کالم

بابا رحمت ناراض ہوتا ہے

فروری 2, 2018 4 min

بابا رحمت ناراض ہوتا ہے

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
بابا منصف اعلی کا دربار (چیف جسٹس کی عدالت) پورے ساڑھے نو بجے لگا ۔ آج ان کے ساتھ بائیں طرف منصف اعجازالاحسن براجمان ہوئے ۔ سرکاری وکیل رانا وقار اور سیکرٹری وزارت اطلاعات احمد نواز سکھیرا پیش ہوئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کو عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی، عدالت میں آپ کی آمد کو کارآمد بنانے کی کوشش کریں گے۔ امید ہے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہر عہدے کے اپنے کچھ تقاضے ہیں۔ بتائیں سرکاری ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر/ ایم ڈی کی اسامی کیوں خالی ہے؟۔ سرکاری وکیل نے بتایاکہ محمد مالک کے بعد 26 فروری دوہزار سولہ سے یہ اسامی خالی ہے، 23 ستمبر دوہزار سترہ کو اشتہار دیا گیا ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایم ڈی لگانے کی سمری ایک سال سات ماہ تک کیوں نہیں بھیجی گئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ کچھ کہنا چاہوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہچکچاہٹ تو ہوگی کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو فائل کور کے اندر ہی ہوتی ہیں مگر عدالت آپ سے درخواست کرے گی کہ کھل کر بتائیں، عدالت کی درخواست بھی حکم کا درجہ رکھتی ہے۔
احمد نواز سکھیرا نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران سیکرٹری اطلاعات کے پاس سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی کا اضافی چارج بھی تھا، اس کے بعد عطاء الحق قاسمی کو سرکاری ٹی وی کا چیئرمین لگایا گیا جنہوں نے ایم ڈی کا اضافی چارج لیا جو میرے خیال میں غیرمناسب تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک چیز قانون کے مطابق نہ تھی تو اسے غیر قانونی کیوں نہیں کہتے؟ ہم قاسمی کو نوٹس جاری کرکے تنخواہ ریکور کرلیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قواعد کے مطابق تو چیئرمین بورڈ اعزازی عہدہ ہے یہ تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ تنخواہ کیا ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایاکہ چیئرمین بورڈ اور دیگر ارکان کو ہر اجلاس میں شرکت کے پانچ ہزار ملتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کو 23 دسمبر دوہزار سولہ کو لگایا گیا اور 18دسمبر دوہزار سترہ کو عہدہ چھوڑا، پندرہ روپے لاکھ ٹیکس سمیت تنخواہ تھی، کل ستائیس کروڑ روپے خرچ کیے۔
(ستائیس کروڑ کا سنتے ہی بابا رحمت کرسی سے چند انچ اوپر اٹھے اور ہم رپورٹروں کی طرف دیکھ کر ریمارکس دیے کہ پھر کہتے ہیں کہ یہ جوڈیشل ایکٹو ازم بند کریں، رات کو ٹی وی پر کہتے ہیں کہ جوڈیشل ایکٹو ازم ہے)۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ستائیس کروڑ صر ف تنخواہ کی مد میں نہیں لیے بلکہ ان کے دور میں یہ اخراجات ان کے ذریعے کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اخراجات ہوں تب بھی، اگر اس کا تقرر ہی قانونی نہیں ہے، دوسال میں ستائیس کروڑ اس کو دے دیے، یہ غریب ملک ہے، غریب لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ ہے، ایک کروڑ روپے ہر ماہ اس شخص پر خرچ کیا گیا، کیوں نہ سابق وزیراعظم (نوازشریف) کو نوٹس بھیجیں کہ کیوں تقرر کیا، اتنا پیسہ کیوں دیا؟ کیوں نہ یہ رقم سابق وزیراعظم سے واپس لی جائے؟۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے، مگر یہ سب درست نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سکھیرا صاحب، یہ آپ کا قومی فریضہ ہے، اپنے آپ سے باہر نکلیں۔ ہم اٹارنی جنرل کو بلاتے ہیں، بتایا جائے کس کس کو نوٹس کریں، قاسمی کو ابھی نوٹس کرتے ہیں، کیوں نہ سابق وزیراعظم کو بھی نوٹس کریں کہ تقرر کی سمری پر دستخط انہوں نے کیے ۔
سرکاری وکیل رانا وقار نے کہا کہ صرف اٹارنی جنرل اور قاسمی صاحب کو نوٹس کرکے سن لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت وزیر اطلاعات کون تھا؟ قاسمی صاحب کی اہلیت کیا ہے؟۔ احمد نواز سکھیرا نے بتایاکہ وزیر پرویز رشید تھے، قاسمی صاحب لکھاری، کالم نگار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو خود اس نے ڈرامہ لگا دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ان دستاویزات میں کچھ اشتہارات کا بھی ذکر ہے، یہ پیسے کس مد میں ہیں؟۔ سیکرٹری اطلاعات نے بتایاکہ قاسمی صاحب پروگرام بھی کرتے تھے جس کا اشتہار مختلف اخبارات میں پی ٹی وی کے ساتھ معاہدے کے تحت شائع ہوتا رہا اس کی رقم شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے بھی وہ پروگرام دیکھا تھا جس میں بابے بیٹھتے تھے۔
اس کے بعد عدالت نے حکم نامہ لکھوایا کہ سیکرٹری اطلاعات عدالت کو عطاء الحق قاسمی کے تقرر پر مطمئن نہ کرسکے اس لیے قاسمی کا تقرر کرنے کی سمری بھیجنے والی افسر صبا محسن رضا، وزیر پرویز رشید، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور عطاء الحق قاسمی کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ عدالت میں اپنی پوزیشن واضح کریں کہ کیوں نہ وہ غیر قانونی طور پر خرچ کی گئی یہ رقم حکومت کے خزانے میں واپس جمع کرائیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو ہر سماعت پر عدالت آنے کی زحمت کرنا ہوگی تاکہ ہماری معاونت کرسکیں، اللہ کرے آپ کو اسی عہدے پر لگا رہنے دیں، اگر نہ بھی رہنے دیا تو آپ کو معاونت کیلئے بلالیا کروں گا۔
نئے مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو ہم سارے رپورٹرز کمرہ عدالت سے بھاگ کر باہر جانے لگے تاکہ خبر ٹی وی تک پہنچا سکیں، مگر پیچھے سے چیف جسٹس کی آواز آئی کہ واپس آ جاﺅ، واپس آ جاﺅ، سب واپس مڑے۔ میں چونکہ دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اس لیے مڑ کر دیکھا اور وہیں کھڑا ہوگیا۔ چیف جسٹس نے دوبارہ آواز دی اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ادھر، آجائیں۔ قریب گیا تو کہا کہ اب آپ مجھے بتا دیا کریں جب میں اپنی حدود سے تجاوز کروں، آپ کی مہربانی ہوگی۔ (مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ان کا مخاطب اس لیے تھا کہ گزشتہ رات مطیع اللہ جان کے ٹاک شو میں کہا تھا کہ چیف جسٹس کو اپنا کام کرنا چاہیے، دوسروں کو ان کا کام کرنے دینا چاہیے)۔ بہرحال ان کی بات سن کر عدالت سے باہر آ گیا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے