کالم

جس کا کام اسی کو ساجھے

مارچ 21, 2018 5 min

جس کا کام اسی کو ساجھے

Reading Time: 5 minutes

تحریر: عمران وسیم

عام موت اور شہادت میں فرق ہوتا ہے۔ بطور مسلمان ہمارا کامل یقین ہے کہ شہید مر کر بھی نہیں مرتا، اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی سیاسی شہید اور سیاسی موت کی اصطلاح عام ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ کیا جا چکا سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کا مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ اگر یہ فیصلہ کہیں ہوا تو اپنے تئیں درست ہوگا لیکن اگر ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ غیر طبعی موت کے ذریعے سیاسی میدان سے سیاسی رہنماوں کا نام دائمی طور پر مٹانے کی کوششیں کبھی بھی بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ جس قدر جس سیاسی شخصیت کو دبایا گیا، مخصوص وقت گزرنے کے بعد وہی شخص دوبارہ سیاسی میدان میں شدت کے ساتھ ابھرا۔ جس کی وجہ ہمیشہ یہ رہی ہے کہ عوام نے اس شخصیت کی سیاسی موت کو ہمیشہ سیاسی شہادت سمجھا ہے۔
موجودہ سیاسی حالات میں ووٹ کے تقدس اور حرمت کا چرچا زبان زد عام ہے۔ ووٹ کے تقدس کی بات کرنا نہایت آسان لیکن عملی طور پر اس ڈگر پر چلنا انگاروں پر چلنے جیسا ہے۔ سیاسی رہنماوں کا سیاسی ایمان انتہائی کمزور ہے۔ یہ بات تو ووٹ کے تقدس، تبدیلی اور روٹی کپڑا مکان کی کرتے ہیں لیکن دوسری جانب انہیں اپنی سیاسی جدوجہد پر یقین نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اس بات کا کامل یقین ہے کہ الیکٹ ایبل (جیتنے والے گھوڑوں) کے بغیر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ یہ اعتقاد ووٹ کے تقدس کے بیان داغنے والوں کا ہے، تبدیلی کے دعوے کرنے والوں اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والوں کا بھی۔۔ ہمارے عوام نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ ان چلے کارتوسوں کا محاسبہ نہیں کرنا جو ہر الیکشن ایک نئی سیاسی جماعت کا جھنڈا اوڑھ کر ووٹ مانگنے ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے انتخاب کسی قومی اسمبلی کے حلقہ کا ہو یا صوبائی اسمبلی کا یا یونین کونسل کی سطح کا،، کسی شریف ایماندار شخص کے مقابلے میں عوام ہمیشہ سے ہی سرمایہ دار، جاگیر دار،، مبینہ بدمعاش یا بدعنوان کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔۔ شریف النفس امیدوار کو ووٹرز صرف اس ذہنی سوچ کے زیراثر مسترد کرتے ہیں کہ شریف آدمی کا سیاست میں کیا کام؟؟؟ رہی سہی کسر وہ لوگ پورا کر دیتے ہیں جو پولنگ والے دن ووٹ ڈالنے کے بجائے سارا دن آرام یا خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت گرتے لڑکھڑاتے مئی میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے جا رہی ہے۔ عام انتخابات 2018 قریب ہیں اسی لئے ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی سیاسی کبوتر ایک سیاسی جماعت کی چھت سے دوسری سیاسی جماعت کی چھتری کی طرف اڑان بھرنے کیلئے پر تولنے لگے ہیں۔۔ ووٹرز اور سپورٹرز اگلے الیکشن میں اپنی اپنی سیاسی جماعت کی کامیابی کے جواز پیش کر رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹرز اور سپورٹرز میں اتنی اخلاقی جرت نہیں کہ اپنے سیاسی رہنمائوں سے یہ پوچھ سکیں کہ مشاہد حسین سید،، زاہد حامد،، ریاض حسین پیرزادہ جیسے آمر کے سیاسی ساتھیوں کو ساتھ ملا کر وہ کس ووٹ کے تقدس یا حرمت کی بات کررہے ہیں؟؟؟ تبدیلی کا خواب دکھانے والوں سے کوئی یہ سوال کرنے کو تیار نہیں کہ جناب من ! شاہ محمود قریشی، رضا حیات ہراج، نذر محمد گوندل اور فردوس عاشق اعوان جیسے چلے ہوئے کارتوسوں کو ساتھ ملانا کہاں کی تبدیلی؟؟؟ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کو بھی کئی بار دھوکا دینے والے فیصل صالح حیات اور نبیل گبول جیسے افراد کو پارٹی میں ایک مرتبہ پھر خوش آمدید کہتے ہوئے کوئی عیار محسوس پرانے ہوا۔۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ لوگ نئے لوگوں کو منتخب کرنے کو تیار نہیں اور سیاسی جماعتوں کا متمع نظر بھی عوام کی خدمت نہیں بلکہ اقتدار کا حصول ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ وہ انتخابی مہم میں عدالتی اصلاحات کو ن لیگ کے منشور میں شامل کریں گے، نواز شریف صاحب کو بھی انصاف کیلئے عوام کو درپیش مشکلات کا احساس اپنی نااہلی کے بعد ہوا ہے۔ نااہلی کے فیصلے سے اختلاف کرنا نواز شریف کا حق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی نااہلی کے فیصلے میں بہت سے سقم ہوں، مگر نوازشریف ناچاہتے ہوئے بھی نااہلی کے فیصلے کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ وزیراعظم ہاوس سے باہر آکر اب احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ دوسری جانب پانامہ فیصلے کے بعد عدلیہ مختلاف بیانات دینے پر ن لیگ کے دانیال عزیز،طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کو توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا ہے۔ یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی اداروں پر شخصیات کو کبھی بھی فوقیت نہیں دینی چاہئے، آئندہ عام انتخابات میں نوازشریف نے عدالتی اصلاحات کو ن لیگ کے منشور کا حصہ بنانا ہے تو ضرور بنائیں لیکن قومی لیڈر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے عدلیہ کوصرف اس بنیاد پر نشانہ نہ بنائیں کہ پانامہ کیس میں ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔
دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی کیس کے فیصلوں پر سوشل میڈیا تنقید کے بعد عدالتی اصلاحات لانے کا کہا ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار کو اسپتالوں کے دوروں اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدالتی نوٹسز لینے پر بھی ہدف تنقید بنایا گیا۔ یہ جوڈیشل ایکٹیوزم کا ہی نتیجہ ہے کہ زینب، عاصمہ اور عاصمہ رانی کے ملزمان پکڑے گئے۔ اگر عدالت عظمی نوٹس نہ لیتی تو تینوں معصوم بچیوں کے والدین اور ورثاء پنجاب کی سیاسی اور کے پی کے کی غیر سیاسی پولیس کے رحم و کرم پر رہتے اور نہ جانے ملزمان کو پکڑنے میں کتنا عرصہ لگ جاتا۔ والدین پر ملزمان کی جانب سے صلح کیلئے دبائو ڈالا جاتا۔ نئے سال کے آغاز سے سپریم کورٹ صحت، تعلیم کے معاملات پر کافی فعال دکھائی دی رہی ہے،عدالت عظمی کی جانب سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹسز پر تنقید کی بجائے سراہا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو بھی یہ امر مدنظر رکھنی چاہئے کہ عدالتی ایکٹیو ازم سے انتظامی ایکٹیو ازم کی راہ ہموار ہو، ایسا نہ ہو کہ جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد معاملات پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائیں۔ جوڈیشل ایکٹیوزم کا استعمال اس نظریے کے ساتھ کیا جائے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر،،صحت اور تعلیم کے معاملات پر سیاسی لوگوں کے خلاف ریمارکس دینے کی بجائے متعلقہ اداروں کے سربراہان اور افسر شاہی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے اور ذمہ دران کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے، ہمارے ملک کا نظام ہی ایسا ہے جہاں سیاسی حکومت اپنی متعین قانونی مدت مکمل کرنے کے بعد انتقال اقتدار آئندہ کی حکومت کے سپرد کرکے چلی جاتی ہے لیکن ہماری افسر شاہی قیام پاکستان سے حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ بیڈ گورننس پر سیاسی لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن افسر شاہی کا گورننس کے معاملات پر محاسبہ نہیں کیا جاتا۔ نظام کو درست اور اداروں کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ غفلت پر سخت سزا دیکر انہیں ان کی بنیادی ذمہ داری کا احساس کرایا جائے، چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز لینے پر تنقید کی جہاں تک بات ہے تو یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ معزز چیف جسٹس صاحب یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اصلاح کے لیے مثبت تنقید کو عدلیہ ویلکم کرے گی۔ اس بات کا مارجن لیکر اصلاح کی نیت سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب چیف جسٹس کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹسز لینے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے تو پھر عوام کے منتخب وزیر اعظم کو بھی کسی نہ کسی حد تک تو صوابدیدی اختیار حاصل ہوگا۔ میگا پروجیکٹس کے خلاف اس بنیاد پر ریمارکس پاس نہیں کیے جاسکتے کہ ان میں ممکنہ طور پر بد عنوانی کا پہلو ہو سکتا ہے،ملک کی ترقی اور خوشحالی میں جہاں تعلیم کا بنیادی کردار ہے وہیں ملکی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے میگا منصوبوں کی اہمیت بھی کم نہیں۔
نوٹ ؛ سنجیدہ تحریر ختم ہی ہونے لگی تھی کہ ایک دوست نے واٹس اپ پر ایک لطیفہ بھیج دیا۔ جسے پڑھ کر ساری سنجیدگی کافور ہوگئی۔ سوچا کہ کیوں نہ اسی لطیفے سے اس کالم کا اختتام کروں تاکہ قارئین کا موڈ بھی خوشگوار ہوجائے۔
‘‘کسی عدالت میں ایک وکیل صاحب کافی دیر سے مقدمہ شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ جج صاحب کسی وجہ سے عدالت میں تشریف نہ لائے تو وکیل صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور جج کی کرسی پر جاکر بیٹھ گئے۔ انھوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ دھڑا دھڑ مقدمے فیصلے بھی کرنا شروع کردیئے۔ ساتھی وکیلوں نے اعتراض کیا تو بولے ‘‘میں تو چیف جسٹس صاحب کی سنت اور اس فرمان پر عمل کررہا ہوں کہ جب دوسرے کام نہ کریں تو ہمیں کرنا پڑتا ہے۔’’
یہ تو تھا لطیفہ مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ملک میں یہ کام شروع نہ ہو جائے۔

twitter: @imranshehri
facebook: imran.shehri@facebook.com

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے