کالم

پڑھے لکھے صحافی سے ڈر کیسا؟

مارچ 28, 2018 5 min

پڑھے لکھے صحافی سے ڈر کیسا؟

Reading Time: 5 minutes

محمد امنان
لائلپور, ضلع کونسل چوک سے چند قدم کے فاصلے پر فیصل آباد پریس کلب نام کی ایک عمارت موجود ہے جو عرصہ دراز سے اپنے اندر قابض اور مفاد پرستوں کے ظلم سے لے کر صحافت اور اس کے نام کی بقا پر مر مٹنے والوں کی قربانیوں اور بے رونقی کی تلخیاں سمیٹے کھڑی ہے.
اس عمارت سے میرا تعلق کیا ہے؟ یا مجھ جیسے نئے آنے والے صحافیوں کا تعلق کیا ہے، یہ بات شعبہ صحافت سے تین سال وابستہ رہنے کے باوجود بھی میں جان نہیں پایا. اس سے ہٹ کر ایک معمہ اور ہے جو میرا ذہن ابھی تک حل نہیں کر پا رہا. وہ یہ کہ پریس کلب کے سالانہ الیکشن کا مقصد کیا ہے؟
بے ترتیب تحریر کا ربط بنانے کی کوشش میں یہاں الیکشن اور نئے صحافیوں کی مشکلات کا منظر کھینچنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شعبہ صحافت میں آنے کے لئے (شعبہ صحافت سے مراد یہاں فی الوقت فیصل آباد کی صحافت ہے) نوجوان صحافیوں کو سب سے پہلے مختلف چینلز کے سربراہان کے تلوے چاٹنا پڑتے ہیں.
مطلب یہ کہ بہت منت سماجت کے بعد طلبہ سیکھنے کے مرحلے میں داخل ہو کر چینل سربراہان کے ذاتی غلام بننے کے بعد صحافت کا باقاعدہ جھومر اپنے ماتھے پر سجا پاتے ہیں. چینلز کی ٹینشن، پسند ناپسند سے ہٹ کر یہاں کی صحافت کے لئے ورکنگ جرنلسٹس اور پریس کلب ممبرز کے درمیان خود کو اصلی صحافی منوانا بھی جوئے شیر لانے سےکم نہیں ہے.
متعدد شعبہ جات میں آج کل چیف جسٹس صاحب کے نوٹس پہ نوٹس ہو رہے ہیں، صحافیوں کے لئے نہ تو آج تک کوئی قانون بنایا جا سکا نہ ہی کوئی طریقہ کار رائج کیا گیا کہ کون اصلی صحافی ہے اور کون جعلی صحافی. ہر شہر میں پریس کلب کے حوالے سے مختلف گروپس آپس میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر خود کو منوانے کی کوشش میں رہتے ہیں مگر یہاں کا باوا آدم نرالا ہے.
برسر اقتدار گروپ کے مطابق پریس کلب کے ممبر خواہ وہ صحافی ہیں یا نہیں قابل احترام ہیں. جبکہ اس حوالے سے دوسرا گروپ اپنی الگ رائے رکھتا ہے کہ صرف صحافی ہی پریس کلب کے ممبرز ہو سکتے ہیں کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو ممبر شپ فراہم کرنے کی کیا تک ہے بھلا ؟
خیر میں بات کر رہا تھا صحافیوں کے حوالےسے قوانین کی. یہاں کسی کے لئے کوئی قانون نہیں ہے, میٹرک پاس جو خبر لکھ سکتا ہو، املاء کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہو, وہ صحافی بن سکتا ہے. ان نئے صحافیوں کا کیا کہ جو 4 یا دو سال کی باقاعدہ صحافتی ڈگری لیکر میدان میں اترتے ہیں. ان پڑھے لکھے قابل لوگوں صرف اس لئے جگہ نہیں مل پاتی کہ وہ روایتی بدصورت صحافت کے گُر سیکھ نہیں پاتے. مطلب کہ وہ لوگ اپنا گروپ منتخب نہیں کر پاتے کہ کس کی جانب کا صحافی بننا ہے تو صحافت کا باقاعدہ ٹوکن ملے گا.
اور تو اور مزے کی بات یہ ہے کہ فیصل آباد میں حلال روزی کمانے اور صحافت کرنے کے لئے بھی آپکو دونوں گروپس کو یقین دلوانا ہو گا کہ میں فلاں گروپ کے ایجنڈے کے خلاف ہوں اور فلاں گروپ سے لاتعلق ہوں. اس قسم کی بے تکی توجیہات کی بنا پر آپکو یہاں صحافت میں 2 وقت کی روٹی کمانے کا حق دیا جائےگا.
ایک دوست کو صحافت کا شوق ہوا, میرا ایک اور دوست جیسے تیسے کر کے صحافتی میدان میں اپنا کچھ نام بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا دوست نمبر ایک نے فیلڈ میں آنے کا قصد کیا اور طریقہ ہائے رائج جاننے کے لئے دوست صحافی کی خدمات مستعار لیں. میں اس سارے معاملے کا چشم دید گواہ ہوں, صحافی دوست نے فرمایا کہ بھائی اس فیلڈ میں آنے کے لئے منافقت کا کورس کرنا پڑے گا, دوستوں کے گلے پر چھری چلانا ہو گی, اور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے جھوٹ بہتان بازی اور دیگر خرافات جن سے اخلاقی طور پر منع رہنا چاہئیے سب کرنا پڑے گا.
میں نے مداخلت کی اور پوچھا یہ صحافت کی کونسی قسم ہے ؟ دوست صحافی گویا ہوئے اور فرمایا بھئی فیصل آباد کی صحافت ایسی ہی ہے اور صحافت کی یہ نئی قسم صرف فیصل آباد میں دستیاب ہے.
نیا آنے والا صحافی ماحول سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور سیکھتا بھی ہے لیکن میرے دوست نے صرف یہ سیکھا کہ الیکشن کے قریب آکر ملکی سیاست سے بھی گندی سیاست کا حصہ بنو, نعرے مارو, ووٹ ڈالو یا نہ ڈالو, بس الیکشن کے دن کے بعد چپ سادھ لو. دوستوں سے مفاد کی حد تک ملو اور ضرورت پڑنے پر ٹانگ بھی کھینچ دو.
ایک پرانے آرٹیکل "میرا خواب صحافت ” سے چند سطریں شامل کرنا چاہ رہا ہوں کہ نئے آنے والی صحافی کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے
(حالات اس فیلڈ میں یوں ہیں کہ پڑھے لکھے نوواردوں کو سیکھنے کے لئے پہلے سنئیرز کے ذاتی کام کرنا پڑتے ہیں اسکے بعد کہیں جا کے بیچاروں کو سکھایا جاتا ہے. پرچی مافیا صحافت میں بھی سکہ جمائے ہوئے ہے. ٹیلنٹڈ نوجوان ہمیشہ کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں. نئے چینلز میں بھی وہ ہی لوگ ایڈجسٹ ہوتے ہیں جنکا تعلق واسطہ فیلڈ میں ٹھیک ہوتا ہے.
یونیورسٹیز سے نکلنے والے سٹوڈنٹس جب فیلڈ میں داخل ہوتے ہیں تو ان بے چاروں کو طرح طرح کے لوگوں کے مختلف رویوں کے نشتر جھیلنےپڑتے ہیں. صحافت کی ڈگری ہونے کے باوجود ان پڑھ خود ساختہ صحافیوں کی جی حضوریاں کرنی پڑتی ہیں. حکومت کا تو اس سب میں کردار صفر ہے. ہمارے حکمران بس بیان بازی کی حد تک صحافیوں کے لئے سہولیات اور نوکریوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں. یہاں اونچی آواز میں چھینک بھی لے لی جائے تو نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کونسی صحافت کر رہے ہیں
دنیا کے دوسرے ممالک میں صحافیوں کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں لیکن یہاں کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے. قوانین تو دور کی بات ہماری فیلڈ میں کام کرنے والے حضرات کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کس وقت کس بات پہ فائر کر دیا جائیگا. اور تو اور کئی واقعات کا میں خود چشمدید گواہ ہوں کہ کوئی دوست فائر ہونے کے بعد کبھی غلطی سے اپنے پرانے دوستوں کو ملنے بھی آ جائے تو اسے گیٹ سے اینٹر نہیں ہونے دیا جاتا اور تو اور موجودہ سٹاف کو پرانے جانے والے لوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جی حضوری نہ کی گئی تو نکالے جانے والے حضرات کی طرح عبرت کا نشان بنا دئے جاؤ گے. انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہم صحافی اپنے ہی حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے کسی پلیٹ فارم سے محروم ہیں.
ہر صحافتی تنظیم بھی اپنے اپنے مخصوص ایجنڈوں پر کام کر رہی ہے. کام کرنے والوں کا بس ایک کام ہے کہ بغیر کسی ڈیمانڈ کے کوئی آہ کئے بغیر سر پھینک کے بس کام کئے جاؤ. نوازشات ان لوگوں پر کی جائیں گی جو جی حضوری کے ساتھ خوشامد میں بازی لے کر جائےگا. خوشامدیوں کی خوب بلے بلے ہے اس فیلڈ میں. چند روپوں کی خاطر اور اپنے ماتھے پر صحافی کا ٹیکا لگوانے کی خاطر پڑھے لکھے نوجوان عزت نفس گروی رکھنے پر مجبور ہیں.
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس تحریر کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا کیوں کہ میں بھی ان چند صحافیوں میں سے ہوں جنہیں کام کا جنون تو ہے لیکن ہمیں کسی پاگل کی صدا کی طرح بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے. سمجھ نہیں آتی کہ پرانے صحافیوں میں سے چند جلاد صفت لوگوں کو نئے پڑھے لکھے صحافیوں سے کس قسم کا خوف ہے؟ اب اس سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے کچھ نوجوان تو انگور کھٹے ہیں کی طرح فیلڈ سے کنارہ کر لیتے ہیں, باقی جو اچھے دن بھی آئیں گے کے انتظار میں رہتے ہیں وہ دیوار سے لگے رہتے ہیں)
تو یہ چند معاملات تھے جن سے گزر کر فیصل آباد کا صحافی بنا جا سکتا ہے صحافت کی ڈگریاں ، انسانیت ، اخلاقیات ، مذہب نے ہمیں کیا کچھ سکھایا ہے وہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے بیان شدہ حالات کی کسواٹی پر خود کو پرکھو پھر فیلڈ کے پرانے صحافی آپکو اپنے شعبہ کا حصہ مانیں گے خلاف جاؤ گے تو سب تمہارے خلاف ہو جائیں گے چاہے تم حق پہ ہی کیوں نہ ہو.
صحافی کارکن آج بھی حقوق اور آسرے سے محروم ہے.
یاد آیا کہ الیکشن بھی قریب ہیں. میرے کچھ دوستوں کو تنقید کرنے کی پاداش میں پریس کلب کی رکنیت سے جبری برطرف کر دیا گیا. کچھ سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا. عوام کی آواز بننے کے دعویدار خود اپنے ہی آئین سے مکر گئے. بغیر کسی شوکاز نوٹس کے اقتدار کا آرا چلا دیا گیا جس پر چند غیرت مند صحافی پریس کلب کی بنیادی رکنیت سے خود ہی دستبردار ہو گئے ہیں. اب الیکشن ہوں گے یا سلیکشن اس کا فیصلہ وقت کرے گا.
چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ کبھی ہم صحافیوں کی حالت زار پر بھی نوٹس لیں_

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے