کالم

گھوڑے اور گھڑ سوار

اپریل 22, 2018 4 min

گھوڑے اور گھڑ سوار

Reading Time: 4 minutes

مطیع الله جان
تحریک انصاف کے سربراه عمران خان نے پاکستانی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں خریدار نہ سہی اپنے بکنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف کھلے عام کاروائی کا اعلان کر کے خان صاحب نے باقی سیاسی جماعتوں کے لئیے سیاست کا ایک نیا اور مشکل معیار مقرر کر دیا ہے۔ مبینہ بکاؤ گھوڑوں کے خلاف لعن طعن کے شروع ہونے والے سلسلے میں صحافی اور کالم نویس حضرات بھی شامل ہیں۔

حیرانی اس بات پر ہےکہ پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بھی اس معاملے کو روایتی سیاست اور جمہوری عمل سے جوڑ رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ پاکستان کی ایجاد تو ہے نہیں، محض ایک بین الاقوامی نام ہے اقتدار اور اختیار کی کشمش میں سخت مذاکرات ، دھوکہ دہی، رشوت اور مخالف کو زچ کرنے کا۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاست بھی وه نہیں کہ جس میں محض چند سیاستدانوں کے بیچ ایسے مذاکرات ہوں جن میں صرف گھوڑے کا ریٹ اور رقم ہی طے ہونی ہو۔ پاکستان میں اقتدار اور اختیار کے کیلوں پر ایک دوسرے کو نوچنے والے محض سویلین بندر نہیں۔جسمانی اعتبار سے زیاده طاقت ور میندرل نسل کے بندر کو جب اقتدار یا محض اختیار درکار ہوتا ہے تو وه بغیر کسی رقم کے بھی اختیار اور اقتدار چھین لیتا ہے، اسے کسی ہارس ٹریڈنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باوجود اس جسمانی صلاحیت کے جب طاقت دکھانے کا وقت یا موڈ نہ ہو تو اس کی آنکھ کا اشاره سویلین بندروں کے کچھ “ٹی اے ڈی اے” کے عوض ایک درخت سے دوسرے درخت پر جھول جانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

پاکستان میں محض ہارس ٹریڈنگ کے خلاف نعره لگا کر ، بیان دے کر یا تجزیہ کر کے سیاستدانوں اور سیاسی جمہوری عمل کو بدنام کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ بڑے بڑے “معزز اور نہ بکنے والے“ )یا نہ پکڑے جانے والے؟( سیاستدان اور تجزیہ کار بڑی آسانی سے یہ بھول جاتے ہیں کہ بلوچستان جیسے صوبوں میں سویلین بندروں کے بیچ اقتدار کے کیلے کے لئے رقم کے لین دین پر شور دراصل میندرل بندروں کی ناجائز مداخلت اور سازشوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی اور اس کے بعد سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں جو کچھ ہوا اسکی اصل وجہ “ہارس ٹریڈنگ” ہے، کچھ اور نہیں۔ زرداری کا ایک تیر استعمال کر کے جمہوریت کی ساکھ بھی شکار اور حکمران جماعت بھی۔ کسی کا قتل کر کےاسکی جیب سے کچھ پیسے نکال لو یا اس کا موبائل چھین لو تو وه ٹارگٹ کلنگ نہیں سٹریٹ کرائم ہی تو کہلائے گا۔

سیاستدانوں پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگاتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بیچارے گھوڑے ہنہنا ہنہنا کر اپنا سودا خود نہیں کرتے۔ اگر ان میں سودے بازی کی اتنی صلاحیت ہوتی تو وه گھوڑے نہیں کوئی جرنیل یا سیاستدان ہوتے۔ جہاں تک رقم کا تعلق ہے وه ایک جیب سے دوسری جیب میں جائےگی تو سٹریٹ کرائم ثابت ہو گا ناں۔ ان رقوم کی لین دین کی خفیہ ویڈیو فلمیں بنیں گی تو گھوڑے اپنی اوقات میں رہیں گے ناں۔ جب معاملہ ملکی وسائل کی بھینس کے پورے گوشت پر اختیار اور کنٹرول کا ہو تو بلوچستان جیسے صوبے میں بھینس کی دم کاٹ کر بطور اقتدار سویلینز کی طرف اچھال دینا جمہوریت کا احترام اور آئین سے وفاداری کہلاتا ہے۔

اب ایسے میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث اراکین اسمبلی کو با ثبوت یا بے ثبوت ہم جتنا بھی الزام دیں سیاسی بیانات اور کالموں میں عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں اور پھر سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں جو کچھ ہوا وه محض ایک جمہوری عمل تھا جس میں سیاستدانوں نے اگر اصولوں کی بنیاد پر نہیں تو رقوم کی عوض اپنا ضمیر بیچا ہے۔ اور یہ کہ یہ جو ملک میں سیاسی غیر یقینی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کی کرپشن ہے اور ہارس ٹریڈنگ اسکا ایک ثبوت ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ نگران حکومت بننے کے بعد اسی ہارس ٹریڈنگ کی ویڈیو فلمیں بازار میں آ جائیں، سُوموٹو ہوں، ریمارکس چلیں اور احتساب کا نعره بروقت انتخاب پر حاوی ہو جائے۔ عمران خان جیسے دیده ور لیڈر کا اپنے بیس اراکین اسمبلی کے خلاف کاروائی ایک اچھا اخلاقی فیصلہ ہے مگر یہ اچھا سیاسی فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے اگر احتساب انتخاب پر حاوی ہو گیا اور کچھ تاخیر سے ہونے والے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے اصطبل کے دروازے کھول دئیے گئے۔ الیکشن سے پہلے “نیب زده اور نیب زادوں” کی تعداد میں اضافہ بھی عمران خان کی “اصولوں کی سیاست کو تقویت دے گا۔ نئے “وفاداروں” کی بڑے پیمانے پر بھرتیوں سے پہلے پرانے “وفاداروں” کی برطرفیوں کے ذریعہ ہی اقتدار تک پہنچا جا سکتا ہے۔

ایک عام آدمی کو بھی نظر آرہا ہے کہ آئنده انتخابی معرکہ سیاسی جماعتوں کے بیچ نہیں بلکہ سیاست اور سازش کے درمیان ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کے حوالے سے نواز شریف کا اپنا ماضی بھی اتنا تابناک نہیں مگر اس نعرے کو محض اس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نعره اب میاں صاحب لگا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ سیاستدان پیسوں کے عوض اپنا دین ،ایمان اور نظریہ بیچتے رہے ہیں اور یوں وه ووٹ کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے رہے۔ مگر اس بے حرمتی پر ہم جس طرح آواز اٹھا رہے ہیں کیا فوجی آمریت میں (ڈھکی یا چھپی) سر بازار ووٹ کی بے حرمتی پر ہم آواز اٹھا پا رہے ہیں؟ میڈیا پر جو اس وقت جابرانہ سنسرشپ ہے کیا وه سیاستدانوں کی ہارس ٹریڈنگ کی وجہ سے ہے؟ کیا وجہ ہے کہ میڈیا گھوڑوں کی بات تو کرتا ہے مگر گھڑ سواروں کے کردار پر بات کرنے پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ ان بکنے والے گھوڑوں کے اصل سوار کون ہیں؟ چند کروڑ روپے کی گھاس پھوس اور چارا پانی کے خرچے کے عوض بکنے والے گھوڑے بیچارے سوار کی ایک چابک کی مار ہوتے ہیں۔ ہم جیسے تجربہ کار تجزیہ کار بڑی صفائی سے ان مجبور گھوڑوں کو بے غیرت، بے شرم اور گدھے جیسے القابات سے نواز کر عوام کے غصے کا رخ گھڑ سوار سے ہٹا کر گھوڑے کی طرف کر دیتے ہیں۔ اقتدار کے کیلے پر راضی ہو جانے والے یہ بیچارے گھوڑے محض اپنے چارے کی خاطر سوار سے بھی چابک کھاتے ہیں اور
راستے کے کتوں کے کاٹے کو بھی برداشت کرتے ہیں۔

یہ کالم مطیع اللہ جان کے فیس بک سے ان کی اجازت کے ساتھ شائع کیا گیا

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے