کالم

سائنس دان، ڈاکٹرز اور جج

فروری 3, 2018 3 min

سائنس دان، ڈاکٹرز اور جج

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
دل کے مریضوں کے ساتھ ماضی میں پاکستان میں جوکچھ کیا گیا اس نے عام آدمی کو نہیں ہلایا کیونکہ دل کا مرض زیادہ ترصاحب ثروت طبقے تک محدود تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو دل کے عارضے لاحق ہوئے اور ہسپتالوں کی حالت دیکھی تو چیف جسٹس نے دل کے مریضوں کی شریان میں ڈالے جانے والے طبی آلے سٹنٹ کے معیار کو بہتر بنانے اور امراض قلب کے علاج کو سستا کرنے کیلئے ازخود کارروائی شروع کی۔
آج سپریم کورٹ میں تین جج اسی لیے بیٹھے۔ عدالت نے ماضی میں سٹنٹ بنانے کیلئے کام کرنے والے سائنس دان ڈاکٹر ثمرمبارک مند کو بھی طلب کیاتھا۔انہوں نے عدالت کو بتایاکہ سنہ 2004 میں جب نیسکام کے چیئرمین تھے اس وقت ادارے میں 26 ہزار لوگ کام کرتے تھے اور یہ ادارہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے آپریشنل ہونے کو دیکھتا ہے اور یہ پرخطرکام ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس سے غرض نہیں، صرف سٹنٹ بنانے تک محدود رہیں کہ آپ نے کیا کیا؟۔ ڈاکٹرثمر نے کہاکہ سٹنٹ بنانے کا منصوبے کی منظوری وزرات سائنس و ٹیکنالوجی نے تین کروڑ ستر لاکھ روپے بجٹ کے ساتھدی تھی۔ جرمنی سے تین کروڑ میں مشین درآمد کی، سالانہ دس ہزار سٹنٹ تیاری کا ہدف تھا، ہمارے تیارکردہ سٹنٹ نے جرمنی میں ٹیسٹ میں کوالیفائی کیا، اس کے بعد میں ریٹائرڈ ہوگیا۔ آج کل پنجاب منرل کمپنی بورڈ میں ڈائریکٹر ہوں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے 37 ملین لے لیے، وعدہ کیا کہ یہ کام کروں گا، کیا کارکردگی دکھائی، عدالت کو لکھ کر وضاحت دیں۔ کیا اس فنڈ کا کوئی آڈٹ کیا گیا؟۔ سرکاری وکیل نے بتایاکہ اس رقم کا آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے نے کہا کہ کیا ایک بھی سٹنٹ کا دانہ تیار کیا ؟۔ عدالت میں نسٹ کے افسر نے بتایا کہ سٹنٹ بنانے کی مشین ہمیں منتقل کی گئی اور ہم نے تین دن پہلے بھی جرمنی کو ٹیسٹ کیلئے سٹنٹ بھیجے ہیں، کل 450 سٹنٹ تیار کیے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر نے کہا کہ سب کچھ وزات سائنس نے کیا، وہی نگرانی کرتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے نسٹ کے افسر کو مخاطب کرکے کہاکہ ہمیں ہرحالت میں پاکستانی سٹنٹ مئی جون تک آپریشنل چاہئیں، عدالت اپنے طور پر ان کا تجزیہ کرائے گی، آپ نے پندرہ ہزار میں سٹنٹ فراہمی کا وعدہ کیاتھا۔
سرکاری وکیل نے کہاکہ فنڈز کا آڈٹ کرنے کیلئے مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چودہ برس گزر گئے، آڈٹ نہیں ہوا، مزید کتنی مہلت دیں، جلدی کریں۔ اس کے بعد عدالت نے حکم نامہ لکھوانا شروع کیاکہ ڈاکٹرثمرمند مبارک پیش ہوئے اور کہاکہ ۔۔ ڈاکٹر ثمر نے مداخلت کرکے کہاکہ میرا نام ثمرمبارک مندہے ، تصحیح کرلیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ ڈکٹیکٹ کرتے ہوئے غلطی کی تو ڈاکٹرثمر نے پھر درست کرنے کی خواہش کا اظہارکیا تو چیف جسٹس نے جھنجلاکر کہاکہ جوبھی ہے لکھیں کہ ۔۔ عدالت ہدایت کرتی ہے کہ وہ ایک ہفتے میں اپنے منصوبے پرکیے گئے اخراجات کی وضاحت تحریری طور پر لکھ کردیں۔
اس کے بعد عدالت نے ڈاکٹروں کو بلاکر انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی پر لیکچر لیا۔ مطمئن نہ ہونے پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس پر ہمیں تفصیلی پریزنٹیشن دی جائے اور یہ عدالت میں ہوگی کیونکہ میرے ہسپتال جانے پر بھی لوگ تنقید کرتے ہیں۔
عدالت کو پمز ہسپتال اسلام آباد کے شعبہ امراض قلب کے سربراہ ڈاکٹر اختر نے بتایاکہ ہم مارکیٹ سے ستر ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزارتک کا سٹنٹ خریدتے ہیں،دل کے آپریشن پر سٹنٹ سمیت ہمارے ہسپتال میں کل اخراجات پونے دو لاکھ سے دو لاکھ تک آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم سارے ہسپتالوں اورنجی شعبے کو کھنگال کر سٹنٹ کی قیمت خود مقرر کریںگے۔اگر کسی نے اس وجہ سے کام نہیں کرنا تو پاکستان چھوڑ کرچلا جائے۔ ہمیں پتہ ہے ڈاکٹرز کے کمروں کے باہر ادویات بیچنے والے اپنے اپنے بکسے لے کر آئے ہوتے ہیں، یہ سب ڈاکٹرز سے مل کر ہوتا ہے۔
جاری ہے

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے