نہیں۔ سیکورٹی کمیشن آرڈی ننس کی شقوں پندرہ اے اور بی کاجائزہ لیا جائے جن کو ضمنی طور پر شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل کی ایک ہی نکتے پر زور دیتے ہوئے طویل بحث کے درمیان میں اچانک کہاکہ آپ قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر نتائج سے جان چھڑانے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ وکیل سکندر بشیر اس جملے پر اچانک بھڑک اٹھے اور سٹپٹاتے ہوئے بولے کہ میں جان نہیں چھڑا رہا بلکہ یہ میرا آئینی حق ہے کہ دفاع کروں، ہاتھ پاﺅں مارنے کا لفظ درست نہیں ہے میں قانونی دلیل دے رہا ہوں۔ یہ معاملہ ٹیکس کا نہیں ہے۔ جب یہ قانون ہی درست طور پر نہیں بنایا گیا تو اس کی نشاندہی کرنا میرا حق ہے۔ آئین کے آرٹیکل تہتر میں منی بل کی تفصیل موجود ہے، یہ معاملہ بددیانتی سے متعلق تعین کرنے کا بھی نہیں۔ وکیل اکرم شیخ کھڑے ہوئے اور بولے کہ ترین نے جو مفصل جواب جمع کرایا ہے اس میں قانون کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ جہانگیرترین نے کہاکہ اس قانون کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھانا میرا بنیادی دفاع ہے، ہاﺅس آف لارڈز کا حوالہ دے کر انہوں نے کہاکہ قانون کی حکمرانی کے اصول کے خلاف ہوگا کہ اس قانون کے تحت سزادی جائے جس قانون کے بارے میں عدالت کو معلوم ہو کہ غلط ہے اور کل کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک قانون ہی برا ہے تو کیا میں نہ بتاﺅں تو عدالت جو آئین کی محافظ ہے وہ اس قانون کو خود نہیں دیکھے گی؟۔ وکیل نے کہا کہ اگر منی بل میں نہیں آتا تو پھر جو قانون بنایا گیا وہ درست نہیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ یہ بتادیں کہ جو رقم بطور ازالہ ترین سے وصول کی گئی وہ سرکار ی خزانے کے دونوں اکاﺅنٹس میں کسی میں نہیں گئی تھی۔ وکیل جہانگیر ترین نے ایکسچینج کمیشن آرڈی ننس کی دو شقوں پر دوبارہ سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ یہ آئین سے متصادم ہیں، جس پر جسٹس عمرعطا نے کہاکہ آپ کے پاس کہنے کیلئے یہی ایک نکتہ ہے، میرٹ پر کہنے کیلئے کچھ نہیں۔ وکیل بولے کہ کیس کے میرٹ پر بھی آﺅں گا پہلے آئین وقانون پر دلائل دے رہا ہوں۔
عت کل تک ملتوی کردی گئی۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے