کالم

قیمتی خون اور سستے سپنے

مارچ 7, 2018 3 min

قیمتی خون اور سستے سپنے

Reading Time: 3 minutes

عافیہ مراد
میری عمر کوئی 6 سال ہے میں دوسرے بچوں کی طرح کھیلنا چاہتا ہوں، سکول جانا چاہتا ہوں، ماما بابا سے ضد کر کے اپنی پسند کے کھلونے لینا چاہتا ہوں ۔ بڑے بہن بھائیوں سے اپنے ناز اٹھوانا چاہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں میں اپنا بچپنا ایک پھول کی مانند گزاروں، میرے ماں باپ اور سب عزیز میری تربیت کریں، انسانیت سکھائیں، میں چاہتا ہوں میں اپنے وطن کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں میری چھوٹی بہن خو گڑیا کی طرح دکھتی ہے میں اسے بڑے بھائی کی طرح گود میں اٹھا کے لاڈ کروں، اگرچہ میں 6 سال کا ہوں مگر یہ سب سوچنا پڑ رہا ہے مجھے میں اپنی گلی میں کھیل رہا ہوں ۔

دور آسمان پر جنگی طیارے اڑان بھر رہے ہیں، میں بڑا ہونا چاہتا ہوں، میں دیکھنا چاہتا ہوں دنیا کو ان نظروں سے میرے کورے سپنے ان نظروں میں ڈگمگا رہے ہیں کیونکہ ابھی ایک جہاز نے بارود برسایا دور کسی جگہ پر مجھ جیسا اک بچہ یک بارگی دو بار تڑپا اور ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کی ماں نے زخمی جسم سے آخری سانسوں میں اس پر اپنی چادر دے دی اور آخری سفر کو نکل پڑی ۔ اس کے لخت جگر کی لاش پر ایک فوجی نے قدم ٹکائے اور مردہ بچے کے سینے پر پیر رکھ کے آگے گزر گیا۔ وہ جہاز واپس کہیں چلا گیا۔ اسے لگا وہ بچہ ابھی بھی زندہ ہے، وہ کچھ لمحوں بعد بہت سے جہاز اپنے ساتھ لایا اور میرے شہر پر ایک ہی بار کئی بم پھینکنے کے لئے غوطہ لگایا ۔

میں گلی سے دوڑتا اپنے گھر کے دروازے تلک پہنچ کر ساکت ہو گیا ہوں ۔ میرے خواب اور میرے گھر کا دروازہ میرے کاندھوں پر آن گرے ہیں لیکن میں نے سوچنا نہیں چھوڑا ۔ میری نیلی چھوٹی آنکھوں نے کچھ ایسا دیکھا جسے ماں میری مذہبی تربیت کے مطابق قیامت کی طرح کچھ بولتی تھی ۔ قیامت ہاں یہ قیامت میرے شہر میں آن پہنچی ہے بارود اور بم سوا نیزے پر ہیں ۔ خلقت خدا چیخ رہی ہے ساتھ والے گھر میں عبداللہ کے دادا کے دوٹکڑے ہو گئے ہیں ۔ خون بہہ رہا ہے ان کے گھر سے جیسے قربانی کی عید پر بچھڑے ذبح کرنے پر بہتا ہے نا ویسا خون لیکن بچھڑا ذبح کرنے کے بعد تو خون بہنا ختم ہو جاتا ہے ۔ میں کئی گھنٹوں سے ساکت ہوں اور یہاں میرے قریب ہر گھر میں شاید بچھڑا ذبح ہو رہا ہے ۔

میری امی کی آخری چیخ میں نے ابھی سنی وہ آخری لفظ میری گڑیا کو پکاری اور چپ ہو گئی ۔ امی بول نہیں رہی میرا کاندھا درد کر رہا ہے ۔ ابا اور بھائی شاید بازار سے آتے ہوں گے ۔ ابھی مجھے بچا لیں گے لیکن بازار میں تو ابھی کچھ دیر پہلے دھواں اٹھ رہا تھا ۔ خوفناک دھواں شاید عزرائیل اتر آیا ہے ۔ میرا حلق خشک ہو رہا ہے ۔ گلی سے گزرتے فوجی چچا مجھے پانی پلا دو ۔ میں اس کے بعد پانی نہیں مانگوں گا ۔ میری زبان موت کا ذائقہ چکھ رہی ہے ۔ آسمان سے فرشتوں کے ساتھ شاید حوریں بھی مجھے لینے آ رہی ہیں ۔ مجھے پانی پلادو ۔ بابا اندھیرا ہے میری آنکھوں کے سامنے مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ اس وقت دنیا میں کروڑوں مسلمان ہیں؟؟ وہ سب مجھے دیکھ رہے ہیں نا؟ اماں میری آنکھوں میں اندھیرا ہے؟ کوئی نہیں سن رہا ۔ خدایا اک بار نیچے آجا ۔ میرا شہر جل گیا ۔ میرے لوگ مر گئے ۔ خون ہی خون ہے اور اندھیرا ہے سب دکھ رہا ہے نا ؟؟؟ میں 6 سال کا ہوں اور آخری ہچکی سے پہلے بے ربچ خیالات تیری دنیا کہ چہرے پر رسید کرتا جا رہا ہوں ۔
یہ اندھیرا ہے بارود کا دھواں ہے خون ہے لاشے ہیں اور بلکتے ادھ مرے انسان یہ دنیا کا اک ٹکڑا ہے ۔ میں کسی کے جگر کا ٹکڑا ہوں میں کس کے جگر کا ٹکڑا ہوں سب مر گئے میرے اپنے میں بھی برف کی مانند ٹھنڈا ہو گیا
خدایا ۔۔
میں کسی سے گلہ نہیں کرتا یہ اک آخری التجا ہے
توں تو ہر وقت ہے موجود ان دونوں جہانوں میں
اک بار اتر شام میں کہ خون بہت ہے
دنیا کو میں دیکھنا چاہ رہا تھا دنیا مجھے دیکھ نہ پائی ۔ میں سکول جانے کی عمر میں مر رہا ہوں ۔ میرا ایک ہاتھ کٹ گیا ہے ۔ دروازے کے پار میری گڑیا چھت کے ملبے تلے مجھے نیلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔ اس کے گرد لہو کا حصار ہے یہ قیمتی خون تھا وہ محفوظ ہو گئی ہے میں بھی تھک گیا ہوں ۔
اہل دنیا ! میں 6 سال کا چھوٹا بچہ ہوں اور میں شام میں رہتا ہوں ۔ میری میت کو کفن دے دینا ۔ میرا قصور یہ تھا کہ میں شام کا باسی تھا ۔
شام میں الوداع

(عافیہ مراد ۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل ماحولیاتی سائنس کی طالبہ ہیں، حالات حاضرہ سے گہری دلچسپی ہونے کے باعث مختلف موضوعات پر قلم کشائی کرتی ہیں) ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے