کالم

جسٹس ثاقب نثار ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

فروری 14, 2018 4 min

جسٹس ثاقب نثار ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے عدیل وڑائچ

آج کل سپریم کورٹ سے حکومتی وزرا اور رہنماوں کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس کی خبریں مل رہی ہیں، آج ایک درخواست گزار پر عدالت عظمیٰ کی تمام رجسٹریوں میں داخلے پر پابندی کا حکم بھی آ گیا ہے، کچھ حلقے عدالت کے ان اقدامات کو تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور حکومتی جماعت عدالتی کارروائی کو اپنے خلاف سازش قرار دیتی ہے مگر ان حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عدالت ایسا کیوں کر رہی ہے۔ سب سے پہلے آج کے تازہ کیس کی بات کرتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے ایک عادی درخواست گزار شاہد اور کزئی پر سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ معاملہ تھا سپریم کے کے نئے جج صاحب کی تقرری کے خلاف پیٹیشن کا۔ شاہد اوکزئی نے دو روز قبل جسٹس منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ شاہد اورکزئی نے کہا کہ انکی درخواست کو دو روز میں ہی سماعت کیلئے لگا دیا گیا، رولز کے مطابق ایسا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ بطور چیف جسٹس رولز کو نرم کر دیا، آپ کیس کے میرٹ پر دلائل دیں۔ چیف جسٹس کی ہدایت کے باوجود شاہد اورکزئی رولز پڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتائیں کہ منصور علی شاہ نے ایسا کیا کیا ہے جس پر پٹیشن دائر کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری میں غلطی کیا ہے۔ شاہد اورکزئی کیس کے میرٹ پر بات کرنے کی بجائے کہنے لگے کہ آپ جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہیں، تو یہ مقدمہ آپ کو نہیں سننا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل دیں میرے مقدمہ سننے سے فرق نہیں پڑے گا۔ شاہد اورکزئی دلائل دینے کی بجائے کیس کے میرٹ سے ہٹ کر بولتے رہے۔ چیف جسٹس تحمل سے بات سنتے رہے مگر شاہد اورکزئی نے جج صاحبان پر سوال اٹھانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں آپکا داخلہ بند کر رہے ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ شاہد اورکزئی عادی درخواست گزار ہیں ان کے سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی ہو گی۔ شاہد اورکزئی نے موقع کی نزاکت کو سمجھنے کی بجائے بحث شروع کر دی کہ کس رجسٹری میں پابندی ہو گی؟ چیف جسٹس نے آرڈر میں لکھوایا تمام رجسٹریوں میں ۔ شاہد اور کزئی نے پھر سوال کیا کس ملک کی عدالت میں؟ تو چیف جسٹس نے کہا پاکستان کی ۔ شاہد اور کزئی نے کہا کہ آپ پابندی کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا آپ اس حکم کو چیلنج کر دیں۔ روسٹرم چھوڑ دیں آپ ججز کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔شاہد اورکزئی جج صاحبان کے منع کرنے کے باوجود بولتے رہے تو عدالتی عملے کو شاہد اروکزئی کو کمرہ عدالت سے نکالنا پڑا۔

تقریباً سات سال قبل یہی کمرہ عدالت تھا، فل کورٹ میں جسٹس ثاقب نثار بھی بنچ کا حصہ تھے، یہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا دور تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں میں شاہد اور کزئی بھی شامل تھے۔ دلائل دیتے ہوئے شاہد اور کزئی نے آئین کی کتاب زمین پر پٹخ دی۔ تمام جج صاحبان خاموش رہے مگر جسٹس ثاقب نثار کو یہ بات ناگوار گزری کہ آئین کی مقدس کتاب کو زمین پر گرایا گیا جس کے تحفظ کا انہوں نے حلف لے رکھا ہے۔ انہوں نے شاہد اورکزئی کی سرزنش کی اور کہا کہ اپنے اس عمل پر معافی مانگیں۔ جسٹس ثاقب نثار کے بولنے پر دیگر جج صاحبان کو بھی بولنا پڑا۔
میرا مشاہدہ ہے کہ جسٹس ثاقب نثار آئین اور عدلیہ کے احترام پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ ن لیگی وزراء کی جانب سے عدلیہ مخالف تقاریر پر چیف جسٹس نے حد سے زیادہ ضبط، تحمل اور گریز کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پناما کیس کے دوران پانچ رکنی بنچ پر کس حد تک تنقید کی گئی، مگر جب حکومتی جماعت کی "ٹیم”نے عدلیہ پر تنقید کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تو رائے عامہ بننا شروع ہو گئی کہ آخر ایسا کیا ہے کہ جج صاحبان عدلیہ مخالف تقاریر کا نوٹس نہیں لیتے، ٹاک شوز میں بحث زور پکڑنے لگی ، مختلف کیسز میں جج صاحبان سے وکلا اور صحافی سوال کرنے لگے۔ عدلیہ مخالف تقاریر کی شدت میں کمی نہ آئی پھر صبر کی بھی حد ہوتی ہے ، عدلیہ کو حکمران جماعت کے ارکان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس لینا پڑا ۔ اب انہی کیسز کو حکمران جماعت اپنی ہمدردی کیلئے استعمال کر رہی ہے اور اسے اپنے خلاف سازش کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حکمران جماعت نے چیف جسٹس صاحب کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے ادارے پر ہونے والے حملوں کا نوٹس لیں اور آئین اور قانون کے ضابطے کے تحت معاملے کو دیکھیں۔ نہال ہاشمی کا مقدمہ ہو یا طلال چوہدری اور دانیال کے خلاف توہین عدالت کو نوٹس کا معاملہ، عدالت نے کیسز میں ملزموں کو فیئر ٹرائل کا پورا موقع دیا اور دے رہی ہے۔ سیاسی قیادت اپنے سیاسی مفادات کیلئے اور کچھ تنقید کرنے والے عادت سے مجبور ہو کر حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے، مگر اب بہت ہو گیا، عدلیہ اور آئین کی عزت و تکریم پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے، یہ ملک کے سب سے بڑے قاضی کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں۔

(عدیل وڑائچ دنیا ٹی وی سے منسلک ہیں، یہ تحریر ان کی اجازت سے فیس بک سے لی گئی ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے