کالم

تانگہ پارٹیوں سے جان چھوٹی

جنوری 1, 2018 5 min

تانگہ پارٹیوں سے جان چھوٹی

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے قانون دو ہزار سترہ کی مختلف شقوں کو کالعدم قرار دینے کیلئے دائر کی گئی تیرہ درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت میں زیادہ تر وکیل ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے ابتدا ہی ریمارکس سے کی۔ جیسے ہی ایک پارٹی کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تو کہاکہ تیاری کرکے آنا چاہیے تھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ اس موقع پر نوٹس جاری کر دیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹس ایسے نہیں جاری کیا جاتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے نوٹس کا کیس بنائیں، تب ہی نوٹس جاری کریں گے، پارلیمنٹ قانون بنانے کی سپریم باڈی ہے، آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کالعدم قرار دے دیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمنٹ کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے اصول کیا ہیں؟ سپریم کورٹ نے آج تک کتنے قوانین کو کالعدم قرار دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین کالعدم قرار دینے والے عدالتی فیصلوں کی مثالیں پیش کریں، یہ سیاسی مقدمات ہیں، ایسا نہیں ہوگا کہ درخواست دائر ہو اور نوٹس کر دیں، عدالت کو اتنا آسان نہ لیں، ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے _

وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی نظیریں لانے کیلئے وقت دیں، شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے مقدمے کی تیاری نہیں کر سکا _ چیف جسٹس نے کہا کہ میں بھی شہر سے باہر تھا رات واپس آیا ہوں، کیس مقرر تھا تو آپ کو تیاری بھی کرنی چاہیے تھی _

چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلاء سے کہا کہ پہلے قابل سماعت ہونے پر دلائل سے مطمئن کریں اور بتائیں کہ یہ کیسے عوامی مفاد کے تحت بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پارلیمان سپریم ہے، اعلی عدالت کو صرف کسی قانون یاآئینی شق پر جوڈیشل نظرثانی کا اختیار ہے اور ہم نے جہانگیرترین کیس فیصلے میں بھی یہی لکھا ہے، قوانین بنانے میں پارلیمنٹ سپریم ہے، ہم اس سے اوپر نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ الیکشن قانون کی شق دوسوتین میں ایساکیاہے جو آئین سے متصادم ہے اور اسے کالعدم قراردیادجائے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حقائق دیکھنے کا مرحلہ بعد میں آئے گا، پہلے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے جائیں۔ شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ پانامہ فیصلے میں جسٹس اعجازالاحسن کی آبزرویشن اس حوالے سے اہم ہے، انہوں نے لکھاہے کہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان پر ایسے لوگ حکمرانی کریں جو کرپشن سے پاک اور صاف ستھرے ہوں۔ اس لیے میرا یہ بنیادی حق ہے کہ میری حکومت بنانے والے افراد کرپشن میں ملوث نہ ہوں اور ان کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا شخص، وکیل فروغ نسیم نے ان کا جملہ کاٹتے ہوئے کہاکہ جو بددیانت قرار دیا گیا ہو۔ جس پر چیف جسٹس نے اپنا جملہ مکمل کرتے ہوئے کہاکہ بددیانت نہیں بلکہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف پر پورا نہ اترتا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جو کام براہ راست نہ کیا جاسکتا ہو اس کو بلواسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا، وہ شخص ارکان پارلیمان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا جو خود رکن پارلیمان نہیں بن سکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ایسا شخص کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو پارٹی پالیسی خلاف ورزی پر نکال بھی سکتا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے لقمہ دیتے ہوئے کہاکہ پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی ایسا ہی شخص کرے گا۔ وکیل نے کہاکہ نئے قانون کے بعد بالکل ایسا ہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل نو کے حوالے سے یہ معاملہ کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ موجودہ سیاسی نظام میں پارٹی سربراہ کس حد تک قانون سازی پر اثرنداز ہوسکتاہے؟۔ وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ پارٹی سربراہ کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں، ارکان پارلیمان بہت سے امور میں پارٹی سربراہ کی بات ماننے کے پابند ہیں بصورت دیگر ان کے خلاف کارروئی کی جاسکتی ہے۔ وکیل نے کہاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے ون کے مطابق رکن پارلیمان کے کسی معاملے پر ووٹ دینے، نہ دینے اور اس سے وضاحت طلب کرنے کا اختیار بھی پارٹی سربراہ کاہے۔پارٹی پارلیمانی کیا ہوگی، یہ بھی پارٹی سربراہ طے کرتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ پارٹی سربراہ کے اختیارات کے بارے میں تفصیل بتائیں۔ وکیل نے کہاکہ رکن پارلیمان کئی امور میں پارٹی سربراہ کے تابع ہے، اب وہ شخص جو خود پارلیمان کا رکن بننے کااہل نہیں ارکان پارلیمان کو کنٹرول کرے گا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ قانون کیسے بناتھا، پارلیمان میں اس پر کیا بات کی گئی اس کی تفصیل بھی بتائیں۔ وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ پہلے سیاسی جماعتوں کے آرڈر دوہزار دو کو دیکھ لیاجائے کہ اس میں کون سی شقیں کس حالت میںتھیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے مختلف فیصلوں میں دوہزار دو کے قانون پر نظرثانی کی بات کی تھی، یہ خیال تھا کہ اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے فروغ نسیم سے پوچھاکہ کیا آپ کی جماعت نے سینٹ میں اس قانون کو ووٹ دیا، کیا آپ نے خود بھی اس قانون کو ووٹ دیا؟۔ فروغ نسیم نے بتایاکہ ان کے ایک سینٹر نے قانو ن کے حق میں ووٹ دیا تھا، اور یہ ایک ووٹ کی ہی وجہ سے سینٹ میں منظور ہوا۔ تاہم بعد ازاں سینٹ میں اس کے خلاف اکثریتی قرارداد منظور کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قرارداد نہیں ووٹنگ کے وقت تو اکثریت مل گئی تھی اس لیے منظور ہوا۔وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ قانون سازی کبھی ایک شخص کو مدنظر رکھ کرنہیں کی جاسکتی، ایسا شخص ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہونا چاہیے جو صادق وامین نہ ہو۔
فروغ نسیم کے ابتدائی دلائل مکمل ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہاکہ حال ہی میں ہم نے دیکھاکہ نوازشریف نے اپنے بیٹی اور بھانجے کو نامزد کیا، یہی پارٹی سربراہ وزیراعظم، وزاراء، اور وزیراعلی کے ناموں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ن لیگ کے منشور میں ہے کہ پارٹی سربراہ ہی مرکزی مجلس شوری کے ارکان نامزد کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب ہی کی طرف سے ہورہاہے۔ہم ان درخواستوں پر نوٹس جاری کرکے ان کو بھی سنیں گے۔
منصف اعوان والی جسٹس پارٹی کے وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ قانون درست نہیں، پارلیمان کو ایسا اختیار حاصل نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ پارلیمان قانون سازی میں سپریم نہیں؟۔ ہم اس دلیل سے مطمئن نہیں، اس کو فارغ کرتے ہیں، اب آپ آگے چلیں۔ وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن پارٹی رجسٹریشن کیلئے دو ہزار افراد کی پارٹی رکنیت اور کوائف مانگ رہا ہے، یہ شق بھی درست نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چند لوگ مل کر تانگہ پارٹی بنالیتے ہیں، یہ تو بہت اچھا ہواہے کہ ایسے لوگوں کو رک دیا، چند لوگ بینر بناکر پارٹی رجسٹر کرلیتے تھے، یہ بہت اچھی قانون سازی ہوئی ہے۔ کیا آپ کی پارٹی دوہزار لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات نہیں لے سکتے، اگر آپ لوگ اکھٹے کرکے اپنی پارٹی نہیں بناسکتے تو کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں۔ (ریمارکس دیتے وقت چیف جسٹس سمجھتے رہے کہ شاید یہ افتخار چودھری والی جسٹس پارٹی کی درخواست ہے)۔
اس کے بعد اگلی باری شیخ احسن ایڈووکیٹ کی تھی جو افتخار محمد چودھری کی جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے درخواست پر پیش ہوئے۔ انہوں نے قانون کو اسلامی اصولوں کے خلاف قراردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیلی دلائل بعد میں سنیں گے، فی الوقت صرف قابل سماعت ہونے پر دلائل سن لیے ہیں۔
عدالت نے وکلاء کے ابتدائی دلائل کے بعد درخواستوں کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وفاق، نوازشریف اور دیگر فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 23 جنوری تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے