پاکستان

پابندی صرف پانچ سال کی ہے؟ عدالت

جنوری 31, 2018 3 min

پابندی صرف پانچ سال کی ہے؟ عدالت

Reading Time: 3 minutes

آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کتنی ہے؟ کیا عدالتی فیصلے کے تحت نااہل کیا گیا شخص تاحیات الیکشن نہیں لڑ سکتا یا صرف پانچ سال کی پابندی ہے؟ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے سامنے نااہل کیے گئے اراکین پارلیمان کے وکیلوں کی اکثریت نے پانچ سال نااہلی کی حمایت کی ۔

درخواست گزار کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت اراکین اسمبلی و پارلیمان کی اہلیت پیچیدہ اور تضادات پر مبنی ہے، اس لیے عدالت اس کو دیکھ کر ایک تشریح کرے۔ان کاکہناتھاکہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت اہلیت ونااہلی کے معیار کو ایک ساتھ ملاکر پڑھاجانا چاہیے، اور سب کیلئے پانچ سال کی مدت ہوتاکہ کسی سے امتیازی سلوک نہ ہوسکے۔ اسلام آباد سے پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں کہاکہ عدالت آئین کے ان دونوں آرٹیکلز کو ملاکر پڑھے اور نتائج اخذ کیے جائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ دونوں آرٹیکلز کو اکھٹا نہیں پڑھا جاسکتا۔ وکیل طارق محمود نے کہاکہ آئین کے ان آرٹیکل کی تشریح یہی ہے کہ نااہلی پانچ سال کیلئے ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے بتایاکہ الیکشن لڑنا بنیادی حقوق میں سے ہے اس لیے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ اس بنیادی حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق کی آئینی شقوں کے ساتھ ملاکر پڑھنا ہوگا، آئین کا دل بنیادی انسانی حقوق کا باب ہے۔باسٹھ اور تریسٹھ آرٹیکلز کو ایک ساتھ پڑھاجائے گا، اگر غور کیا جائے تو ایک آرٹیکل کے تحت فیصلے سے دوسری آئینی شق متروک ہوجاتی ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ اگر کوئی عدالت کسی شخص کو تعزیرات پاکستان کے تحت سزا دیتی ہے اور وہ اپنی نشست کھو دیتاہے تو جب وہ سزا بھگتنے کے بعد اگلے الیکشن میں جیت جاتا ہے تو ہارا ہوا امیدوار عدالت سے رجوع کرکے کہے گا کہ یہ شخص سزا یافتہ ہے، اس طرح عدالت اسے باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دے گی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ایسے فیصلے سے آئین کا آرٹیکل تریسٹھ ون ایچ متروک ہوجائے گا جس کے تحت نااہلی کی مدت متعین ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اگر کوئی عدالت کے ڈیکلریشن کے تحت نااہل ہوا ہے تب کیا ہوگا؟۔ منیر اے ملک نے کہا کہ پارلیمان جانتی تھی کہ کس طرح کسی رکن کو نااہل کیا جا سکتا ہے اور کتنی مدت کیلئے ہوگااسی وجہ سے آرٹیکل تریسٹھ میں مدت کا تعین موجود ہے۔وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ کو وارنٹو کی رٹ میں کوئی ٹرائل نہیں ہوتا جس کے تحت نااہلی ہوتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جب مواد موجود ہو، اور عدالت میں لائے گئے حقائق کی کسی نے تردید نہ کی ہو تو نااہلی ہو جائے تب کیا ہوگا؟۔ منیر اے ملک نے کہاکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ سوال ہوگا، عدالت باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرے کیونکہ پالیمان نے اس کو کھلا چھوڑا ہے، تاحیات نااہلی نہیں ہوسکتی۔
جہانگیر ترین کے وکیل بشیر مومند نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نیب قانون کے تحت سزا دس برس ہے جبکہ عوامی نمائندگی کے پرانے قانون کے تحت سزا پانچ برس ہے، یہ دونوں قوانین اشارہ کرتے ہیں کہ سزا یا نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ قانون سازوں نے آئین میں ترمیم کرکے آرٹیکل تریسٹھ ون ایچ کے تحت نااہلی پانچ سال کی تو باسٹھ ون ایف میں ترمیم کرکے مدت کا تعین کیوں نہ کیا؟ اس آرٹیکل کو اسی طرح کیوں چھوڑ دیا جبکہ ان پر کوئی قدغن نہیں تھی، چاہتے تو ترمیم کرکے مدت کا تعین کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون سازوں سے کوئی سقم رہ گیا ہے تو اس کی تشریح کے کئی ذرائع دستیاب ہیں، اور عدلیہ پر اس کی تشریح کرنے کیلئے کوئی قدغن نہیں لگائی گئی، ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کتنی مدت کیلئے ہونا چاہیے۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جب عدالتی ڈیکلریشن موجود ہوکہ کوئی صادق و امین نہیں تو اس صورت میں کیا ہوگا؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ باسٹھ ون ایف بہت وسیع چیزوں کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے نتائج کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا نااہلی پانچ سال کی ہونا چاہیے؟ وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ وقت کا تعین نہیں کر رہا، آئین و قانون کے مطابق پانچ سال بنتی ہے۔

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے