کالم

بڑے وکیل اور چیف جسٹس

دسمبر 13, 2017 5 min

بڑے وکیل اور چیف جسٹس

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
چیف جسٹس ثاقب نثار گزشتہ دو سماعتوں کے دوران متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین کو سننے کی بجائے سناتے رہے، سیمنٹ فیکٹریوں پر بھی غصہ اتارا مگر آج بڑے بڑے وکیل (کروڑوں کی فیس والے) پیش ہوئے تو اپنے گھوڑے سائے میں باندھ کرکچھ دیر ان کی بھی سنتے رہے ۔ گزشتہ روز چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہم نے ازخود نوٹس عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے لیا تھا مگر وکیلوں کی چاندی ہوگئی ہے۔
کٹاس راج ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیرمین صدیق الفاروق نے عدلت میں تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا ہے کہ ہنومان مندر اور شری رام مندر آثار قدیمہ میں آتے ہیں وہاں پوجا نہیں ہوتی، جواب میں کہا گیاہے کہ انڈیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مندروں سے مورتیاں اٹھا لی گئیں، مختلف ہندو لیڈروں سے مورتیاں دان کرنے کی درخواست کی ہے،بھارت کی جانب سے کوئی مورتی دان نہیں کی گئی، کٹاس کے قدیم مندروں کو بے ادبی سے بچانے کیلیے بند رکھا گیا، جواب میں کہا گیا ہے کہ کٹاس راج کا مکمل کنٹرول 2006 سے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے پاس ہے، جن مندروں میں پوجا ہوتی ہے وہاں شولنگ موجود ہے۔ بیسٹ وے فیکٹری کی نمائندہ نے عدالت کو بتایا کہ ھم نے بابر ستار کو اس کیس میں وکیل مقرر کیا ہے لیکن وہ پہنچ نہیں سکے اس لیے مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس نے بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کے وکیل بابر ستار کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے بابر ستار کو سپریم کورٹ میں وکالت کا ابھی لائسنس جاری نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کوکس نے زمین کی نچلی سطح استعمال کرنے کا حق دیا ہے۔ زمین کی نچلی سطح کے پانی پر فیکٹری کا کیا حق ہے،ھمیں بتائیں بیسٹ وے روزانہ کتنا پانی استعمال کرتا ہے۔ ابتدا میں فیکٹری کو روزانہ کتنی پیداوار کی اجازت تھی اور آج کتنی ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ فیکٹری کے مالک عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوتے۔ فیکٹری کی خاتون نمائندہ نے بتایا کہ وہ لندن میں رھتے ہیں اس لئے نہیں آ سکتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ان کو پتہ نہیں کیس چل رہا ہے، میڈیا میں کیس کی خبریں آتی ہیں۔ چکوال اور اس کے گردونواح کو نقصان بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری نے دیا ہے ،کٹاس راج مندر کے تالاب کو پانی سے بھریں چاھے پانی کے کنٹینر سے لائیں یا کوئی اور زرائع استعمال کریں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ فیکٹری میں80 ھزار گیلن پانی روزانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں نہ آج بیسٹ وے کمپنی کا ٹیوب ویل کے زریعے نکالے جانے والے پانی کا عمل بند کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری کے وکیل بھی آج ہی پیش ہوئے، ان کو گزشتہ روز بھی بلایا گیاتھا۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہاکہ آج نوٹس ملا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اب کورٹ کو روز روز وکیل کو بلانا پڑے گا،سلمان اکرم راجا کیا کورٹ ہم چلائیں گے یا آپ احکامات دینگے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر مقامی سطح پر ماحول خراب ہوا تو ساری فیکٹریاں بند کر ادیں گے۔ ان سیمنٹ فیکٹریوں نے زیر زمین موجود پانی اپنی طرف کھینچ لیا ہے، عام لوگ پریشان ہیں۔ وکیل فیکٹری سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے علائقے میں کوئی مسئلہ نہیں، فیکٹری سے اجازت کے تحت پیداوار حاصل کی جاتی ہے،مقامی سطح پر زیز زمین پانی 80 فٹ مل جاتا ہے لیکن ھمارے ٹیوب ویل 500 فٹ گھرائی تک کھدائی والے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب بھی موٹر وے سے گزرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ قدرتی حسن کو تباہ کردیا گیاہے۔ وہاں موجود پہاڑ کھدائی کرکے ختم کر دیئے گئے ہیں ۔نمائندہ بیسٹ وے فیکٹری نے کہاکہ موٹر وے کے سامنے جو پہاڑ ہے اس کی کھدائی ھم نے نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ھمیں اتنی سمجھ آئی ہے کہ علاقے کا حسن امیر لوگوں نے تباہ کیا ہے ،سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے کے نام پر لوگوں کی زندگی اجیرن نہ کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھاکہ ملک میں زیر زمین پانی کے استعمال پر ایک حد تک پابندی کیوں نہیں۔پوٹھار کا خطہ پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے ۔ اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایاکہ بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری والوں نے ایک ٹربائن غیر قانونی طور پر لگایا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کو فوری بند کرائیں، کیا ملک میں اشرافیہ کیلئے کوئی قانون نہیں؟۔ میپل لیف کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ باقاعدہ تمام قانونی ضروریات کے بعد فیکٹری کی توسیع کی جارہی ہے اور اس کیلئے باقاعدہ اجازت حاصل کی ہے، عدالت پہلے سنے پھر فیصلہ کرے، ہماری بھاری سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے حکومت سے اجازت کیسے حاصل کی جاتی ہے، حکومت کے احکامات کا جائزہ لینے کا تیس سال کا تجربہ ہے، خان صاحب، آپ کو بھی اس کا تجربہ ہے۔ فیکٹری کی خاتون نمائندہ نے کہاکہ ہم تمام حکومتی احکامات کے تحت کام کرنے کیلئے تیارہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ اب کیوں یاد آرہاہے، ایک طرح سے ہم بھی حکومت ہیں، جہاں انتظامیہ ناکام ہوگی خلا پر کریں گے۔فیصلے موجود ہیں کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ نے مل کرریاست کا چلاناہے۔ عدالت کو ایک مقامی شہری راجا وسیم نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے علاقے کے پہاڑ اور ہمارے آبائی قبرستان فیکٹری مالکان کو الاٹ کر دیئے ہیں ، متعلقہ اداروں کو درخواستیں دیں لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں کٹاس راج کے تالاب کے بارے میں واٹس ایپ پر شکایت موصول ہوئی تھی جس پر نوٹس لیا۔جہاں فرائض میں غفلت ہوگی وہاں مداخلت کرینگے،کیا کوئی والدین اپنے بچوں کو آرسینک والازہریلا پانی پلا سکتے ہیں۔ کراچی کے حالات دیکھ آیا ہوں اب پنجاب کی باری ہے۔وزیر اعلی سندھ سے کہا کہ کیا آپ میرے ساتھ تھر جا کر ایک گلاس پانی پی سکتے ہیں۔ یہ بات وزیر اعلی پنجاب سے بھی بولوں گا کہ کیا آپ اس علاقے کا پانی پی سکیں گے۔ ایک بچے کی صحت کروڑوں روپے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ عدالت نے حکم نامہ لکھوانا شروع کیا، آرڈر کیا گیا کہ بیسٹ وے فیکٹری سات یوم میں کٹاس راج تالاب کو پانی سے بھرے۔ نیگٹیو زون بی میں روڈ ٹریفک اور ماحولیات کو بچانے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ وقت کے ساتھ بڑھتی سیمنٹ پیداوار اور پانی کے استعمال کی رپورٹ بھی دی جائے۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کس فیکٹری کو کس کی جانب سے کب اور کتنا رقبہ الاٹ کیا گیا۔ درخواست گزار مقامی شہری راجا وسیم مسائل کے بارے میں تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کریں۔ کٹاس راج کی مرمت کیلئے کیے گئے اقدامات کے بارے میں چیئرمین بورڈ تفصیلی رپورٹ دیں۔
اسی دوران مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمارنے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ چیئرمین تین سال کیلئے ہوتاہے اس وقت نشست خالی ہے کیونکہ تین سال پورے ہوگئے ہیں۔ صدیق الفاروق نے بولنے کی کوشش کی تو ان کے وکیل نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دینے سے روک دیا۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایاکہ اس بارے میں قانون میں تین سال کی مدت واضح نہیں ہے، چیئرمین کو آئندہ احکامات تک لگایا جاتاہے۔ چیف جسٹس اس بات پر بھڑک اٹھے اور کہاکہ پہلے ایک فیصلہ دے چکے ہیں کہ حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہوتاہے، غلطی سدھارنے کا موقع دیتے ہوئے اس فیصلے میں لکھا تھاکہ مستقبل میں ایسے فیصلوں کی منظوری کابینہ سے لی جائے، ایسا کریں ترمیم کرکے حکومت (وفاقی کابینہ) کی جگہ وزیراعظم لکھ دیں یا پھر سیکرٹری کا لکھ دیں۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس فیصلے میں اطلاق ماضی سے کرنے کا لکھ دیں۔ ہم نے اس چیئرمین کے آرڈر بھی پڑھے ہیں کیونکہ یہ چیئرمین عدالت کا کام بھی کرتے ہیں، سیاسی بنیادوں پر اسی طرح عہدوں کی بندر بانٹ کرنی ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ جس کی قابلیت واہلیت نہ ہو اس کو ایسے محکموں کے عہدے سونپ دیے جائیں۔
عدالت نے مزید احکامات لکھوانے شروع کیے تو وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ مجھے آج ہی سن کر فیصلہ کردیں اس طرح لٹکا کر نہ رکھیں نقصان ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھاکہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میپل لیف کمپنی کے مقدمے کو پیر کے روز سن کر فیصلہ کرلیں۔ سپریم کورٹ نے سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے