کالم

عدالتی کانفرنس میں معیشت و سیاست

مئی 5, 2018 6 min

عدالتی کانفرنس میں معیشت و سیاست

Reading Time: 6 minutes

جوڈیشل اکیڈمی سے اے وحید مراد

سپریم کورٹ اور لا اینڈ جسٹس کمیشن نے ایک طویل عرصے کے بعد جوڈیشل کانفرنس کرائی ۔ ۴ مئی کی شام شروع ہونے والی کانفرنس میں افتتاحی خطاب چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا ۔ شرکا مہمان خصوصی کے ساتھ تصاویر بنانے اور عشائیہ کھانے کے بعد رخصت ہوگئے ۔ دو روزہ کانفرنس کا پہلا دن یوں اختتام کو پہنچا ۔

دوسرے دن صبح ہم نے جوڈیشل اکیڈمی کا رخ کیا تاکہ ’سی پیک‘ کے ثمرات سمیٹنے سے ’آگاہی‘ کیلئے منعقدہ اس کانفرنس سے کچھ ’حاصل‘ کیا جا سکے ۔ بظاہر اس کانفرنس کا مقصد ’پاکستان چین اقتصادی راہداری‘ کے راستے میں نظر نہ آنے والی رکاوٹوں کو قانون کے ذریعے ہٹانے کے طریقے ڈھونڈنا ہے ۔

اسی وجہ سے ہم نے اس ہال کا رخ کیا جہاں ’علاقائی، معاشی انضمام اور تنازعات کے موثر حل‘ کا موضوع زیر بحث تھا اور مقررین اپنے خطاب، ماہرانہ رائے اور مقالوں کے ذریعے سننے والوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ شیراز نامی ایک مقرر اپنے خطاب یا مقالے میں بتا رہے تھے کہ دراصل تنازعات میں ثالثی مسئلہ نہیں، کسی بھی ترقیاتی منصوبے کا کوئی بھی فریق تنازع پیدا کر کے اس کو تاخیر کا شکار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس سے منصوبے کی لاگت بھی بڑھتی ہے اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ۔ کہا گیا کہ پاک چین راہداری کے ذریعے دو بالکل مختلف کلچر آپس میں مل رہے ہیں اس کو بھی دیکھنا ہے، اسی وجہ سے اگر دونوں فریقوں کے چھوٹے انتظامی اسٹاف کی ان خطوط پر تربیت کر لی جائے تو کئی بنیادی اور معمولی قسم کے تنازعات جنم ہی نہیں لے سکیں گے ۔

اس کے بعد شنگھائی یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے جواد سرگانہ نے اپنا مقالہ پیش کیا ۔ انہوں نے ’ون بیلٹ ۔ ون روڈ‘ کی بات کرتے ہوئے چین کے تیس سالہ تنازعات کے حل کی مختصر تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی ۔ مقالے میں کیپٹالسٹ مارکیٹ اکانومی اور سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی پر ایک سرسری نظر ڈال کر سننے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ جواد سرگانہ کا مقالے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ہمارے ہاں جمہوریت اور اختیارات کی تقسیم کا نظام ہے جبکہ چین میں یکسر مختلف نظام ہے، وہاں کی سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی بھی ’چینی خصوصیات‘ کی حامل ہے، ان کا مقصد زیادہ منافع نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پیداوار ہے، آج ہم آنے والے تیس سال کے بارے میں پیش گوئی کر رہے ہیں کہ حالات کیا ہو سکتے ہیں ۔ مقالے میں کہا گیا کہ سرمایہ چین کا مسئلہ نہیں، وہ ان کے پاس بہت ہے، اس پر ان کی توجہ بھی نہیں، وہ زیادہ لوگوں کو روزگار اور انوالو کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاکہ خطے میں معاشی سرگرمی بڑھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تنازعات کی صورت میں چین ریاست کی سطح پر ردعمل ظاہر کرتا ہے اور فوری کرتا ہے، عالمی ثالثی فورمز پر بھی سرکاری حکام پرائیویٹ سرمایہ کار کو ساتھ لے جاتے ہیں، چین کسی بھی تنازعہ کو اپنی پالیسی اور معاشی پیداوار کے تناظر میں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے ۔ دوسری طرف عدالت کے فیصلے کے بعد بھی اس کی حتمی تشریح کا اختیار چین کی کمیونسٹ پارٹی ہی رکھتی ہے ۔ تاہم ثالثی، مصالحت اور گفت و شنید کے ذریعے کے ذریعے اپنے مقاصد کا حصول ہی بہتر اور درست طریقہ ہے جو اختیار کیا جاتا ہے ۔

کچھ دیر کیلئے دنیا نیوز کے رپورٹر عمران وسیم نے بلایا تو ہال سے باہر نکلا، اسی دوران سپریم کورٹ کے ایک جج بھی کمرے سے باہر نکل رہے تھے ۔ عمران وسیم نے ان سے پوچھا کہ سر، کیا ہو رہا ہے ۔ محترم جسٹس نے جواب دیا کہ آپ نے سنا نہیں، کتنی زبردست قسم کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ عمران وسیم نے نہ سمجھنے کے انداز میں کہا کہ سر، سمجھائیں نا ۔ انہوں نے کہا کہ چین میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی اہمیت نہیں، وہاں کی پارٹی کا حکم تسلیم کیا جاتا ہے ۔ عمران وسیم نے کہا کہ سر، میں اندر نہیں تھا ۔ میں نے کہا کہ سر، آپ جواد سرگانہ کے مقالے کی بات کر رہے ہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی ہی حتمی اختیار رکھتی ہیں ۔ محترم جسٹس مسکراتے ہوئے چلے گئے ۔ عمران وسیم کو بتایا کہ جناب، جسٹس کے طنز کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔

دوسری طرف حسن بخاری نامی ایک مقرر نے سی پیک کے ماحولیاتی اثرات پر بات کی ۔ (مجھے سمجھ نہیں آئی کہ چین کو پاکستان کے ماحول کو بچانے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ) ۔ اس کے بعد ظفر محمود نے شرکا کو بتایا کہ سی پیک پر پبلک سیمینار کرائے جائیں تاکہ عام لوگوں کو درست معلومات مل سکیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کیا ہے، ہمارے ملک میں فوج، حکومت اور دیگر اداروں سمیت ہر ایک اس کا کریڈٹ لینے میں آگے ہے، مگر معلومات کا یہ حال ہے کہ یہاں ایک مقرر نے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کو بھی سی پیک کا حصہ قرار دیا ہے حالانکہ وہ اقتصادی منصوبے کا کسی طور جزو نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دبئی میں تین ہزار چینی جبکہ پاکستان تیس ہزار چینی موجود ہیں، اسی طرح تقریبا اتنے پاکستانی طلبہ چین میں زیر تعلیم ہیں ۔ بتایا گیا کہ ساہیوال کول پراجیکٹ کو چینی ماہرین نے صرف ایک ماہ میں مکمل کیا جو ایک ریکارڈ ہے کیونکہ خود چین میں کوئی ایک منصوبہ بھی اتنی قلیل مدت میں آپریشنل نہیں ہوا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چینی انجینئرز جانتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ لوڈشیڈنگ اور توانائی بحران کا شکار ہیں ۔ انہوں نے انجینئرنگ کے ہزاروں پاکستانی طلبہ کو چھ سو ڈالرز معاوضے دے کر تربیت بھی فراہم کی ۔

عدالتی کانفرنس کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو عمران وسیم ایک سے دوسرے ہال کا رخ کرتے ہوئے جیو نیوز کی اینکر عائشہ بخش کو دیکھ کر رک گئے اور اپنا تعارف کرایا، پھر بتایا کہ یہ وحید مراد ہیں ۔ عائشہ بخش نے فورا کہا کہ ان کو تو میں پڑھتی رہتی ہوں، سپریم کورٹ سے بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ میں نے شکریہ ادا کیا، مگر عمران کو میری تعریف ’ہضم‘ نہ ہوئی اور بولے کہ یہ ’مسالہ‘ بھی ڈالتے ہیں ۔ (عمران وسیم اس وقت سپریم کورٹ سے سب سے پہلے خبر دینے والے رپورٹر ہیں) ۔ یہی تعریف عائشہ بخش کے سامنے بھی کی ۔

خیر عائشہ بخش سے اچھی گفتگو رہی ۔ وہ کافی محتاط تھیں کہ معلوم نہیں اسلام آباد کی راہداریوں میں کون سی بات کرنا چاہیے اور کون سی نہیں ۔ سنسر شپ پر بھی انہوں نے گفتگو کی اور پندرہ منٹ کی بات چیت میں میڈیا کی آزادی پر ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع ملا ۔

دوسرے ہال میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر صدارت ’مقدمات کو جلد نمٹانے کے طریقہ کار‘ کے عنوان کے تحت مباحثہ جاری تھا ۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عالمی ثالثی فورمز کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھائے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا عالمی ثالثی کے دو بڑے فورمز میں اپیل کا طریقہ کار ہے؟ ۔ ان فورمز کے فیصلوں پر عمل درآمد کا کیا طریقہ کار ہے؟ اور کیا یہ عمل کرنے کا یہ میکنزم کافی ہے؟ ان فورمز کے ججوں کو چننے کا طریقہ کار کیا ہے؟ ۔ ایک عالمی ثالثی فورم کے ستانوے فیصد جج یورپ سے ہوتے ہیں ۔ کیا پاکستان کے خلاف فیصلے اور امریکا کے خلاف فیصلے پر ایک ہی طرح عمل کرایا جا سکتا ہے؟ ۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر عدالت کا نظام کار بہتر بنایا جائے تو مقدمات جلد نمٹا کر عدالتوں کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ جسٹس آصف سعید نے اٹارنی جنرل کی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ کام تو وہی ہے مگر آپ نے دوسرے طریقے سے کرنے کا بتایا ہے، اس سے مجھے جسٹس خلیل الرحمان رمدے یاد آگئے، وہ پاکستان میں فوجداری مقدمات نمٹانے میں بہت بڑا نام ہیں ۔ ایک بار کسی طرح ان کے سامنے ایک سول مقدمہ (دیوانی) لگ گیا ۔ انہوں نے فائل دیکھ کر کہا اس میں مدعا علیہ کیوں پیش نہیں ہو رہا؟ بتایا گیا کہ اس کو نوٹس نہیں مل سکا ۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ علاقے کے ایس ایچ او مدعا علیہ کو لے کر آئے ۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اب مقدمہ تو سول نوعیت کا تھا مگر جج صاحب نے اس میں بھی فوجداری نوعیت کا حکم جاری کیا تو اگلے دن مدعا علیہ عدالت میں کھڑا تھا ۔

اس کے بعد سابق پولیس افسر شعیب سڈل نے فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اپنا تجربہ بیان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کے بارے میں میرا کچھ تجربہ ہے وہاں عرصہ گزارا ہے ۔ جاپان میں فوجداری مقدمات میں سزا ننانوے فیصد ہے، دس ہزار میں سے صرف تین مقدمات میں ملزم بری ہوئے ۔ اس کی وجہ جاپانی حکام نے یہ بتائی صرف وہی مقدمات عدالت بھیجے جاتے ہیں جن میں سزا کا یقین ہو ۔ شعیب سڈل نے کہا کہ یہی طریقہ کار اپنا کر عدالتوں پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے مگر پاکستان میں تو صرف ایف آئی آر ہی اب صٖفحات پر مشتمل ہوتی ہے ۔

کانفرنس میں عالمی قوانین کے ماہر راس مسعود نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا ۔ مگر ایک دلچسپ بات جو معلوم ہوئی کہ کچھ دوستوں کو خلائی مخلوق کے پیغام بھی موصول ہوئے تھے کہ ’سی پیک کے لیے عدالتی کانفرنس‘ کی کوریج کی جائے ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے