متفرق خبریں

بحریہ ٹاؤن زمین قبضہ کیس

اپریل 2, 2018 2 min

بحریہ ٹاؤن زمین قبضہ کیس

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے موضع تخت پڑی راولپنڈی میں جنگلات کی زمین پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی (بحریہ ٹاؤن)  کے نام منتقل کرنے کے  مقدمے کی  سماعت کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ جنگلات کی زمین کس قانون کے تحت پرائیویٹ شخص کو دیدی گئی؟۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے ریما رکس دیے کہ جنگل کی حثیت تبدیل کرنا فارسٹ ایکٹ مجریہ 1927کی خلاف ورزی ہے _ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار ملک شفیع نے بتایا کہ ان کی ملک ریاض اور ان کی ہاوئوسنگ سوسائٹی بحریہ ٹائون کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں لیکن حکومت کی ملی بگھت سے جنگلات کی زمین پر پہلے قبضے کئے گئے اور بعد میں ان قبضوں کو قانونی حثیت دے کر مفاہمت کی گئی جبکہ محکمہ جنگلات پنجاب کے جن افسران نے ان قبضوں کی مزاحمت کی ان کا تبادلہ کیا گیا۔

درخواست گزار نے بتایا کہ چیف کنزرویٹر فارسٹ خالد ریاست نے جب موضع تخت پڑی میں جنگل کی زمین پر قبضے کی مزاحمت کی تو ان کا تبادلہ ملتان کیا گیا، جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نےکہا کہ ایسا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے جس سے ثابت ہو کہ مذکورہ افسر نے مزاحمت کی تھی تاہم درخواست گزار کوئی دستاویز نہیں دے سکے ۔

درخواست گزار ملک شفیع نے کہا کہ کنزرویٹر محمد جہانگیر غوری نے 9جون 2006 کو بحریہ ٹاون کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کئے جس کی رو سے پہلے سے کئے گئے قبضوں کو قانونی حثیت مل گئی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے استفسار کیا کہ زمین پر قبضہ اس مفاہمت سے پہلا ہوا یا بعد میں؟  درخواست گزار نے بتایا کہ مفاہمت سے پہلے زمین پر قبضہ ہوگیا تھا لیکن تعمیرات نہیں ہوئی تھیں، مفاہمت کے بعد تعمیرات ہوئیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈویژنل فارسٹ افسر نے پہلے اس مفاہمت پر اعتراض کیا اور بعد میں اس کی منظوری دی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وزیر جنگلات ڈاکٹر اشفاق نے درختوں کی کٹائی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ تخت پڑی میں جنگل کی ایک ہزار کنال زمین  کسی اور کے نام ظاہر کرکے بعد میں بحریہ ٹائون کے نام انتقال کیا گیا، جعلسازی کا یہ سارا عمل پنجاب حکومت کی ملی بھگت سے ہوا۔ عدالت نے کیس  کی مزید سماعت منگل تین اپریل تک ملتوی کی تو بحریہ تائون کے وکیل اعتزاز احسن کے معاون بیرسٹر  گوہر نے سماعت دس اپریل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی لیکن عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔

بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ درخواست گزار ابہام پیدا کر رہا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ پھر آپ اپنی باری پر اس ابہام کو دور کر دیں _

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے