پاکستان پاکستان24

چیف جسٹس کا وزرائے اعلی سے مکالمہ

مئی 9, 2018 5 min

چیف جسٹس کا وزرائے اعلی سے مکالمہ

Reading Time: 5 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلی سے کمرہ عدالت میں مکالمہ کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ تجاویز دیں جن سے بلوچستان میں حالات کو بہتر کیا جا سکے ۔

سابق وزیراعلی عبدالمالک نے کہا کہ اگر ہم تجاویز دیں گے تو معاملہ سیاسی ہو جائے گا، اگر بلوچستان میں آزادانہ اور شفاف الیکشن کرائے جائیں تو معاملات بہتر ہو جائیں گے ۔ پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آزادانہ اور شفاف الیکشن کرانے میں ہمارا کوئی براہ راست کردار نہیں، تاہم دیکھیں گے اگر کچھ ہو سکا ۔

چیف جسٹس پوچھا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئین ہیں؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں آپ نے کیا اقدامات کیے؟ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے وزرائے اعلی سے کہا کہ بجٹ کا ایشو مت بتائیے گا کہ پیسے نہیں تھے، ہمیں تو بلوچستان کی بہت فکر ہے ۔ سابق وزیراعلی عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو صوبے میں شورش تھی، فرقہ وارانہ شدت پسندی اور قتل ہو رہے تھے، غیر فعال حکومت کو حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی، لا اینڈ آرڈر کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا اس لیے ترجیحات میں پہلے نمبر پولیس اور لیویز میں ریفامز لانا تھا، اصلاحات کیں اور پولیس کو دس ارب روہے دیے، 2013 سے 2105 تک جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ان دنوں ہزارہ برادری کے قتل عام میں کمی ہوئی؟ سابق وزیراعلی نے بتایا کہ 258 کلنگز کم ہو کر 48 پر آ گئی، جب اقتدار سنبھالا تو فرقہ واریت اور ٹارگٹ کلنگز سے ایک سال میں 248 افراد مارے گئے تھے، سابق آئی جی کو بلا کر پوچھ لیں میں نے پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں کی اس لیے امن قائم ہوا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ تعلیم کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کر دیا، اسکول بہتر بنانے کیلئے پالیسی بنائی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں چھ ہزار اسکولوں کی دیوار اور ٹائلٹ نہیں ہیں، پالیسی کے مطابق 100 اسکولوں کو سالانہ اپ گریڈ کریں گے تو 6 ہزار اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے میں تو 60 سال لگیں گے ۔ عبدالمالک بلوچ نے جواب دیا کہ اسکولوں کو بنانے کے لیے 62 ارب روپے چاہئیں اور بلوچستان کا کل بجٹ 42 ارب روپے ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کی سماجی ساخت بھی ایک مسئلہ ہے، ہماری حکومت نے دو میڈیکل کالج اور چھ یونیورسٹیاں بنائیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب یہی کہتے ہیں بجٹ نہیں ہے، کوئٹہ کے ہسپتالوں میں سی سی یو نہیں ہیں، کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہیں، ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کو دیکھ کر دکھ ہوا، جب میں نے دورہ کیا ہسپتالوں کا عملہ کئی روز سے ہڑتال پر بیٹھا تھا، آپ ان کے رہنما ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، بلوچستان کو جید لیڈر کی ضرورت ہے، آپ کے بعد زہری صاحب وزیراعلی بنے حکومت آپ ہی کی تھی تو تسلسل کیوں نہیں رہا؟ بتائیں صحت، تعلیم اور پانی کے مسئلے پر پانچ سال میں کیا کیا؟ پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ کو عہدہ سنبھالے 2 ماہ ہوئے ۔

عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے ہسپتالوں کے لیے 2 ارب روپے کے آلات خریدے، ہماری پہلی ترجیح امن و امان کا قیام تھا، نواب ثنا اللہ زہری کا سارا خاندان شہید ہو گیا، میرے خاندان کے لوگ مارے گئے، ہم نے سر ہتھیلی پر رکھ کر الیکشن لڑا اور اقتدار سنبھالا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بلوچستان گئے ہمیشہ تکلیف ہوتی تھی کہ وہاں کے اپنے لوگ کیوں نہیں، آئی جی پولیس بھی پنجاب سے اور چیف سیکرٹری بھی پنجاب سے ہوتا ہے ۔ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ابھی تک وہاں کے مقامی لوگوں کے پاس اختیار نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے ۔ کوئٹہ میں پانی ختم ہوتا جا رہا ہے اس کیلئے کیا کیا؟ سابق وزیراعلی نے کہا کہ روم کے غلاموں کی طرح سر جھکا کر سترہ سترہ گھنٹے کام کیا ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں ہم ان حالات میں کیا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں؟ کیا ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے؟ سابق وزیراعلی نے کہا کہ بالکل آپ کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آپ مجھ سے ایک گھنٹہ کم کام کرتے ہیں ۔ عبدالمالک بلوچ نے مسکرا کر کہا کہ پھر موقع ملا تو آپ سے دو گھنٹے زیادہ کام کروں گا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ضلع گوادر اور کیج جہاں سے میرا تعلق ہے وہاں اب بھی شورش ہے مگر اس کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لیویز کا سربراہ کون ہے؟ ایف سی کس کی ماتحت ہے؟ ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ میجر جنرل ایف سی کے سربراہ ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ حاضر سروس ہیں؟ اس کو عدالت بلائیں گے ۔  چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بتائیں حل کیا ہے؟ عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ حل ہے مگر پھر کہا جائے گا کہ معاملہ سیاسی ہے، حل بلوچستان میں  غیر جانبدار، آزاد اور شفاف الیکشن کرانا ہیں، جو آج تک نہیں ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق میں بھی آپ کی ہی اتحادی حکومت ہے تو فنڈز کیوں نہیں ملے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پانی کی قلت ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے یہ بتائیں؟ کوئی چھوٹی بڑی واٹر اسکیم متعارف کرائی؟ سابق وزیراعلی ثنا اللہ زہری نے کہا کہ کوئٹہ میں شام ۵ بجے کے بعد کوئی باہر نہیں نکلتا تھا، ہم سے جتنا ہو سکا کیا ۔ کوئٹہ سے باہر سریاب روڈ سے جاتے ہوئے لوگوں نے علاقے کو غزہ کی پٹی کا نام دیا تھا، شہر سے ۵ کلومیٹر باہر کوئی نکل نہیں سکتا تھا ۔ اب ہم حکومت چھوڑ چکے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوڑ چکے تو پوچھا نہ جائے، اگر کسی نے کچھ نہیں کیا تو اس پر ذمہ داری بھی عائد کرنا ہے، کیا ذمہ داری عائد نہیں ہونا چاہیئے؟ ثنا اللہ زہری نے کہا کہ بالکل ہونا چاہیے ۔ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہمارا موقف وہی ہے جو آپ کو بتا دیا ہے، تحریری جواب بھی دے دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا موقف یہی ہے کہ سب اچھا ہے، بتا دیں کہ پانچ سال میں پانی کا مسئلہ حل ہوا؟ خدارا جا کر دیکھیں حالات کیا ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ میں پانی ختم ہو رہا ہے، بلوچستان صوبے میں پانی ختم ہو رہا ہے، پانی کی قلت ختم کر دیتے لوگوں کو پانی فراہم کر دیتے، ہمیں بتائیں عدلیہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتی ہے ۔ ثنا اللہ زہری نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا عدالت انکی ستائش کرے، جن لوگوں نے کام نہیں کیا انکی سرزنش کریں ۔ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں غیر جانبدارانہ الیکشن ہونا چاہیے ۔ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ پانی کی قلت کے حوالے سے اربوں روپے درکار ہیں، بڑے اور چھوٹے ڈیموں پر کام شروع کیے تھے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہی صورتحال رہی تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ ڈیمز بن گئے ہیں؟ کیا یہ ڈیمز صرف کاغزات تک محدود ہیں؟۔ عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ کچھ ڈیمز مکمل اور کچھ پر کام ہو رہا ہے، کوئٹہ کا ڈیم 35 فیصد مکمل ہو چکا، گوادر کا ڈیم کا تعمیراتی کام مکمل ہو چکا،

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام معاملات کو اس وقت زیر بحث نہیں لا سکتے، کل رات کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کر لیتے ہیں، جنہوں نے کام نہیں کیا ان پر ذمہ داری عائد کرنا پڑے گی، عبدالمالک نے کہا کہ ذمہ داری فکس کرنے کی عدالت کی بات سے موقف ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ حالات کی بہتری کے لیے سپورٹ دینا چاہتی ہے ۔ ثنااللہ زہری نے کہا کہ عدالت تعریف بھی کرے، بلوچستان پتھر کے دور میں چلا گیا تھا، میرے اور ڈاکٹر عبدالمالک کے آنے کے بعد حالات بہتر ہوئے، الیکشن شفاف ہونے کے لیے ہدایات ہونا چاہئیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن میں ہمارا کوئی کردار ہے تو دیکھیں گے ۔

عدالت نے کہا کہ دس مئی کو شام سات بجے کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کریں گے، سابقہ وزرائے اعلی سفارشات کے ساتھ حاضری یقینی بنائیں ۔ عدالت نے بلوچستان میں تعینات فرنٹیئر کور کے آئی جی اور پولیس کے سربراہ کو بھی طلب کر لیا ہے ۔

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے