کالم

جوتا نہیں ووٹ

مارچ 15, 2018 2 min

جوتا نہیں ووٹ

Reading Time: 2 minutes

قبل از الیکشن یکے بعد دیگرے پاکستان کے عوام نے سیاست دانوں پر تقریر کے دوران جوتا اچھال کر اور سیاہی پھینک کر ایک بار پھر قوم کو بین القوامی سطح پر شرمندہ کر دیا – کبھی دھرنے،کبھی دھماکے، کبھی سیاست میں نا زیبا الفاظ ۔
پہلے وزیرِ خارجہ خواجہ اصف پر سیاہی ہھینکی گئی تو اگلے دن ہی سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو خطاب سے قبل ہی جوتا مارا گیا اور پھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر بھی جوتا اچھالنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔
پہلے تو شک اپوزشن پر تھا لیکن عمران خان پر ناکام حملے کے بعد شک و شبہ باقی نہ رہا –

کیا یہ سیاسی رہنماؤں کی ناقص کارگردگی ھے کہ تعلیم کو اہمیت دینے میں پیچھے رہے اور قوم ان پڑھ اور بے شعور ہونے کا ثبوت دیتی رہی؟

اقبال نے درست کہا تھا کہ

خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا

اس طرح کے واقعات صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ہوتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو یہ نئی راہ سکھائی بھی تو کس نے؟ ۔ کہتے ہیں کہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا – پاکستان میں اگر کچھ بدلا ہے تو سیاستدانوں پر حملے کرنے کے انداز ۔
انڈیا میں ارویند کیجرِوال کو انتخابی مہم کے دوران تھپڑ کا نشانہ بنایا گیا، بل گیٹس پر کیک پھینکا گیا تھا، نیکولاز سرکوزی پر بھی کیک سے حملہ کیا گیا تھا ۔ جارج ڈبلیو بُش، سندھ اسمبلی میں ارباب رحیم اور سابق صدر آصف علی زرداری پر لندن میں جوتے کا پھینکا جانا ۔ پرویز مشرف اور احسن اقبال کے بعد سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف اور چیرمین تحریکِ انصاف عمران خان پر جوتے کا وار ۔ اور اس وار کا نشانہ بنے علیم خان ۔ فرق کسی کو نہ پڑا، نہ تقریریں رکیں، نہ خطاب، نہ سیاست کے انداز بدلے ۔ کچھ بھی تو تبدیل نہ ہوا، تو پھر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ ۔

محظ قوم کی جہالت کی مشہوری ہوئی ، مانا کہ سیاستدانوں اور لیڈروں سے بہت سے شکوے شکایات ہوتی ہیں، پر اس میں عوام اور حکمران دونوں کا ہی قصور اور غلطیاں ہوتی ہیں اور بار بار ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر تخت نشین قوم کے مجرم بن جاتے ہیں اور عوام بھی تخت نشینوں کے جرائم میں کم شریک نہیں ہوتے ۔ اس کے باوجود حکمرانوں اور عوام کی جنگ جاری رہتی ھے ۔
ہم نے ہمیشہ مغرب سے غلط اعمال سیکھے، ہم نے ہر کام جو مغربی ممالک میں ہوتا ھے ، بغیر سوچے فخر سے  اپنایا اور نتیجہ کبھی مثبت نہ آیا ۔ کاش ہم نے محنت کرنا اور کچھ دیگر مثبت پہلو مغربی کلچر کے اپنائے ہوتے تو اپنے ساتھ دوسروں کا بھی بھلا ہوتا ۔

اگر سوچا جائے تو تنقید کرنے اور مطالبات منوانے کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں ۔ اس طرح سیاہی اور جوتے کے وار سے آج تک نہ کوئی بات مانی گئی ھے اور نہ ہی یہ غصہ اتارنے کا درست طریقہ ھے ۔
اگر کچھ کرنا ھے تو اُسی سیاہی کو انگوٹھے پر لگا کر درست حکمران منتخب کریں ۔ کیوں کہ پہلا قدم ہمیں لینا ہوگا ورنہ جیسے عوام  ویسے حکمران –

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے