کالم

غلطی اور بددیانتی

دسمبر 15, 2017 7 min

غلطی اور بددیانتی

Reading Time: 7 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
پندرہ دسمبر دو ہزار سترہ کا دن بھی پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائے گا۔
صبح ملک کی سب سے بڑی عدالت کا رخ کیا تو دماغ میں چار اہم مقدمات تھے جو سارے سیاست دانوں کے تھے۔ گزشتہ رات سوشل میڈیا پر ان مقدمات کے فیصلوں کے بارے میں پیش گوئی یا قانونی امکانات کا اظہار کیا تھا۔
ساڑھے نو بجے ہی جسٹس آصف کھوسہ کی عدالت میں شرجیل میمن کی ضمانت اور بیرون ملک علاج کیلئے جانے کی درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوا۔ وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیے تو جسٹس کھوسہ نے طنز کیا کہ اب تو نیب کو اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بھی بنالینا چاہیے جب وہ اتنی بڑی کرپشن کی رقم واپس لاتا ہے کیونکہ اس کا تقریبا ہر ملزم ہسپتال پہنچ جاتاہے۔ جسٹس دوست محمد خان کہاں پیچھے رہنے والے تھے جب شرجیل میمن کیلئے ہسپتال کا وارڈ مختص کرنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تحریک نفاذ شریعت ملاکنڈ کے امیر صوفی محمد کیلئے بھی پشاور میں وارڈ خالی کرایا گیاتھا (معلوم نہیں ان کا اشارہ اسی قوت کی جانب تھا)۔ خیر عدالت نے پندرہ منٹ بعد شرجیل میمن کی درخواست پر وفاق اور احتساب بیورو کو نوٹس جاری کرتے ہوئے موقف طلب کیا اور سماعت ملتوی کردی۔
عدالت کے کمرہ نمبر چار کا رخ کیا تو وکیل پہلے ہی باہر نکل رہے تھے، پوچھنے پر معلوم ہواکہ لاہور کے حلقہ این اے ایک سو پچیس دھاندلی کیس کی سماعت بھی ملتوی کردی گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی الیکشن ٹریبونل کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے، عدالت نے نااہلی کے ٹریبونل فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اپیل کو دوسال سے لٹکایا ہوا ہے۔ جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کیاتو مخالف فریق تحریک انصاف کے ہارے رہنما حامد خان کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے پیش نہ ہونے کی درخواست کرکے مقدمہ ملتوی کرنے کی استدعا کی ۔ اور یوں کیس اگلے ماہ تک چلا گیا۔
اس کے بعد سوادس بجے حدیبیہ پیپرملز اپیل کی آواز لگی۔ نیب کے پراسیکیوٹر عمران الحق عدالتی روسٹرم پر کھڑے ہوئے، سامنے جسٹس مشیرعالم کے دائیں جسٹس قاضی فائز اور بائیں جسٹس مظہرعالم موجود تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ نیب قانون میں ترمیم کرکے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے دینے کی شق شامل کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ اسحاق ڈار کا بیان پچیس اپریل اور ترمیم پانچ جولائی کو لائی گئی اس طرح تو کیس نہیں بنے گا۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ قانون میں ترمیم کے اس نکتے کو ٹرائل کورٹ دیکھ سکتی ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہائیکورٹ نے جس بنیاد پر ریفرنس ختم کیا وہ قانون کی غلط تشریح تھی، شواہد کو بھی درست طور پر نہیں دیکھا گیا، قانون میں واضح نہیں تھاکہ ملزم کا بیان کس کے سامنے ریکارڈ کیاجائے گا۔ جسٹس قاضی نے کہاکہ قانون میں ایسا نہیں لکھا، آپ درست نہیں پڑھ رہے۔ جسٹس مشیرعالم نے پھر مداخلت کی اور کہاکہ یہ کیس کا میرٹ ہے جو احتساب عدالت سن سکتی ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں ریکارڈ سے درخواست پڑھنا شروع کی جس میں کہاگیاتھاکہ ساتھ منسلک کیے گئے بیان کے مطابق ایسا ہے ویسا ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھاکہ یہ منسلک کیا گیا بیان دکھادیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہمارے پاس دستیاب نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ہوکیارہاہے، جس بیان کا حوالہ دے کر اس کو منسلک کہتے ہوئے بتارہے ہیں وہ عدالت میں دکھا بھی نہیں سکتے، سب سے اہم دستاویز نیب نے لگائی ہی نہیں۔
جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ اگر اسحاق ڈار کو معافی مل چکی ہے تو وہ ملزم نہیں، اگر صدارتی معافی ہٹادی جائے تو ان کے بیان بھی ختم ہوجائے گا اور وہ ملزم ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت اپیل تاخیر سے دائر کرنے کی وجوہات سن رہے ہیں، مطمئن کریں گے تو پھر اپیل کو سناجائے گا۔جسٹس قاضی فائز نے پوچھاکہ ملزمان پرعائد فردجرم دکھادیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ حدیبیہ ریفرنس میں فرد جرم عائد ہی نہیں ہوئی۔جسٹس قاضی نے کہاکہ پھر تو کوئی مقدمہ ہی نہیں جب فردجرم عائد نہیں کی گئی۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ مقدمہ موجود ہے مگرملزم باہر چلے گئے تھے۔
جسٹس مشیرعالم نے پوچھاکہ حدیبیہ ریفرنس پر نیب کورٹ میں آخری کارروائی کب ہوئی تھی اور کیا آرڈر آیاتھا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کافی دیر تک ساتھی وکیلوں کی مدد سے فائلیں کھنگالیں مگر کچھ نہ ملا تو بتایاکہ نیب کورٹ کی آرڈر شیٹ دستیاب نہیں ہے۔جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ آپ کی نیت اور کارکردگی کا اصل پتہ اس بات سے چلے گا کہ ہائی کورٹ میں جب درخواست زیرسماعت تھی تو آپ نے نیب کورٹ میں کیا کیا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم اس دوران نیب عدالت میں ریفرنس کارروائی بڑھانے پر زور دیتے رہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہ بات ریکارڈ سے دکھادیں۔ ان کاکہنا تھاکہ ہم نیب کی سپریم کورٹ میں تاخیر سے اپیل کو سن رہے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہاں کا تاخیری وقت معاف کریں تو معلوم ہوکہ احتساب عدالت میں کیسے اور کیوں تاخیر کی گئی ۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ ملک کے چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم اداروں کے سربراہ اپنی مرضی سے لگاتے ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ اس کو اپیل میں تاخیر سے کیسے جوڑیں گے؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ کیا یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے لگائے نیب چیئرمین نے جان بوجھ کر حدیبیہ ریفرنس خراب کیا؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ تاخیر کی وجوہات بیان کر رہا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر ملزم نے کسی سے گٹھ جوڑ کرکے ریفرنس میں تاخیر کرائی ہو تو نیب قانو ن کے تحت اس شخص کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے، نیب نے کیا کیا؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ اپیل دائر کی گئی۔ریفرنس میں دوبارہ تفتیش سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اسی وقت کی جاسکتی ہے جب ہائیکورٹ کے فیصلے کو ختم کیا جائے اور اس اپیل کو منظور کیاجائے۔جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ریفرنس کھولنے کا کہاں کہا گیا ہے بتا دیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے جسٹس کھوسہ، جسٹس عظمت اور جسٹس اعجازالاحسن کی آراء کے پیراگراف گنوا کر لکھوائے۔
عدالت نے اپیل میں تاخیر کاعنصر ختم کرنے کیلئے ماضی کے عدالتی فیصلوں کی مثالیں مانگیں تو نیب کے پراسیکیوٹر نے نوازشریف کے ہی مقدمے کی سب سے پہلے مثال دی جس کے مطابق طیارہ اغوا کیس میں سنہ دوہزار میں سنائی گئی ہائیکورٹ کی سزا کے خلاف اپیل آٹھ سال اور ایک سوچھتیس دن کے تاخیر سے سپریم کور ٹ میں دائر کی گئی، دوسری مثال انیس سو ننانوے کے نزیر احمد فیصلے کی دی گئی جو بریت کے فیصلے کے خلاف دوماہ کی تاخیرسے دائر کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ دونوں مقدمات فوجداری تھے جن میں سزا سنائی گئی تھی۔
جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ اگر ایک کیس ختم ہوجائے تو کیا اس میں دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ انہی ملزمان کے خلاف نہیں ہوسکتی مگر نئے ملزمان کے حوالے سے شواہد سامنے آئیں جو پرانے ملزمان سے منسلک ہوں تب ہوسکتی ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ تب نیا کیس بنے گا۔نیب اپیل تاخیر سے دائر کرنے پر مطمئن کرے تو اپیل سماعت کیلئے منظور کرلیں گے۔جسٹس مشیرعالم نے نیب کے پراسیکیوٹر سے کہاکہ کوئی نیا قانونی نکتہ بھی لائیں گے یا وہی پرانے دلائل دہراتے رہیں گے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تاخیر سے اپیل پر میرے دلائل بس اتنے ہی تھے۔
جسٹس قاضی فائزنے نیب کے پراسیکیوٹر سے کہاکہ ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی وی چینل پر حدیبیہ کیس کو زیربحث لایا گیا، جان بوجھ کر چینلز ایسے لوگوں کو بلاتے ہیں، کیااب ہم خود ہی ایکشن لیں گے تو معاملہ ٹھیک ہوگا؟ آپ پر الزام لگایا گیا، پیمرا سے رجوع کرتے یا درخواست دیتے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ مجھ پر الزام لگایا، میں نے معاف کیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ معاف نہ کیا کریں۔ اب وقت آنے والا ہے کہ سڑکوں پر فیصلے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی تینوں جج یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ کچھ دیر میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
آدھے گھنٹے بعد تین رکنی بنچ واپس آیا تو دن کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ جسٹس مشیرعالم نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ ’وہ وجوہات جو بعد میں تحریرکی جائیں گی اپیل میں تاخیر معاف کرنے کی یہ درخواست خارج کی جاتی ہے، اسی وجہ سے حدیبیہ اپیل بھی خارج کی جاتی ہے‘۔ جج اٹھ کر ابھی گئے نہیں تھے کہ ہم رپورٹروں نے بریکنگ نیوز کے لیے باہرکی جانب دوڑ لگا دی۔
(میرا خیال تھا کہ پہلے مرحلے میں اپیل میں تاخیر کو معاف کرکے اپیل کو میرٹ پر سن کر خارج کیا جا سکتا ہے، مگر جب تاخیر ہی معاف نہ کی گئی تو پھر اپیل تو ویسے ہی گئی)۔ ہو سکتا ہے کہ پانامہ والے ججوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہوں۔
اس کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی تک کچھ سکون ہوا۔ دن ڈیڑھ بجے کمرہ عدالت نمبر ایک میں پہنچے، دو بج گئے اورپھر وقت گزرتاگیا، ججوں کے آنے کے انتظارمیں صبح سے کام کرنے والے رپورٹرز تنگ ہوگئے مگر تحریک انصاف اور ن لیگ کے رہنما گپیں ہانکتے رہے۔ کافی دیر تک اگلی نشست پر براجمان فردوس عاشق اعوان اور ساتھی رپورٹرز سے ججوں کے آنے میں تاخیر پر بے پرکی اڑاتے رہے۔ چیف جسٹس کے اہل خانہ پونے تین بجے عدالت کی گیلری میں نمودار ہوئے۔ تین بج کر بیس منٹ پر تینوں ججوں کے آنے کی آواز لگی، ان سے آگے چیف جسٹس کے سیکرٹری خاکی لفافے میں فیصلہ لیے پہنچ چکے تھے۔
بیس منٹ تک فیصلہ پڑھا گیا۔ پہلے عمران خان کو کلین چٹ دی گئی۔ اس کے بعد جہانگیر ترین کی باری آئی تو ڈرائیور اورخانسامے کے نام پر کمپنی کے شیئرز خرید کرکمائے گئے کروڑوں کو ایسا معاملہ قرارد یا گیا جو ماضی کا بند باب ہے کیونکہ فیصلے کے مطابق جہانگیر ترین پر جرمانے عائد کیا گیا سزا نہیں دی گئی اور انہوں نے جرمانہ ادا کیا، منافع کی رقم بھی واپس کر دی تھی۔ اس کے بعدجہانگیر ترین کی زرعی آمدن کے معاملے پر فیصلے کاحصہ سنایا جانے لگا تو کچھ رپورٹرز کو غلط فہمی ہوئی اورانہوں نے باہر دوڑ لگا کر جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا۔ تاہم عدالت نے زرعی آمدنی کے معاملے کو ٹیکس حکام اور متعلقہ فورمز پر زیرسماعت قرار دیتے ہوئے نہ چھیڑنے کی بات کی۔ جہانگیرترین کو نااہل قراردینے والے رپورٹرز بریکنگ نیوز دے کر واپس عدالت میں آ چکے تھے۔ اور چیف جسٹس تاحال فیصلہ پڑھ رہے تھے۔
تین بج چالیس منٹ ہونے لگے تو آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے چیف جسٹس نے جہانگیرترین کو لندن کے ہائیڈ ہاﺅس کو بطور اثاثہ چھپانے اور عدالت میں غلط بیانی کرنے پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ غلطی کرنے والے رپورٹرز کی جان میں جان آئی۔
مجھے ان فیصلوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا، صرف عمران خان فیصلے کے آخری صفحے پر چیف جسٹس کا لکھا ایک جملہ دہرانا چاہوں گاکہ ’ عمران خان کی جانب سے کی گئی غلطی میں کوئی بددیانتی نہیں‘۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے