کالم

سازش کا بیانیہ اور عدالت

فروری 27, 2018 5 min

سازش کا بیانیہ اور عدالت

Reading Time: 5 minutes

ایک طرف حکومت کا بیانیہ سازش ہے تو دوسری جانب عدالتی فیصلے اور اپوزشن جماعتوں کا بیانیہ ہے، سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کو نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تو انہوں نے موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کا فیصلہ کیا، جی ٹی روڈ ریلی کے دوران نواز شریف نے خطابات میں اپنے خلاف سازش کو مناسب وقت پر بے نقاب کرنے کا اعلان کیا، وہ دن اور آج کا دن، نواز شریف سازشی مہروں کا نام زبان پہ نہیں لائے، نہ جانے وہ مناسب وقت کون سا ہوگا جب نوازشریف اپنے خلاف سازش کرنے والوں کے نام منظر عام پر لائیں گے، سازش کے بیانیہ کی آڑ میں عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا _

مسلم لیگ ن کے جڑانوالہ جلسے میں طلال چوہدری نے شعلہ بیانی میں عدلیہ کو ٹارگٹ کیا تو لاہور رجسٹری میں ایک صحافی نے معزز چیف جسٹس ثاقب نثار سے معصومانہ سوال کیا کہ آخر عدلیہ اتنا صبر کیوں دکھا رہی ہے، چیف جسٹس نے جواب میں مناسب وقت کی اصطلاح کا استعمال کیا، سیاسی رہنما کے لیے مصلحت یا خوف ہو سکتا ہے لیکن اگر قانون کی خلاف ورزی ہو تو قانون کبھی مناسب وقت کی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا،

اٹھائیس جولائی دو ہزار سترہ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن بظاہر یہ ثابت کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے کہ انہیں کسی سازش کا نشانہ بنایا جارہا ہے، سپریم کورٹ سے الیکشن ایکٹ 2017ء کے خلاف فیصلے سے بھی نواز لیگ اپنے سازش کے بیانیے کو تقویت دے رہی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے منتخب نمائندوں کو نکال باہر کرنے کے لیے محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں، صرف یہی نہیں اصغر خان فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے سیاستدانوں میں سیاسی سیل کے ذریعے پیسہ تقسیم کیا گیا،  مقتدر قوتوں کی شراکت داری سے یہ سیاسی سیل کسی نامعلوم مقام پر نہیں بلکہ نوے کی دہائی میں اس وقت کے صدر مملکت اسحاق خان کے صدارتی آفس میں قائم کیا گیا تھا۔

ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی اور پیپلز پارٹی کو انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعت کہا جاتا رہا ہے۔ اس وقت نواز لیگ سازش کے جس بیانے کے پروان چڑھا رہی ہے ماضی میں یہی موقف پیپلز پارٹی کا بھی رہ چکا ہے۔ 1999ء کے مارشل لاء کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف جلاوطن تھے تو سابق صدر پرویز مشرف بلاشرکت غیرے حکومت چلا رہے تھے، ظفر علی شاہ کیس میں عدالت عظمی نے سابق صدر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ کسی جگہ نواز شریف کو منظرعام سے ہٹانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کو راستے سے ہٹانے یا اقتدار کے ایوانوں میں اس کا راستہ روکنے کے کھیل کھیلا جاتا رہا ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلا، پیپلز پارٹی 1988ء، 1993ء اور 2008ء میں عوام کے زور بازو پر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور نادیدہ قوتوں کے ہزار جتن کے باوجود عوام میں زندہ رہی، مخدوش سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی کوجتنا دبایا گیا اس نے سیاسی حالات بہتر ہونے پر زیادہ شدت کے ساتھ کم بیک کیا _

دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پیپلز پارٹی کو پہلی مرتبہ پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملا تو جو کام مقتدر قوتیں تیس سالوں میں نہ کر سکی وہ کام اس جماعت نے پانچ سال میں خود کر دکھایا۔ پھر عوام نے 2013ء کے عام انتخابات میں دیکھا کہ کس طرح پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقدامات کے نیتجے میں ان کا صفایا ہوگیا، اب بھی اگر کسی سیاسی جماعت کو کھڈے لائن لگانے کے لیے ماضی کا کھیل رچایا جا رہا ہے تو ماضی کے تجربات کو بھی سامنے رکھا جائے۔
مسلم لیگ ن کو الیکشن ایکٹ 2017ء میں سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے پسند نہ آئے لیکن عدالت عظمی کو ایسا فیصلہ کرنے کا جواز پارلیمنٹ کے بنے قانون نے خود فراہم کیا، آئین کے آرٹیکل 17 کی شق دو اور الیکشن ایکٹ 2017ء کو سامنے رکھا جائے تو موجودہ قوانین کسی اسمگلر، ڈرگ مافیا، چور، ڈاکو اور ڈکیٹ کو سیاسی جماعت بنانے اور پارلیمان جیسے مقدس ایوان پر کنٹرول حاصل کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں، کیا کسی شخص کو یہ قبول ہوگا کہ گلی محلے کا کوئی چور اچکا یا ٹھگ ان پر حکومت کرے، پارلیمنٹ میں بیٹھے عوام کے نمائندوں کا کام تھا کہ وہ اپنے قانون کا ان پہلوئوں سے بھی جائزہ لیتے، قلم کار کی نظر میں عدالت عظمی کے پارٹی صدارت سے متعلق فیصلے سے اختلاف کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں، ہاں عدالت کے 28 جولائی 2017ء کے فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نااہلی کا فیصلہ صادر کرنے سے پہلے عدالت عظمی کو اپنے حکم نامہ کی روشنی میں نوازشریف کو ذاتی حیثیت میں صفائی کا موقع فراہم کرنا چاہئے تھا اور نیب ریفرنسز کی نگرانی کی ذمہ داری پنامہ بینچ کے معزز جج کی بجائے کسی اور جج کو سونپی جاتی۔
ماضی میں بھی پاناما لیکس جیسے سیاسی معاملات پر فیصلے حاصل کیے گئے، مولوی تمیز الدین، ذوالفقار علی بھٹو اور ظفر علی شاہ مقدمات کے فیصلے کسی طرح بھی عدلیہ کے ماتھے کا جھومر نہیں، پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے مقدمہ کے دوران بڑے شد و مد کے ساتھ دلائل دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف پر نا اہل ہوا شخص سیاسی جماعت کا صدر نہیں بن سکتا، معزز ججز جو پارٹی سربراہ کی کوالیفیکیشن پر امکانات پر مبنی سوالات کر رہے تھے ان میں سے کسی جج کی جانب سے اگر یہ سوال کر لیا جاتا کہ کیا قتل کے کسی مجرم کے نام پر سرکاری میڈیکل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاسکتا؟ کیا عدالتی ڈیکلئر مجرم کو بھری عدالت میں شہید کہا جاسکتا؟ تو پھر لطیف کھوسہ صاحب کیا جواب دیتے۔
سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی مقدمہ کا فیصلہ بھی محفوظ کرچکی ہے اس مقدمہ کی سماعت کے دوران 18 ویں ترمیم کا ذکر بھی اس انداز سے ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم کے دوران قانون سازوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو تبدیل نہیں کیا، وقت کے پہیے کو واپس گھما کر حال کا موازنہ کیا جائے تو پیپلز پارٹی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین سے صادق اور امین کے الفاظ کو نکالنا چاہتی تھی لیکن ن لیگ نے مخالفت کی، آج پیلز پارٹی کے وہی رہنما آئین میں درج صادق اور امین کی صفات کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں جو ماضی میں یہ الفاظ آئین سے نکالنے پر مصر تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان میان ثاقب نثار کہہ چکے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اچھے ، محترم اور مقدم ہیں۔ اس بات کو ہمارے سیاستدانوں کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا، بظاہر لگتا ہے سیاستدانوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، تحریک انصاف کا ماضی کا کوئی تجربہ نہیں جس سے وہ سبق سیکھ سکتے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کبھی بھی کسی سیاسی جماعت یا اس کے سر براہ کو غیر طبعی طریقے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی ایسی سعی وقتی طور پر تو کارگر ہوسکتی ہے لیکن حالات کی بہتری پر عوام اسی سیاسی جماعت یا سربراہ بھرپور قوت سے واپس لے آتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات قریب ہیں،عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں سیاستدانوں تلخیاں اور اختلافات کو بھلا کر اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ملکی ترقی اور خوشحالی کا ایجنڈا طے کرے،یہ بھی طے کرلیں کہ عام انتخابات میں جو سیاسی جماعت جس صوبے میں اکثریت حاصل کرے وہاں حکومت بنائے لیکن وفاقی سطح پر نشتوں کے تناسب سے سب جماعتوں کو وفاقی حکومت میں شامل کیا جائے۔

(یہ تحریر عمران وسیم کی فیس بک سے ان کی اجازت لے کر شائع کی جا رہی ہے)

عمران وسیم
سینیر کارسپانڈنٹ دنیا نیوز
اسلام آباد
twitter: @imranshehri
facebook: imran.shehri@facebook.

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے