پاکستان پاکستان24

خواجہ آصف کو تنخواہ کس خدمت پر؟

مئی 21, 2018 3 min

خواجہ آصف کو تنخواہ کس خدمت پر؟

Reading Time: 3 minutes

سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نا اہلی کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں ان کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ 31 مئی کو عثمان ڈار کے وکیل سکندر بشیر دلائل دیں گے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کیا خواجہ آصف کو دبئی میں پچاس ہزار درہم بلاوجہ ملتے تھے؟

ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ۔
پاکستان 24 کے مطابق وکیل منیر ملک نے بتایا کہ تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں، رٹ پٹیشن میں دبئی بینک اکاونٹ چھپانے کا الزام نہیں تھا، یہ الزام بعد میں جواب الجواب کے وقت لگایا گیا ۔ وکیل منیر ملک نے کہا کہ غیر ملکی آمدن پر الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہو چکا، طے شدہ معاملے پر دوبارہ قانون کے مطابق درخواست نہیں دی جا سکتی ۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا خواجہ آصف دبئی کمپنی کے ملازم تھے، منیر اے ملک نے بتایا کہ خواجہ آصف کمپنی کے ملازم اور تنخواہ لے رہے تھے ۔

جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ یہ بتائیں کن حالات میں 62 ون ایف لگایا گیا ۔ وکیل منیر ملک نے کہا کہ خواجہ آصف پر کرپشن کا الزام نہیں ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الزام کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا ہے ۔ پاکستان 24 کے مطابق وکیل منیر اے ملک نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں دبئی بنک اکاؤنٹ اور تنخواہ چھپانے کو بدنیتی قرار دیا، عدالت نے اس بنا پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق کیا ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پہلے نو ہزار درہم ملتے تھے جو بعد میں پچاس ہزار درہم ہوگئے ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے پوچھا کہ کیا تنخواہ میں اضافہ کارکردگی کی وجہ سے ہوا یا خواجہ آصف کا عہدہ بڑھنے کی وجہ سے؟ کیا جس کے پاس خواجہ آصف ملازمت کرتے تھے انکا پاکستان میں بھی کاروبار ہے ۔

منیر اے ملک نے بتایا کہ مشاورت کا معیار بہتر ہونے پر تنخواہ میں اضافہ ہوا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے پوچھا کہ کیا خواجہ آصف عہدے کا غلط استعمال نہیں کر رہے تھے، پاکستان 24 کے مطابق وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ میں ایسا کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ خواجہ آصف نے کاغذات نامزدگی میں تنخوا صفر بتائی، منیر اے ملک نے جواب دیا کہ بتائی گئی مجموعی رقم میں خواجہ آصف کی تنخواہ بھی شامل تھی، کاروباری آمدن زیادہ ہونے پر پیشہ کاروبار بتایا، خواجہ آصف دبئی میں ہوٹل کا بزنس ختم کر کے پیسہ پاکستان لائے، 2013 سے قبل خواجہ آصف کی غیر ملکی آمدن ہوٹل اور ملازمت سے تھی، 2013 کے بعد خواجہ آصف کی غیر ملکی آمدن صرف تنخواہ سے ہے ۔ پاکستان 24 کے مطابق جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ خواجہ آصف کو 2010 میں تین کروڑ 40 لاکھ کی غیر ملکی ترسیلات موصول ہوئی، منیر اے ملک نے بتایا کہ خواجہ آصف نے اس آمدن کو اپنے گوشواروں میں ظاہر کیا، دبئی میں ہوٹل کا 1980 سے کاروبار ہے، خواجہ آصف 2010 میں دبئی میں ملازمت اور ہوٹل کا کاروبار کرتے تھے، گوشواروں میں خواجہ آصف نے اپنی آمدن کے زرائع ظاہر کیے ہیں، پیشے کے معاملے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق سمجھ سے بالا تر ہے ۔

جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا ہائی کورٹ نے پیشہ کے لفظ پر باسٹھ ون ایف لگایا، منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کا اطلاق پیشہ کاروبار بتانے پر ہوا ۔ جسٹس عمر عطابندیال پوچھا کہ دبئی کا بینک اکاؤنٹ ظاہر نہ کرنے کے معاملے پر کیا موقف ہے، پاکستان 24 کے مطابق منیر اے ملک نے کہا کہ 2010 میں خواجہ آصف نے دبئی نیشنل بینک میں اکاونٹ کھولا، پانچ ہزار درہم سے یہ اکاؤنٹ کھولا گیا، دو ہزار پندرہ میں اکاؤنٹ بند ہو گیا، الیکش کمیشن کے گوشواروں میں دبئی اکاؤنٹ کو ظاہر کردیا گیا، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ اس اکاؤنٹ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا ۔

وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ قانون کسی رکن اسمبلی کو ملازمت کرنے سے منع نہیں کرتا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بھاری بھر کم تنخواہ اور اقامہ بلا وجہ تو نہیں دیا جاتا ۔ منیر اے ملک نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت خواجہ آصف نہ ایم این اے تھے اور ہی وفاقی وزیر ۔ پاکستان 24 کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دوبارہ حکومت ملی تو ہو سکتا ہے خواجہ آصف دوبارہ وفاقی وزیر ہوں، کچھ فائدہ دیکھ کر ہی اتنا بھاری معاوضہ دیا جاتا تھا ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ خواجہ آصف کے ہائی کورٹ اور یہاں کے بیان میں تضاد لگتا ہے ۔ وکیل نے بتایا کہ دبئی قانون کے تحت ملازمت کے معاہدے ضروری ہیں، ملازمت کے معاہدے کا فارم عمومی نوعیت کا ہے ۔

سپریم کورٹ نے خواجہ آصف نااہلی کیس کی سماعت اکتیس مئی تک ملتوی کر دی،آئندہ سماعت پر عثمان ڈار کے وکیل سکندر بشیر مہمند دلائل دیں گے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے