کالم

افتخار چودھری سے ثاقب نثار تک

جنوری 15, 2018 4 min

افتخار چودھری سے ثاقب نثار تک

Reading Time: 4 minutes

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں یہ تاثر عام رہا کہ ان کے فیصلے پیپلز پارٹی کے خلاف اور ن لیگ کے حق میں ہوتے ہیں _ بظاہر یہ تاثر کافی حد تک درست بھی تھا کیونکہ پی پی پی کی حکومت میں رینٹل پاور پلانٹس لگانے کا معاملہ ہو یا اراکین اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز تقسم کرنے کا، میمو گیٹ کا ایشو ہو یا سوئس حکام کو خط لکھنے کا، ان مقدمات میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلے پیپلز پارٹی کے خلاف ہوئے _ اس کے علاوہ بھی متعدد فیصلے اس وقت کی حکومت کے خلاف دیے گئے _ ان کے فیصلوں پر تنقید ہوئی،سابق چیف جسٹس کوا نفرادی حیثیت میں بھی دبے الفاظ میں نشانہ بنایا گیا لیکن اپنی کسی بھی تقریر یا خطاب میں افتخار محمد چوہدری نے اپنے کسی فیصلے کی قسمیں کھا کر وضاحت پیش نہیں کی، کسی بھی تقریب میں ان کا خطاب آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، جمہوریت کی ترقی، بد عنوانی اور گورننس کے گرد گھومتا تھا_

عمران خان نا اہلی کیس کے فیصلے کے بعد موجودہ چیف جسٹس پر ذاتی حملے ہوئے، پھر اگلے دن لاہور میں انہوں نے اپنے فیصلے کے حوالے سے وضاحتی تقریر کی _ چیف جسٹس ثاقب نثار کے میو ہسپتال کے دورہ کو ہدف بنا کر تنقید کے نشتر چلائے گئے _ بظاہر لگتا ہے اس جائز ناجائز تنقید سے انہیں دلی دکھ پہنچا ہے _  پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی قانونی حیثیت اور میڈیکل کالجز میں داخلوں کی پالیسی کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کے دورہ میو ہسپتال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے ہر اتوار کو نجی میڈیکل کالجز کا دورہ کریں گے اور وہاں ڈاکٹر بننے کے لیے دستیاب سہولیات کا جائزہ لیں گے۔
بلاشبہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی اور حکومت کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں _ عوام کو آبادی کے تناسب سے صحت اور تعلیم کی سہولیات دسیتاب نہیں، ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو یہ سہولیات فراہم کرے، حکومت نے عوام کی اکثریت کو صحت اور تعلیم فروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو ملک کے چھوٹے شہروں کے باسیوں کا پینےکا صاف پانی کہاں ملے گا جب بڑے شہروں کے عوام پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں_

پانی فروخت کرنے والے صاف پانی کی آڑ میں عوام کا خون چوس رہے ہیں، ڈبہ دودھ بنانے والی کمپنیوں نے اپنی لوٹ مچا رکھی ہے _ افسوس کہ کوئی پوچھنے والا نہیں_ چیف جسٹس نے ان معاملات پر نوٹس لینا شروع کیے تو پھر وہی تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا_ آئین اور ججز کے حلف کو پڑھا جائے تو اعلی عدلیہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، عوامی دلچسپی، مفاد عامہ کے معاملات پر ازخود نوٹس لے کر بازپرس کا اختیار رکھتی ہے _ چیف جسٹس ثاقب نثار کا بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انتظامیہ یا حکام سے باز پرس کرنا قابل ستائش ہیں_ تاہم سوال کرنے والے یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں عوام کا استحصال، ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک سال قبل بھی ہو رہی تھیں_ تعلیم ،صحت ،اور پینے کے صاف پانی کے لیے عوام یکم جنوری دو ہزار سترہ کو بھی خوار ہو رہے تھے تو پھر یہ سو موٹو ایکشن لینے میں ایک سال کی تاخیر کیوں؟ سوال اٹھانے والے یہ جواز بھی تراشتے ہیں کہ کیا یہ از خود نوٹس اور عدالتی اصلاحات کے بیانات عدلیہ کے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے ہیں؟

سوال اٹھانے والوں کا نقطہ نظر کسی حد تک درست بھی ہو سکتا ہے _ عدالت عظمی اور چیف جسٹس کے اقدامات سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ موجودہ عدلیہ کسی ایک فریق کے خلاف ہے اور دوسرے کی الیکشن مہم کے لیے میدان میں ہے_ ایسا تاثر اگر کسی جگہ موجود بھی ہے تو عدلیہ اپنے اقدامات اور فیصلوں سے زائل کر سکتی ہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کیا گیا تو عوام اس لیے ان کے ساتھ نکلے کہ انہوں نے وقت کے آمر کو نہ کی تھی_ عوام نے افتخار محمد چوہدری کو مسیحا سمجھا، عوام نے امید باندھی لی تھی کہ یہی وہ شخص ہے جو انہیں انصاف فراہم کریں گا، جو عدالتی نظام کو اس انداز سے بہتر کریگا کہ سائلین کو ان کی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف ملے گا، پھر مارچ 2009 میں چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہونے والا تاریخ کا طاقتور چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو گیا،افسوس عوام کو انصاف کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کیونکہ عدالتی نظام میں درکار اصلاحات کو متعارف نہیں کرایا گیا،آج عوام اس افتخار چوہدری کو بھول چکے ہیں۔

موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے،بلا شبہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے لیکن عدالتی نظام میں اصلاحات لانا،اس کی کمزریوں کو دور کرناعدلیہ کی اپنی بنیادی ذمہ داری ہے،یہ اقدام انتظامیہ یا مقننہ کے کام میں مداخلت بھی نہیں،منصف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھ کر چیف جسٹس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے وہ عدالتی نظام میں اصلاحات لائیں گے،جس کا آغاز بھی ان کی جانب سے کر دیا گیا ہے،ان سے درخواست ہے کہ عدلیہ میں بہتری یا اصلاحات کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھایا ہے، اس کو پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائیں_ ایسی پائیدار اصلاحات معتارف کرائیں کہ عوام کا عدلیہ پر مکمل اعتماد بحال ہو، موجودہ عدالتی نظام کو دیکھ کر عام آدمی اپنے حق پر سمھوتہ کر لیتا ہے،کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انصاف لینے کے لیے مہینوں نہیں،سالوں نہیں بلکہ دہائیوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں،انتظامیہ کی ناکامی پر از خود نوٹس ضرور لیں لیکن توجہ عدلیہ اصلاحات پر بھی رہے،کیونکہ عدلیہ کا نظام ٹھیک ہو گیا، ماتحت عدالتوں سے حکم امتناع کی بجائے فیصلے ملنے لگے ،مظلوم کی فوری داد رسی ہونے لگی تو اداروں اور افراد میں مواخذے کا خوف پیدا ہو گا،عدلیہ کا ڈر ہو گا تو حکام غیر قانونی کام کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے، اگر موجودہ چیف جسٹس عدالتی نظام میں پائیداراصلاحات لانے میں کامیاب ہوگئے  تو انہیں عوام اچھے الفاظ میں یاد کریں گے،اگر یہ مشن مکمل نہ ہو سکا تو یہی کہا جائے گا کہ افتخار چوہدری کی طرح صرف وقتی دبدبہ تھا اور میڈیا پبلسٹی کے لیے کیا گیا _ تاریخ بڑی بے رحم ہے، صرف انہی کو یاد رکھتی ہے جو کچھ کرتے ہیں، شعبدہ بازوں کو کوڑے دان میں ڈال دیتی ہے اور پھر وہ کسی کو یاد بھی نہیں رہتے _

دو ہزار سترہ پاکستان کی اعلی عدلیہ کے لیے بدترین سال ثابت ہوا جس میں ساکھ اور عزت دونوں کو نقصان پہنچا _ اللہ کرے دو ہزار اٹھارہ میں عدلیہ کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرے _

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے