کالم

جج کس طرف جائیں گے

نومبر 14, 2017 6 min

جج کس طرف جائیں گے

Reading Time: 6 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
آج سپریم کورٹ جانے سے قبل ہی علم تھا کہ ایک سال سے زیرسماعت اس مقدمے کا آخری دن ہے اور جان چھوٹ جائے گی۔ ساڑھے گیارہ بجے چیف جسٹس اور باقی دوجج کمرہ عدالت نمبر ایک میں آئے اور سماعت کا آغاز ہوا۔
عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے جوابی دلائل میں وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کے کسی جواب میں تضاد نہیں، مقدمہ درخواست گزار کے اٹھائے نکات پر آگے نہیں بڑھا، عدالت کے پوچھے سوالوں پر جواب جمع کرائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پرانی باتیں نہ دہرائیں،یہ بات ہوچکی ہے کہ لندن فلیٹ ظاہر شدہ تھا مگر نیازی کمپنی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔وکیل نے کہاکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ عمران خان نے لندن فلیٹ خریداری کیلئے منی لانڈرنگ نہیں کی۔ایک لاکھ پاﺅنڈ کی رقم پاکستان میں نقدی کی صورت میں لائی گئی مگر یہ نہیں کہاکہ یہ عمران خان جیب میں لائے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے آپ نے اس رقم کے بارے میں کچھ اور کہاتھا، اب یہ بات کررہے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہوگی ۔
درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں اپنی نشست سے اٹھے اورکہاکہ عدالت نے عمران خان کو جواب میں ترمیم کی اجازت نہیں دی، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم یہ حقیقت مدنظر رکھے ہوئے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ پہلے عدالت ترمیمی جواب کی اجازت دے تاکہ اس میں موجود متعدد تضادات کی نشاندہی کی جاسکے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ دوہزار آٹھ اور دوہزار بارہ میں جس وقت عمران خان کے اکاﺅنٹ میں رقم آئی وہ رکن اسمبلی نہیں تھے،وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ کاغذات نامزدگی میں بیوی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی نہیں ہو سکتی، صرف کاغذات مسترد ہو سکتے ہیں، عمران خان نے یہ غلطی کی مگر یہ غلط بیانی نہیں، دوہزار دو کے کاغذات نامزدگی کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا گیااور اس دوران دو ہزار سات تک اسمبلی کی مدت مکمل ہوگئی، پانامہ اور اس کیس میں فرق ہے۔ یہ ایک شخصیت کا جوانی میں اپنے اکاﺅنٹس کو مناسب طریقے سے ترتیب نہ دینے کا مقدمہ ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ عمران خان نے اپنے یورو اکاﺅنٹ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ عدالت کی طرح مجھے بھی جلدی ہے کیونکہ مجھ پر ایک بوجھ ہے، اپنی دوسری کتاب کو آئندہ دس دنوں میں لکھ کر مکمل کرناہے، پہلی کتاب صرف ایک جج کو بھیجی تھی، آپ کو(چیف جسٹس) کو نہیں دے سکا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے آپ کی کتاب کی فوٹو کاپی مل گئی تھی، آپ نے یہ امتیازی سلوک کیوں کیا؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ میں گھبرا گیا تھا کیونکہ اس کے بعد آپ کے سامنے عدالت میں پیش بھی ہونا تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ وہ کتاب پڑھیں۔ نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کیے تو درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنی بات کا دوبارہ آغاز کیا۔
وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ بیوی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کو عمران خان نے غلطی قرار دیا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان نے بیوی کے نام پر موجود بنی گالہ اراضی ظاہر کی، صرف بیرون ملک جائیداد نہیں دکھائی۔ سپریم کورٹ نے پانامہ نظرثانی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ غلطی پر بھی نااہلی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا دوہزار دو کے کاغذات نامزدگی میں غلطی پر آج کارروائی ہو سکتی ہے؟۔ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جہاں دوہزار آٹھ کے کاغذات نامزدگی اور دوہزار تیرہ کے کاغذات نامزدگی میں ڈگری کے بارے میں مختلف بات کرنے پر عدالت نے رکن اسمبلی کو نااہل قرار دیا تھا۔عدالت نے اللہ ڈینو کیس میں دوہزار تیرہ میں یہ فیصلہ دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس مقدمے کو آج مکمل کررہے ہیں اگر کوئی چیزرہ گئی ہے تو تحریری صورت میں جمع کرا دیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ پانامہ مقدمے میں کوئی نیا قانون نہیں بنا، سپریم کورٹ پہلے بھی اسی طرح کے فیصلے دے چکی ہے، کاغذات نامزدگی میں کسی نے غلطی کی ہے تو اسے ماضی میں بھی عدالت نے بددیانتی قراردیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ بیوی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کی بات پہلے نہیں کی گئی، آپ نے جواب الجواب میں بھی ہی بات نہ کی، اب عمران خان کے نئے جواب سے ازسرنوسماعت میں آپ یہ موقف اپنا رہے ہیں۔ اس پر وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ یہ مخاصمانہ نوعیت کا مقدمہ نہیں ہے اس لیے کسی بھی مرحلے پر موقف اپنا کر استدعا کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہی با ت میں بھی کر رہا تھا کہ عمران خان کسی بھی مرحلے پر دستاویزات پیش کرسکتے ہیں کیونکہ یہ مخاصمانہ نوعیت کا مقدمہ نہیں مگر آپ کے منہ سے کہلوانا چاہتاتھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت کی ضرورت ہے کہ جو کچھ بھی سامنے آئے اس کو دیکھے تاکہ اس میں تلاش کرے کہ کون سچ کہہ رہا ہے۔وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ عمران خان نے پہلے کے موقف سے مختلف موقف اپنایا اس کو بھی دیکھاجانا چاہیے۔ اس میں عمران خان نے اٹھارہ مختلف سچ کہے ہیں، قانون کی تعلیم کے حصول کے دوران پڑھا تھاکہ ایک ہی مکمل سچا بیان ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تمام چیزیں نوٹ کرچکے ہیں،عمران خان کے جواب میں بہت سی باتیں بعد میں عدالتی اجازت کے بغیر شامل کی گئیں، یہ ساری چیزیں ہمارے علم میں ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ بائیس مئی دوہزار سترہ کا عمران خان کا بیان حلفی عدالت کے سامنے ہے، اس کو دیکھ لیاجائے، یہ کسی وکیل کے دلائل نہیں کہ غلطی ہونے پر واپس لے لیے جائیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اوور آل جو تصویر بنتی ہے اس سے دیکھناہے کہ یہ بددیانتی ہے یا نہیں، یہ شخصیت دیانتدار ہے یا نہیں۔ وکیل نے کہاکہ قرآن کہتا ہے کہ قولو، قولا سدیدا ۔ یعنی بات سیدھی اور سچی کرو۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں، ہوسکتا ہے کو آپ کو جو تازہ خیال آ رہے ہیں اسی طرح دوسرے فریق کو بھی یہی خیال آیا ہو۔ وکیل نے کہا کہ فارسی مقولہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے کا حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسی مقولے کو انگریزی میں اس طرح کہا گیاہے کہ سچ بولنے والے کو اپنی بات یاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے کمنٹس نہیں دینے چاہئیں مگر ریٹائرمنٹ کے بعد نعیم بخاری اور سکندر بشیر( خان اور ترین کے وکلا) سے ایک سوال ضرور کروں گا۔ چیف جسٹس نے ایک سابق جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ کہتے تھے کہ بطور جج میری صرف ایک چوتھائی زندگی قانون کو پڑھتے اور اس کی تشریح کرتے گزری ہے، باقی دوتہائی زندگی مقدمات میں سچ تلاش کرتے گزری۔چیف جسٹس نے کہاکہ وکیل وہ ہوتا ہے جو پھٹے پر بیٹھ کر وکالت کا آغاز کرتا ہے اس کو قانونی دلائل کی سمجھ آجاتی ہے، اوپر سے آنے والوں کو ان چیزوں کا پتہ نہیں چلتا۔(شاید چیف جسٹس کا اشارہ وکیل سکندر بشیر کی جانب تھا کیونکہ وہ عبدالحفیظ پیرزادہ کے معاون کے طورپر سپریم کورٹ تک پہنچے تھے)۔ وکیل اکرم شیخ نے بھی چیف جسٹس کے ریمارکس سے اتفاق کیا اور کہا کہ بہت سے پیراشوٹ کے ذریعے اس پیشے میں آئے۔ (سکندر بشیر نے بعد ازاں ان ریمارکس پر احتجاج بھی کیا)۔
وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ نیازی کمپنی نے عمران خان سے جنم لیا اور اسی کو فائدہ پہنچایا۔جسٹس کھوسہ نے پانامہ کیس فیصلے میں نوازشریف کے بیانات پر ان کو بدلتے موقف قرار دیا، یہاں عمران خان اس مقدمے میں اسی نوعیت کے بیان جمع کراتے رہے ہیں۔وکیل نے کہاکہ حاکمیت اللہ کی ہے، اور یہ لوگ نمائندے ہیں ان کیلئے پیمانہ بہت سخت ہے، اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فیصلہ محفوظ کر رہے ہیں، فیصلہ کل نہیں سنا سکتے، یہ سوچ بچار کرکے احتیاط سے لکھاجانے والا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد جہانگیر ترین کے مقدمے کی باری آئی۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ لندن پراپرٹی کا مالک کون ہے، وکیل نے جواب دیاکہ کمپنی شانئی ویو مالک ہے جس کے اوپر ٹرسٹ ہے، جہانگیر ترین کی بھیجی گئی تمام رقوم بلآخر شائنی ویو کمپنی کے اکاﺅنٹ میں گئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا پھر ترین اس کے مالک ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب پر افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ کیا ایسے مقدمات میں ایسے دلائل جمع کرائے جاتے ہیں؟ وکیل سکندر بشیر نے اس بات پر تین بار معافی چاہی اور کہاکہ یہ بطور وکیل میری غلطی ہے اور خود کو بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جہانگیر ترین کی نیک نیتی دیکھ رہے ہیں۔ کچھ چیک ایسے ہیں جو شائنی ویو کے نام نہیں۔ وکیل نے کہا کہ بالکل ایسا ہے مگر اس سے نااہلی نہیں ہوتی، تمام رقوم کی دستاویزات موجود ہیں اور یہ قانونی آمدن تھی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ رقم قانونی ہو مگر ظاہرنہ کی گئی ہو تو نااہلی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پراپرٹی کیسے ٹرسٹ کی ملکیت ہوئی جبکہ رقم ترین نے شائنی ویو کو بھیجی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جواب دیکھ لیا جائے جس میں ٹرسٹ ڈیڈ شامل ہے اور لکھا گیا ہے کہ ترین تاحیات بینیفشری ہیں۔ وکیل نے کہا کہ وہ صوابدیدی بینفشری ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ ترین نے ٹیکس گوشواروں کو اپنے بچوں کو بینیفشری قرار دیا ہے حالانکہ ان کو تو ابھی تک یہ منتقل ہی نہیں ہوا۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق ترین کسی کو بھی پراپرٹی دے سکتے ہیں اور یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے تو پھر بظاہر مالک بھی وہی ہوئے۔ وکیل نے کہاکہ اس کی ضرورت نہیں تھی مگر نیک نیتی کے تحت ترین نے ٹیکس گوشواروں میں یہ ظاہر کیا کیونکہ پاکستان سے ستر لاکھ پاﺅنڈ قانونی آمدن باہر بھجوائی تھی اس لیے ٹیکس حکام کے علم میں ہونے کیلئے ایسا کیا گیا۔
عدالت نے فریقین کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے