کالم

نقیب محسود کیس کی سماعت کا احوال

فروری 13, 2018 5 min

نقیب محسود کیس کی سماعت کا احوال

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
مجھے عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں شرکت کیلئے لاہور جانا تھا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر جانے کا پروگرام طے کرلیا تھا مگر پھر ڈائریکٹر نیوز کا فون آگیا۔ ان کی ہدایت تھی کہ کل نقیب محسود قتل کیس اہمیت کا حامل ہے، آپ نے رپورٹ کرنا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے جنازے کو کندھا نہ دے سکا۔
صبح نو بجے سپریم کورٹ پہنچا تو سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ کا انتظار کرنے لگا کہ آئیں گے تو معلوم کرنے کی کوشش ہوگی کہ مفرور پولیس افسر کیوں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ سخت سردی میں کھلے آسمان تلے کانپ رہے تھے۔ دیکھا تو کچھ فاصلے بھی بول ٹی وی کے درجنوں کارکن بھی بے چینی سے کسی کے منتظر تھے، معلوم ہوا کہ وہ بھی ہماری طرح ’نوکری‘ کر رہے ہیں مگران کا ’شکار‘ جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان ہیں جن کے بارے میں گزشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ غلط خبر چھاپی ہے اس لیے آکر وضاحت کریں۔ ہم خوش قسمت رہے کہ آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا، آئی جی سندھ سے ایک ہی سوال تھا کہ عدالتی کی دس روز کی مہلت کے باوجود ملزم گرفتار کیوں نہیں ہو رہا۔ عمارت کے اندر جاتے ہوئے آئی جی نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کو رجسٹرار نے منع کیا ہے کہ اب بلڈنگ کے اندر فون سے ویڈیو نہیں بنائیں گے۔ چونکہ ویڈیو نہیں بنا رہا تھا تو کہا کہ سر، میں صرف سوال کر رہا ہوں۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ عدالت میں آپ کی شکایت کروں گا۔ مگر پھر وعدہ بھی کرکے گئے کہ باہر آکر جواب دوں گا۔ وعدہ اس لیے وفا نہ ہوسکا کہ واپسی پر آئی جی سندھ نے ججوں کیلئے استعمال ہونے والے راستے کا رخ کیا۔
عدالت میں نقیب محسود قتل کیس کی سماعت کا آغاز ساڑھے گیارہ بجے ہوا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ کے سامنے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ پیش ہوئے اور بتایا کہ گزشتہ سماعت کے حکم کی روشنی میںخفیہ اداروں سے رابطہ کیا اور مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی، ایف آئی اے، آئی بی اور آئی ایس آئی کے حکام کو خطوط لکھے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی جواب آئے ہیں، عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔ سندھ پولیس کے سربراہ نے آئی بی کا جواب پڑھتے ہوئے بتایا کہ محکمے نے واٹس ایپ سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کی مگر ان کے تکنیکی شعبے کے مطابق اس میں مہارت حاصل نہیں، کوشش کی گئی کہ معلوم کیا جاسکے راﺅ انوار کسی موبائل فون کے ڈیٹا کے ذریعے واٹس ایپ استعمال کرتا ہے یا پھر کسی وائی فائی ڈیوائس سے منسلک ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی، آئی بی نے اس کیلئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رابطہ کیا ہے مگر جواب نہیں ملا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ہر مرتبہ وقت دیتے ہیں، بہت مہلت دیدی، اب ہمیں ہی راﺅ انوار کو پکڑنا پڑے گا، ہمیں بتا دیجیے، کہاں سے کیسے پکڑنا ہے، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ایک لفافہ سندھ پولیس کے حکام کی طرف عدالتی اسٹاف کے ذریعے بڑھاتے ہوئے کہاکہ مجھے راﺅ انوار کا خط آیا ہے،یہ ٹائپ شدہ ہے اس لیے تحریرکی نشاندہی تو نہیں کی جاسکتی کہ کس کی ہے مگر دستخط دیکھ کر بتائیں کہ کیا راﺅ انوار کے ہیں؟۔ سندھ پولیس کے سربراہ اور دیگر افسران نے کہاکہ یہ دستخط راﺅ انوار کے ہی لگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خط میں لکھی گئی تمام باتیں سامنے نہیں لائیں گے تاہم راﺅ انوار کہتے ہیں وہ بے گناہ ہیں، راو انوار کہتے ہیں وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف مظلوم کاحق ہے مگر جس پرالزام ہے اس کو بھی صفائی اور اپنے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، راو انوار کہتاہے آزاد جے آئی ٹی بنا دیں جس میں آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی افسران شامل ہوں۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ راو انوار کے خط اور کی گئی استدعا پر کیا کرنا ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟۔ آئی جی نے کہا کہ راو انوار کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے، بے شک عدالت جے آئی ٹی بنادے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے ہم (جج) کامیاب ہوگئے۔ آپ اتنے بڑے افسرہیں، ایماندار بھی مشہور ہیں مگر نتائج دینے میں کامیاب نہ ہوسکے، کراچی میں آپ کے بارے میں معلوم کیا تھا لیکن راﺅ انوار کو گرفتار نہ کرسکے۔ آئی جی نے کہا کہ ہم (پولیس) اور آپ (چیف جسٹس) میں فرق ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ پھر حکم دے دیتے ہیں راو انوار سپریم کورٹ آجائے، راو انوار کو گرفتار نہ کیا جائے، راو انوار کے لیے جے آئی ٹی بنادیتے ہیں، راو انوار کو سیکیوٹی فراہم کرنابھی ضروری ہے ایسا نہ ہوکہ راﺅ انوار کو راستے میں کچھ ہو جائے، ثبوت ختم نہ ہو جائے، راو انوار کو حفاظتی ضمانت دے دیتے ہیں ،جمعہ کے روز راو انوار عدالت میں پیش ہوں ، ایم آئی کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کریں گے، راو انوار پولیس سے حفاظتی ضمانت مانگے تو فراہم کریں، جے آئی ٹی میں پولیس افسر بھی شامل کریں گے۔ ٹیم میں بریگیڈئیر کی سطح افسران شامل کریں گے۔
عدالت میں نقیب اللہ محسود کے کزن نے پیش ہو کر کہا کہ ابھی پہلی جے آئی ٹی قائم ہے جس کے سامنے راﺅ انوار پیش نہیں ہوئے، اور عدالت دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل کر رہی ہے، عدالت میں نقیب کے والد کا خط اس کے کزن نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ آئی جی سندھ اب تک راو انوار کو کیوں نہ پکڑ سکے، راو انوار کی عدم گرفتاری کا جواب چاہیے، ہمارے سیکیورٹی ادارے جانتے ہیں راوانوار کدھر ہے، عوام سے راوانوار کی گرفتاری کے لیے مدد مانگی جائے، آئی جی سندھ کے مطابق سیکیورٹی اداروں کی سپورٹ کے باوجود راوانوار کوتلاش نہ کرسکے۔ عدالت آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں کو طلب کرکے پوچھے۔ ہم عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا شکار ہیں، یہ اداروں کی قابلیت پر بھی سوال ہے (یہ تین صفحات کا سوچ سمجھ کے لکھا گیا خط تھا جس کا مکمل متن طوالت کی وجہ سے اس تحریر میں شامل نہیں کیا جا رہا) ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ قومی اداروں پربے یقینی یا مایوسی کا اظہار نہیں ہونا چاہے، نقیب اللہ ہمارا بھی بچہ تھا، راو انوار کا خط میڈیا کو فراہم نہیں کیا جائے گا ۔ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا کہ راو انوار کا ایک خط عدالت کے انسانی حقوق سیل کو موصول ہواہے، کوئی بھی شخص پریقین نہیں کہ یہ خط راﺅ انوار کاہی ہے۔ راﺅ انوار کو حفاظتی ضمانت فراہم کی جائے، سندھ اور اسلام آباد پولیس راو انوار کو حفاظت فراہم کریں، راو انوار کے خط پر انکوائری ٹیم کی تشکیل کا سوال اس وقت دیکھا جائے گا جب وہ پیش ہوں گے، خط کی تصدیق راو انوار ہی کرسکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر یہ خط راو انوار کا ہے تو عدالت انہیں جمعہ کو پیش ہونے کا موقع دیتی ہے۔
عدالت سے باہر نکلا تو بول ٹی وی کے کارکن اسی طرح کھڑے تھے اور میر شکیل کے انتظارمیں ٹھنڈ کی وجہ سے ان کی قلفی جم رہی تھی۔ میر شکیل الرحمان نے آنا تھا اور نہ آئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے