پاکستان پاکستان24

سہولت کار راؤ انوار کو عدالت لے آئے

مارچ 21, 2018 5 min

سہولت کار راؤ انوار کو عدالت لے آئے

Reading Time: 5 minutes

نقيب اللہ قتل کے ملزم راؤ انوار کو سفيد رنگ کي گاڑي ميں سپريم کورٹ کے دروازے تک لايا گيا، سابق ايس ايس پي ملير چہرے پر ماسک پہن کر عدالت پہنچے، اس دوران ان کے ساتھ پوليس افسران اور اہلکاروں کي بڑي تعداد موجود تھی، اينٹي ٹيررسٹ سکواڈ کے  اہلکار بھي راؤ انوار کے ہمراہ  تھے اس سے قبل سپريم کورٹ نے نقيب اللہ قتل کيس کا از خود نوٹس ليا تھا اور راؤ انوار کو بار بار عدالت ميں پيش ہونے کا حکم ديا تھا، راؤ انوار کي عدالت ميں پيشي کے بعد احاطہ عدالت ميں غير معمولی انتظامات کئے گئے اور سيکيورٹی سخت کی گئی ہے ۔

پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مفرور پولیس افسر راﺅ انوار پیش ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے دلیر تھے، لوگوں کو پکڑتے تھے، اتنے دن کہاں چھپ کر رہے ۔ راﺅ انوار نے کہا کہ اس کیس میں بالکل بے گناہ ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کہتے، اگر بے گناہ ہیں تو گرفتاری کیوں نہ دی۔
راﺅ انوار کے ساتھ ہی آنے والے وکیل نے کہا کہ عدالت نے تیرہ فروری کو ہدایت کی تھی اس کی روشنی میں انوار پیش ہوگئے ہیں، اس لیے ان کو گرفتار نہ کیا جائے اور توہین عدالت کا نوٹس بھی واپس لیا جائے ۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں گرفتار نہ کیا جائے، اس کو حراست میں لیا جائے، اس کیلئے عدالت کی کوئی ہمدردی نہیں، اس کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنارہے ہیں، پیش ہونے پر اس کے خلاف جاری کیا گیا توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہیں، اس کے بنک اکاﺅنٹس کھول رہے ہیںتاکہ اس کے بچوں کی روزی روٹی نہ بندہو۔ کیا ایسا ہونا چاہیے؟اس پر کوئی اعتراض تو نہیں۔
راﺅ انوار فورا بولے کہ اکاﺅنٹس کھولنے سے سیلری ملے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ سے نہیں پوچھ رہے، وکیل فیصل صدیقی سے پوچھا ہے۔ نقیب محسود اور سول سوسائٹی کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے اثبات میں جواب دیا۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق راﺅ انوار کے وکیل نے کہا کہ سندھ پولیس کے حوالے نہ کریں، ان سے تفتیش نہ کرائی جائے، یہ ہمارے خلاف ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی آپ کے خلاف نہیں، ساری عمر اسی پولیس کے افسر رہے ہیں۔
عدالت کے پوچھنے پر سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ پہلے سے قائم انکوائری کمیٹی پولیس افسر ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں تھی۔ دوسری کمیٹی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آفتاب احمدپٹھان کی سربراہی میں ہے جس میں پولیس افسران عامر فاروقی، جاوید اکبر ریاض اور ذوالفقار مہر شامل ہیں۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اسی کمیٹی کو تفتیش کیلئے مزیدافسران شامل کرکے بہتر بنا دیتے ہیں۔ آئی جی سندھ نے اپنے افسر آفتاب پٹھان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ میرے ساتھ موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ذمہ داری دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہاتھ اور بازو سے مضبوط ہونے کا بھی اشارہ کر دیا کہ ڈٹ کر کام کرنا۔ جس پر عدالت میں بیٹھے افراد مسکرائے تو چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب تھا کہ جسمانی طور پر میرے جیسے ہی ہیں مگرکام ڈٹ کر ہونا چاہئے۔
آئی جی سندھ نے بتایا کہ پہلی والی کمیٹی میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن ملیر عابد قائم خانی بھی ہیں ۔ اسی دوران راﺅ انوار کے وکیل بولے کہ جے آئی ٹی میں باقی ایجنسیوں کے افسر بھی شامل کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ مجھے بتائیں کون سی ایجنسیوں کے افسران؟ وکیل نے کہا کہ دیگر ایجنسیوں کے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نام لیں دیگر کون سی ایجنسیاں ہیں؟۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے کہا کہ آئی بی اور آئی ایس آئی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ان کاکیا تعلق؟ آئی ایس آئی کا تفتیش کے عمل سے کیا تعلق ہے؟۔
وکیل نے کہا کہ عدالت جانتی ہے کہ راﺅ انوار کیوں پیش نہیں ہو رہے تھے، اس کی صرف ایک یہی وجہ تھی کہ ان کو تفتیشی افسران پر اعتراض تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وجہ نہ تھی، ہمیں پتہ ہے کیا وجہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مشاورت کیلئے جا رہے ہیں، کسی اور سے نہیں آپس میں مشورہ کریں گے، یہ عدالت آزاد ہے،کسی سے نہیں پوچھتی۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق دس منٹ بعد چیف جسٹس اور دیگر دونوں جج صاحبان واپس آئے تو راﺅ کے وکیل نے کہا کہ عدالت میرے مﺅکل کو جیل نہ بھیجے کیونکہ وہاں ایسے افراد ہیں جن کو راﺅ نے پکڑا تھا، ان سے اس کی جان کو خطرہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں جیل میں نہ رکھیں،جے آئی ٹی تفتیش کرے گی اور ثبوت اکھٹے کرے گی اس دوران یہ جیل میں رہیں گے۔ وکیل نے کہا کہ یہ عدالت کا مقدس بچہ ہے (قانون کی زبان میں ملزم کو فیورٹ چائلڈ کہاجاتا ہے، وکیل نے فیورٹ کو سیکرڈ کہہ دیا)۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ فیورٹ بچہ ہے؟ کوئی فیورٹ بچہ نہیں ۔
سندھ پولیس کے سربراہ نے عدالت سے استدعا کی کہ راﺅ انوار کی براہ راست ہماری تحویل میں دیا جائے کیونکہ قانونی لوازمات پوری کرنے میں وقت لگے گا، یہی عدالت حکم دے تاکہ ہمیں ٹرانزیشن اورماتحت عدالت سے منتقلی کیلئے رجوع نہ کرنا پڑے ۔
عدالت نے حکم لکھوایا کہ راﺅ انوار نے سرنڈر کیا اس لیے ان کے وکیل کی استدعا پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جاتی ہے ۔راﺅ انوار کے اکاﺅنٹس کھولنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا قومی شناختی کارڈ بھی کھولا جائے ۔جے آئی ٹی پہلے سے درج مقدمات کے مطابق تفتیش کرے، اس کے سربراہ سندھ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آفتاب احمدپٹھان ہوں گے جبکہ اس ٹیم میں اے آئی جی اسپیشل برانچ کراچی ولی اللہ دل، ڈی آئی جی ساﺅتھ آزاد احمد خان، ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار لاڑک اور ایس ایس پی سنٹرل ڈاکٹر رضوان شامل ہوں گے ۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق عدالت نے راﺅ انوار کو حفاظتی ضمانت دینے کی استدعا مسترد کر دی اور حکم دیا کہ سپریم کورٹ کے باہر سے ملزم کو حراست میں لیا جائے،ملزم کو منتقل کرنے کیلئے سندھ پولیس کو کسی عدالت یا اتھارٹی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔حکم دیا گیا کہ آئی جی سندھ کا فرض ہے کہ ملزم کی زندگی کا تحفظ یقینی بنائے۔ محسود خاندان کوبھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ راﺅ انوار کیلئے خطرہ نہ بنے ۔ مقتول نقیب محسود کے والد محمدخان اور مولوی حسام الدین محسود نے عدالت کو بیان حلفی دیدیا ہے۔
حکم نامے میں لکھوایا گیا کہ تفتیشی ٹیم کسی سے متاثر نہ ہو ۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے استدعا کی کہ اس عدالت کی کارروائی اور میڈیا سے متاثر ہوئے بغیر تفتیش کا حکم دیا جائے جس پر عدالت نے یہ نکات حکم نامے میں شامل کئے ۔وکیل نے استدعا کی کہ راﺅ کا نام ای سی ایل سے بھی ہٹا دیا جائے جس پر نقیب کے والد کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اب تو گرفتاری ہو گئی ہے ۔
چیف جسٹس نے آرڈر لکھوانے کے بعد ریمارکس دیے کہ جب تک راﺅ پر جرم ثابت نہیں ہوتا کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم باربار یہ بات کہتے ہیں تو لوگ تنقید کرتے ہیں، باربار کہنے سے وقعت کم ہوتی ہے مگر ہم جب مقدمہ سنتے ہیں تو آنکھوں پر پٹی ہوتی ہے ، کسی کو نہیں دیکھتے، تفتیش صاف ستھری ہونا چاہیے، اگر ثابت نہیں ہوتا تو باعزت بری ہو جائے گا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آج یہ ثابت ہوگیا کہ اس عدالت کے سامنے ہر ایک جواب دہ ہے اور اس عدالت نے ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہونا ثابت کر دیا ہے ۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل، ہم آپ کے الفاظ کیلئے مشکور ہیں، اصل طاقت عوام کی ہے ۔ ایک بار مارشل نے فیصلہ دیا تو کہا گیا کہ اس پر عمل کون کرائے گا، مارشل نے جواب دیا کہ اس ملک کے عوام اس فیصلے پر عمل درآمد کرائیں گے، پاکستان میں بھی عوام کی طاقت ہے ۔
چیف جسٹس اپنی کرسی سے اٹھے اور اونچی آواز میں کہا کہ شکر الحمد اللہ ۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے