کالم

ترین کے قانونی اثاثے

اکتوبر 25, 2017 5 min

ترین کے قانونی اثاثے

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
حنیف عباسی کی ترین نااہلی درخواست پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے جوابی دلائل کا آغاز کیا، بولے کہ لندن کے مضافات میں بارہ ایکڑ زمین خرید کر گھر بنانے کیلئے جہانگیرترین نے دوہزار گیارہ سے چودہ تک کل تین قسطوں میں رقم بھیجی، پہلی قسط پچیس لاکھ پاﺅنڈ، دوسری پانچ لاکھ پاﺅنڈ اور تیسری گیارہ لاکھ ڈالر کی تھی جس کو پاﺅنڈ میں تبدیل کیا گیا، اس طرح کل چھتیس لاکھ اٹھاسی ہزار پاﺅنڈ برطانیہ بھیجے گئے، ترین کے بچوں کی آف شور کمپنی شائنی ویو نے برطانیہ میں بنک سے اکیس لاکھ پاﺅنڈ کا قرض بھی لیا۔ اس کی ادائیگی بھی پاکستان سے بھیجی گئی رقم سے کی گئی۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ اس قرض پر سود کتنا ادا کیا گیا؟ وکیل نے جواب دیاکہ اس کی بھی دستاویزات فراہم کر سکتا ہوں، تاہم ترین کی لندن میں جائیداد غیرمنافع بخش ہے اوریہ کوئی کاروبار نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا لندن جائیداد ترین کا اثاثہ نہیں؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ گھر قانون کے تحت ٹرسٹ کی ملکیت ہے جہانگیر ترین کا اثاثہ نہیں۔
اسی دوران جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنے نائب سے پانی منگوایا اور ڈائس پر جھک کر پینا چاہاتو چیف جسٹس نے کہاکہ آپ دباﺅ میں کیوں رہتے ہیں، لائٹ موڈ میں بھی رہ لیا کریں۔ وکیل نے کہاکہ آپ کی عدالت میں کسی چیز کو لائٹ نہیں لے سکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اکتیس دسمبر دوہزارسولہ (جس دن بطور چیف جسٹس حلف لیا) کے بعد بہت بدل چکاہوں۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ ترین نے رقم برطانیہ میں کس اکاﺅنٹ میں بھیجی؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ شائنی ویو کمپنی کے اکاﺅنٹ میں رقم بھیجی گئی۔ اگر عدالت حکم دے تو معلوم کرکے بتادوں گاکہ کمپنی کا اکاﺅنٹ کس بنک میں تھا۔ عدالت میں درخواست گزار کے وکیل آضد نفیس کھڑے ہوئے اور بولے کہ معلوم کیا جائے رقم پہلے ٹرسٹ کے اکاﺅنٹ میں بھیجی گئی یا براہ راست شائنی ویو کمپنی کے اکاﺅنٹ میں گئی۔ ترین کے وکیل نے کہاکہ عدالت اکاﺅنٹس کا آڈٹ نہیں کررہی بلکہ دیانت داری جانچ رہی ہے۔ وکیل آضد نفیس نے کہاکہ دراصل یہ بے نامی ثابت کرنے کا معاملہ ہے۔ جسٹس عمر عطا نے ترین کے وکیل سے پوچھاکہ درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ اگر ٹرسٹ کا نقاب اٹھا لیاجائے تو پھر جائیداد کس کی ہوگی اور کیا جواب ہوگا؟۔ کیا بے نامی اسی کو نہیں کہتے؟۔ وکیل نے کہاکہ پہلے ٹرسٹ بنایا گیا اور یہ سب وہاں کے قانون کے مطابق ہے۔
اسی وقت چیف جسٹس وکیل کی مدد کو آئے اور اپنے ساتھی جج سے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ اگر یہ بے نامی بھی ہے تب بھی کیا فرق پڑتاہے، پاکستان میں تو قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں، اگر جائیداد فروخت کرنے اورخریدنے والے مطمئن ہیں تو پھر بے نامی مسئلہ نہیں ہوتا عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ ہم اس وقت صرف یہ دیکھ رہے کہ کمائی کیسے کی اورباہر کیسے بھیجا گیا۔ وکیل نے جواب دیاکہ ترین نے کوئی بددیانتی نہیں کی، روپے کو غیرملکی کرنسی میں تبدیل کرایا اور باہر بھیجا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے اتنی بڑی رقم کی تبدیلی پر سوال اٹھانے کی کوشش کی تو ترین کے وکیل نے کہاکہ قوانین کے مطابق ایسا کیاگیا، اگر کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کرنسی تبدیل کرنے والا ایجنٹ ذمہ دار ہوگا کیونکہ اس کو سٹیٹ بنک نے لائسنس دیا ہے اور وہ کرنسی تبدیلی سے انکار کرسکتاہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر سٹیٹ بنک اور انکم ٹیکس اتھارٹی نے اس وقت اعتراض نہیں کیا تھا تو پھر غلط کیسے ہوسکتاہے۔کیا ترین نے بچوں کو جو کروڑوں کے تحائف دیے اس پر کبھی ٹیکس حکام نے کوئی نوٹس بھیجا تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ تحائف کراس چیک کی صورت میں تھے اور ٹیکس حکام کو ریکارڈ فراہم کیا گیا تھا۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ ترین اتنے امیر آدمی ہیں تو بچوں سے جوابی تحائف کیوں لیے، سو ملین کا تحفہ بھی ہے۔ وکیل نے جواب دیاکہ سب کچھ قانون کے مطابق کیا گیاکیونکہ کمائی قانونی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ نیت جو بھی ہو جب کمائی قانونی ہے تو پھر درست ہے، خواہ والد امیر بھی ہو جب ٹرانزیکشن قانونی ہے تو بچوں کے تحائف پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا۔ وکیل نے فیصلے کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتنے سوالات پر چوبیس گھنٹے میں کوئی فیصلہ لکھ دیں۔ وکیل نے کہاکہ اس کیس میں فیصلہ کئی قوانین کی تشریح کرے گا اور بہت سے ایسے سوالات کا جواب ملے جو مجھے بھی نہیں معلوم، اس لیے سیکھنے کو ملے گا۔
جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کا گرے ایریا لیز زمین کی انکم ہے، اس پر چونکہ آپ نے ٹیکس دیا ہے تو اس کی تفصیل بھی دیدیں تاکہ آسانی ہوجائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ جس سال ترین نے شائنی ویو کو رقم بھیجی اسی سال بچوں نے بھی ترین کو تحائف دیے ایسا کیوں ہوا؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ جیسے چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ رقم قانونی ہو تو خاندان کے اندر تحائف کوئی ایسی چیز نہیں جس پر سوال اٹھ سکے۔ جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ کیا لندن کا گھر ترین کے زیراستعمال ہے؟۔ وکیل نے اثبات میں جواب دیا، تو جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ اگر آج یہ ٹرسٹ ختم کردیاجائے تو گھر کا اثاثہ کس کا ہوگا؟۔ وکیل نے جواب دیاکہ قوانین مختلف ہیں، ٹرسٹ ختم کرنے کا ایک لمبا قانونی طریقہ ہے مگر ختم کرکے گھر فروخت کیاجائے تو ترین کو حصہ ملے گا، اور اسی وقت اس کو اثاثہ سمجھا جاسکے گا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی تک عدالت کو ترین کے ٹرسٹ کی ڈیڈ نہیں فراہم کی گئی۔ وکیل بولے کہ میرے پاس ہے ابھی دفتر میں جمع کراﺅں گا۔ میرا قانونی موقف یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی کے وقت یہ گھر میرا اثاثہ نہیں تھا اور نہ اب ہے اس لیے ظاہر نہیں کیا۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں کہ جو چیز اثاثہ بن سکتی ہو تو اس کا ظاہر کیا جاناضروری ہے، بینیفشل انٹرسٹ کو عدالت نے فیصلے میں (پانامہ) ظاہر کرنا ضروری قرار دیاہے۔ وکیل نے کہاکہ ترین کی ٹرسٹ ڈیڈ مختلف ہے، یہ حسین نواز جیسی نہیں کہ مرنے کے بعد تقسیم کے حوالے سے ہو۔ چونکہ ترین امیر شخص ہیں اس لیے ہر وقت ٹیکس حکام کے مائیکرواسکوپ تلے رہتے ہیں، وہ بہت زیادہ ٹیکس دینے والوں میں شامل ہیں، تمام ٹرانزیکشن قانونی ہے۔ ٹرسٹ بنانے کیلئے قانون کا سہارا لیاگیا اور یہ ڈھانچہ لندن اور جرسی کے قوانین کے مطابق تشکیل دیا۔اس میں کوئی بددیانتی نہیں، والدین اپنے بچوں کیلئے ایسا بندوبست کرتے ہیں، بچے شادی شدہ اور عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ خودمختار ہیں اور ترین کے زیرکفالت نہیں۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ عمر اور شادی شدہ ہونے کے علاوہ کسی حقیقت سے بتائیں کہ بچے زیرکفالت نہیں۔
چیف جسٹس نے ترین کے وکیل سے کہاکہ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں اور پانامہ کیس میں کئی چیزیں مشترک ہیں، مثلا یہ کہ وہاں بھی ممکنہ تنخواہ اثاثہ تھی جو وصول نہیں کی گئی اور یہاں بھی لندن گھر ممکنہ اثاثہ ہے، آپ یہ بتائیں کہ اس مقدمے میں ایسا کیا ہے کہ جو اس کیس سے مماثلت نہیں رکھتا ۔ وکیل نے کہا کہ اثاثوں کے ظاہر نہ کرنے کیلئے تسلیم شدہ حقائق ضروری ہیں۔پانامہ فیصلے میں جسٹس کھوسہ نے لکھاکہ باربار طلب کرنے کے باوجود جواب دیا گیا اور نہ ریکارڈ فراہم کیا گیا۔پانامہ کیس میں درخواست گزاروں کا کیس مضبوط تھا یہاں میرا مقدمہ مضبوط ہے۔ پانامہ ٹرائل میں مدعاعلیہان نے کہانیاں سنائیں اور جج نے اپنے فیصلے میں لکھا جبکہ ترین نے اس مقدمے میں کوئی کہانی نہیں سنائی۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی نظرمیں بددیانتی کی تعریف کیاہے؟۔وکیل نے جواب دیاکہ اس کے پیرامیٹرز ہیں، اصل لفظ امین اسلامی شریعت سے لایا گیا اور معاملہ حقوق العباد سے منسلک ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کا مطلب ہے کہ فیصلے کرتے وقت کسی سے غلطی ہو جائے تو وہ بددیانتی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ترین نے لیززمین سے اربوں کمائے مگر اس کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا، اس میں آپ کو نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے زمینوں کی دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی۔ وکیل نے کہاکہ اگر کہیں کوئی چیز مکمل نہیں تو اس میں شک کا فائدہ ترین کو ہوگا کیونکہ زمینوں کے ٹیکس کا معاملہ متعلقہ عدالتوں میں زیرسماعت ہے۔ اس کے ساتھ ہی بولے کہ میرے دلائل مکمل ہو گئے ہیں ۔
عدالت نے سماعت سات نومبر تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے