کالم

عوام اتنے بے وقوف نہیں

جون 7, 2018 4 min

عوام اتنے بے وقوف نہیں

Reading Time: 4 minutes

میاں کاشان

میری اس ناقص سی رائے سے بہت سے لوگ اختلاف کریں گے اور وہ اس کا مکمل حق بھی رکھتے ہیں لیکن میں کچھ حقائق عوام کے سامنے رکھتا ہوں، فیصلہ عوام خود کر لیں _ میری صرف یہ گذارش ہے کہ جسے میں کچھ اعدادوشمار اور دلائل کے ساتھ ایک رائے پیش کرنے لگا ہوں تو برائے مہربانی میری تصحیح بھی دلائل سے کیجیے گا نہ کہ تنقید برائے تنقید اور بغض سے ۔شکریہ۔
موجودہ نگران حکومت کے دور میں سرکاری طور پر بجلی کی پیداوار کا جو ڈیٹا جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق بجلی کی اس وقت اوسط پیداوار 18ہزار 9 سو 75 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ اوسط طلب کا اندازہ تقریبا 24 ہزار میگا واٹ ہے ۔ اس حساب سے شارٹ فال تقریبا 5 ہزار میگا واٹ کا ہے۔ اگر گزشتہ برس اسی دورانیے کی بات کر لی جائے تو بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی شارٹ فال تقریبا اتنا ہی تھا جتنا آج ہے۔
ملک میں تین طرح کے بجلی کے صارفین ہیں ، پہلے گھریلو صارفین یعنی ہم عوام، دوسرے صنعتی صارفین اور تیسرے خواص صارفین ۔ اب ذرا ان کی مزید تقسیم کر لی جائے تو سابقہ حکومت کے بقول گھریلو صارفین کی ایک کیٹیگری وہ ہے جہاں سے واجبات کی وصولیاں تسلی بخش ہیں اور سابقہ حکومت نے ان صارفین پر لوڈ شیڈنگ کا بوجھ کم سے کم لادنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ گھریلو صارفین کی دوسری کیٹیگری میں وہ صارفین شامل ہیں جن کے علاقوں سے واجبات کی وصولی غیر تسلی بخش یا دوسرے لفظوں میں لائن لاسز زیادہ ہیں تو سابقہ حکومت نے ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ رکھا ہوا تھا۔ شاید اسی بنیاد پر سندھ اور خیبرپختونخوا کے بھائی اکثر نالاں ہی دکھائی دیے تھے اور بلوچستان بے چارے کا تو کیا ہی کہنا اس پورے صوبے کو تو ویسے ہی مجموعی پیداوار کی صرف پانچ فیصد بجلی دی جاتی تھی۔ اب آتے ہیں صارفین کی دوسری قسم کی جانب، یہ صنعتی صارفین کہلاتے ہیں ۔ سابقہ حکومت کے بقول اس سیکٹر میں زیرو لوڈ شیڈنگ کی جاتی تھی مطلب اس سیکٹر میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور صارفین کی تیسری قسم میں خواص صارفین یعنی دفاعی وعسکری تنصیبات، وہ ادارے جن کے امور میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے خلل پڑ سکتا ہے اور وہ سیکٹر جن کی بجلی بند کرنے کی ہمت کسی بھی ڈسکو (بجلی کی تقسیم کار کمپنی ) میں نہیں ہوتی۔ امید ہے ان خواص صارفین کے بارے میں آپ سب سمجھ ہی گئے ہونگے۔

واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق خواص صارفین کی مجموعی ضرورت اور سپلائی تقریبا 4 ہزار میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے۔
اب آتے ہیں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی جانب جو گزشتہ پانچ سال سے کم وبیش شدید گرمی ہی کے موسم میں آ رہا ہے۔ ہر رمضان سے قبل گزشتہ حکومت ایک ایڈوائزری جاری کرتی تھی جس کے مطابق خواص صارفین کو ہمیشہ کی طرح لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ دیا جاتا تھا، صنعتی صارفین کو رات کی شفٹ یعنی آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا بتا دیا جاتا تھا اور گھریلو صارفین کیلئے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سحر و افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ جس پہ تقریبا اسی سے نوے فیصد تک عملدرامد بھی کیا جاتا تھا۔ گزشتہ برس بھی تقریبا انہی دنوں میں ماہ مبارک چل رہا تھا اور لوڈ شیڈنگ کی صورتحال قدرے بہتر ہی تھی ۔ اعدادو شمار کے مطابق بجلی کی اوسط پیداوار گزشتہ برس بھی تقریبا 18 ہزار 500 میگا واٹ ہی کے لگ بھگ تھی۔ یہ تو تصویر ہو گئی گزشتہ برسوں کی اب چلتے ہیں رواں ماہ کی جانب تو جناب جیسا کہ پہلے ذکر آیا ہے کہ اس وقت ملک میں بجلی کی اوسط پیداوار 18 ہزار 975 میگا واٹ ہے یعنی تقریبا گزشتہ برس کے برابر ہی کہہ لیں ۔ لوڈ شیڈنگ سے متعلق ایک ایڈوائزری رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اس سال بھی جاری ہوئی تھی جو بالکل نقل بمطابق ماضی ہی تھی، خواص صارفین کو لوڈ شیدنگ سے استثنیٰ ہی ہے لیکن ان کی طلب اور ضرورت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ بھی نہیں ہوا ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بجلی نہ آنے کا شور بھی گزشتہ برس جیسا ہی ہے ، بلوچستان کو بھی ایک بھی واٹ اضافی بجلی نہیں دی گئی تو جناب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جناب موسم گزششتہ برس جیسا، بجلی کی پیداوار سرکاری اعداوشمار کے مطابق گزشتہ برس جتنی ، دوسرے صوبوں لوڈ ہوبہو گزشتہ برس جتنی، خواص صارفین اور صنعتی صارفین کیلیے وہی گزشتہ برس جیسی ایڈوائزری، تو جناب ایسا کیا مختلف ہو گیا ہے کہ پنجاب میں خصوصا سحرو افظار کے اوقات میں خصوصا ستر سے اسی فیصد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن گیا ہے۔ دن بھر میں شہری علاقوں میں 12 سے 14 گھنٹے کی جبکہ دیہی علاقوں میں 14 سے 16 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے؟؟

کیا ن لیگ حکومت کسی قسم کی مصنوععی بجلی پیدا کرتی تھی جو صرف پنجاب کے صارفین کو دی جاتی تھی لیکن اس کو نیشنل گرڈ کی مجموعی پیداوار میں نہیں دکھایا جاتا تھا؟؟ اپوزیشن کے رہنماؤں کے مطابق دوسرے صوبوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ تھا ۔ وہ بالکل درست فرماتے تھے اور سابقہ حکومت بھی اس کے جواب میں ایک توجیح پیش کرتی تھی وہ بھی یقینا قابل فہم تھی۔ لیکن کیا اب دوسرے صوبوں میں لوڈ شیڈنگ میں کمی آ گئی ہے؟؟ اس کا جواب ہے نہیں ۔ ( آپ درستگی فرما سکتے ہیں )۔ کیا اس سال بجلی کی پیداوار میں یک دم کوئی بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی ہے؟؟ جواب ہے نہیں۔ تو حضور یکا یک ملک بھر میں عموما اور پنجاب بھر میں خصوصا لوڈ شیڈنگ کا دورانہ یک لخت 12 سے 14 گھنٹے تک کیسے پہنچ گیا؟؟ جناب بجلی کی مصنوعی پیداوار تو شاید ممکن نہیں ہے لیکن بجلی کی مصنوعی قلت اور لوڈ شیڈنگ یقینا ممکن ہے۔ اوراگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟؟؟ اس پہ محض اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ سجنوں ایسا نہ کرو: عوام اتنی بھی بے قوف نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

Array
One Comment
  1. Muhammad Asif Murtaz
    محترم وحید مراد صاحب میں سعودی عرب میں مقیم ایک کیمیکل انجنئیر ہوں۔ وقت ملے تو چند لفظوں پر لائنیں کھینچتا رہتا ہوں۔ میری فیس بک آئی ڈی ہے۔ اگر کچھ کمپائیل کر کے بھیجوں تو آپ کو ویب سائٹ کے لیے اسے پرکھا جا سکتا ہے ؟ مثلا ریحام بی بی کی کتاب کے حوالے سے میں نے فیس بک اکاونٹ پر کچھ لکھا تھا، جو کچھ یوں ہے۔ ریحام خان کی کتاب، خان صیب اور رسیدیں(1/5) ۔ ابھی تک مذکورہ کتاب منظر عام پر نہیں آئی، اس لیے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ پی ٹی آئی حامیون کی زبانی یہ پتہ چل رہا ہے کہ شاید اس میں اخلاق سے گرے ہوئے الزامات ہیں۔ الزامات چاہے جس نوعیت کے بھی ہوں، قابل مذمت ہوتے ہیں، جب تک الزام لگانے والے کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں۔ اس پر مستزاد، تمام الزامات پبلک کرنے والے نہیں ہوتے، بہتر صورت یہی ہوتی ہے کہ آپ ان کو لیکر عدالت چلے جائیں۔ سمجھ اس بات کی نہیں آر ہی، اخلاقی یا اخلاق باختہ الزامات پر کوئی اور سیخ پا ہو تو ہو، اپنے خان صاحب؟ خان صاحب تو گالم گلوچ کے موجد ہیں۔ چور، ڈاکو، لٹیرا، لعنتی، الغرض کونسا الزام ہے جو مخالفین پر، مردو خواتین، نہیں لگایا، شواہد کی باری آئی تو کہہ دیا بار ثبوت مجھ پر نہیں۔ ۔ چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے۔ یہ موضوع اور اس سے ملتے جلتے موضوعات سے ہمیشہ کنی کترا کر گذر جانا ہی مناسب سمجھا ہے۔ کہ گند میں پتھر اچھال کر کسی بھلائی کی توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی۔ جب حقائق کو محض عددی برتری، مضبوط میڈیا ٹیم اور اندھی عقیدت کے زعم میں روندنے کی کوشش کی جائے تو بالکل خاموش رہنا بھی نا مناسب ہے۔ ۔ ریحام بی بی کو ایک طرف رکھیے کہ وہ خانگی مسائل پر بات کر رہی ہوں گی، عائشہ گلا لئی؟ فرض کیجیے عائشہ گلا لئی نے بھی سب کچھ کسی کی ایما پر کیا، کسی بہت بڑی منفعت کے لیے غلط بیانی کی، وہ تو کہہ رہی ہیں کہ رسیدیں نکالو یعنی بلیک بیری کا فرانزک کروا لو اور کر دو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی؟ یہ معیار کس نے مقرر کیا؟ ایک بڑی سیاسی شخصیت پر خاتون اس قسم کے الزامات لگائے اور آپ کنی کترانے کی کوشش کریں تو یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ سب کچھ اتنا اجلا نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ اب ریحام بی بی کے کیس کی طرف آئیے۔ پہلی بات اگر یہ الزامات کا پلندہ ہے تو آپ کی طرف سے اتنا شور کیوں؟ پہلی دفعہ ہو گا کہ کتاب مارکیٹ میں آئی نہیں اور آپ کے اوسان خطا۔ پاکستان کے حالات میں یہ طے ہے کہ اس طرح کی کتابیں آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتی کہ آپ کے چاہنے والے خود ہی آپ کی ایما پر جواز تلاش کر لیتے ہیں اور اس طرح کی کتابیں قصہ ماضی بن کر رہ جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ سے بازار حسن تک اس امر کی اچھی مثال ہے۔ ۔ لوگوں کے بولنے پر پابندی عائدکر کے آپ کونسے مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ آج کے زمانے میں یہ ممکن بھی ہے؟ ریحام خان کا ریسپانس دیکھیں اور پی ٹی آئی کی صفوں میں برپا ارتعاش دیکھیں، یہ سب نارمل نہیں ہے۔ کتاب کے مندرجات تو کتاب پبلش ہونے کے بعد ہی پتہ چلیں گے، جو کہانی پی ٹی آئی کے لوگ لکھ رہے ہیں، سر عام، سوشل میڈیا ایک طرف مین سٹریم میڈیا پر جس طرح کی غلاظت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، کتاب میں اس سے بڑھ کر کچھ ہو سکتا ہے؟ ۔ حمزہ علی عباسی نے اپنی طرف سے حد کر دی، اور کہہ دیا کہ ریحام خان منشیات کی عادی اور اس کا ایک ناجائز بیٹا بھی ہے۔ جوابا ریحام بی بی نے ایسا مہلک وار کیا کہ بھاگتے ہی بنی۔ ریحام کا کہنا تھا، جس بچے کی آپ بات کر رہے ہیں، مجھے اس کے پاس لے چلیں یا اسے میرے سامنے لے آئیں۔ بغیر ڈی این اے کے اسے اپنا لوں گی۔ رہی بات منشیات استعمال کرنے کی پہلے بلڈ ٹیسٹ میرا کروائیں پھر اپنے لیڈر کا۔ یعنی رسیدیں کڈو۔ کیا ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، اندھا دھند دفاع کرنا؟ جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، کے جن پیروں کی خاک کی خاک کے سے بھی میں کوسوں نیچے ہوں، نے بیعت لیتے ہوئے فرمایا۔ مفہوم۔ جب تک میں قرآن و سنت پر چلوں میری پیروی کرنا، اگر انحراف کروں تو مجھے پکڑ لینا۔ اسی طرح کرتے کا حساب لینے والی بات تو زبان زدو عام رہتی ہے۔ تو کیا ایک نازک معاملے میں ہم اپنے لیڈر سے کہی بھی نہیں کہہ سکتے کہ اپنے ہی مقرر کردہ پیمانے پر رسیدیں نکالو؟ یعنی آپ نے خاتون پر الزام لگایا، وہ فورا کہتی ہے ٹیسٹ کروا لو، اور آپ سوشل میڈیا ٹیم کو ہر قسم کی اخلاقیات سے بری کر کے اس کے پیچھے لگا دیتے ہیں تو پھر کیوں نہ سوچا جائے کہ سب کچھ اتنا اجلا نہیں جتنا دعوی کیا جاتا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے