کالم

امن و محبت کا شہر وفا

دسمبر 7, 2017 3 min

امن و محبت کا شہر وفا

Reading Time: 3 minutes

احساس/ اے وحید مراد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان نے راکھ کا ڈھیر بنے مسلمانوں میں چنگاری تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک چھپن اسلامی ممالک کے سربراہوں اور دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ قرضوں میں دبے اسلامی ملکوں کی حکومتوں کے کرتا دھرتا شاید ہی امریکا کو اس کے عزائم سے باز رکھنے میں کامیاب ہوسکیں اور عالمی استعمار کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمان اس بار بھی اپنی ہی املاک جلانے کے سوا شاید کوئی متاثرکن قدم اٹھا سکیں ۔ ایسے میں ہم جیسے لوگ اس شاعر کو یاد کرتے ہیں جو اگر زندہ ہوتا ہے تو اپنے قلم کو ایک بار پھر لاٹھی بنا کر فلسطین کے سینے پر خنجر چلانے والے اسرائیل کے سر پر دے مارتا۔
اس عرب شاعر کا نام نظار قابانی تھا جو پیدا شام کے شہر دمشق میں ہوا تھا اور جس نے اپنی آنکھیں لندن میں بند کیں، مگر فلسطین کو اپنا ملک اور القدس کو اپنا شہر قرار دیتا تھا۔ وہ شاعر جو سفارت کار بھی تھا عرب قوم پرستی کا مبلغ جانا گیا، اس کی شاعری میں محبت اور عورت کو بہت زیادہ کھلے انداز میں بیان کیا گیا۔ نزار قابانی اسی وجہ سے عرب دنیا کے پبلو نرودا قرار پائے مگر انہوں نے مزاحمتی شاعری بھی کی ۔ قابانی کی شہرہ آفاق نظم ’القدس‘ رہتی دنیا تک پڑھنے والوں کو مسحور کرتی رہے گی ۔ بیت المقدس کی محبت میں لکھی گئی اس نظم کو بارہ برس قبل پڑھا تھا، نہیں جانتا کہ اس کا کوئی اچھا اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔
یہاں اس نظم کو انگریزی اور عربی میں پڑھنے والوں کیلئے نقل کیا جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں ایک لکھاری القدس پر نظمیں پڑھ سکتا ہے یا پھر مسلم امہ کی بے بسی پر نوحے لکھ سکتا ہے۔ نزار قابانی نے اس نظم میں القدس کو’ امن ومحبت کا شہر وفا‘ کہا ہے ۔

Jerusalem
I wept until my tears were dry
I prayed until the candles flickered
I knelt until the floor creaked
I asked about Mohammed and Christ
Oh Jerusalem, the fragrance of prophets
The shortest path between earth and sky
Oh Jerusalem, the citadel of laws
A beautiful child with fingers charred
and downcast eyes
You are the shady oasis passed by the Prophet
Your streets are melancholy
Your minarets are mourning
You, the young maiden dressed in black
Who rings the bells in the Nativity
On Saturday morning?
Who brings toys for the children
On Christmas eve?
Oh Jerusalem, the city of sorrow
A big tear wandering in the eye
Who will halt the aggression
On you, the pearl of religions?
Who will wash your bloody walls?
Who will safeguard the Bible?
Who will rescue the Quran?
Who will save Christ?
Who will save man?
Oh Jerusalem my town
Oh Jerusalem my love
Tomorrow the lemon trees will blossom
And the olive trees will rejoice
Your eyes will dance
The migrant pigeons will return
To your sacred roofs
And your children will play again
And fathers and sons will meet
On your rosy hills
My town
The town of peace and olives.
القدس
بكيت.. حتى انتهت الدموع
صليت.. حتى ذابت الشموع
ركعت.. حتى ملّني الركوع
سألت عن محمد، فيكِ وعن يسوع
يا قُدسُ، يا مدينة تفوح أنبياء
يا أقصر الدروبِ بين الأرضِ والسماء

يا قدسُ، يا منارةَ الشرائع
يا طفلةً جميلةً محروقةَ الأصابع
حزينةٌ عيناكِ، يا مدينةَ البتول
يا واحةً ظليلةً مرَّ بها الرسول
حزينةٌ حجارةُ الشوارع
حزينةٌ مآذنُ الجوامع
يا قُدس، يا جميلةً تلتفُّ بالسواد
من يقرعُ الأجراسَ في كنيسةِ القيامة؟
صبيحةَ الآحاد..
من يحملُ الألعابَ للأولاد؟
في ليلةِ الميلاد..

يا قدسُ، يا مدينةَ الأحزان
يا دمعةً كبيرةً تجولُ في الأجفان
من يوقفُ العدوان؟
عليكِ، يا لؤلؤةَ الأديان
من يغسل الدماءَ عن حجارةِ الجدران؟
من ينقذُ الإنجيل؟
من ينقذُ القرآن؟
من ينقذُ المسيحَ ممن قتلوا المسيح؟
من ينقذُ الإنسان؟

يا قدسُ.. يا مدينتي
يا قدسُ.. يا حبيبتي
غداً.. غداً.. سيزهر الليمون
وتفرحُ السنابلُ الخضراءُ والزيتون
وتضحكُ العيون..
وترجعُ الحمائمُ المهاجرة
إلى السقوفِ الطاهره
ويرجعُ الأطفالُ يلعبون
ويلتقي الآباءُ والبنون
على رباك الزاهرة
يا بلدي..
يا بلد السلام والزيتون

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے