کالم

طیبہ تشدد، سابق جج کی سزا میں اضافہ

جون 11, 2018 4 min

طیبہ تشدد، سابق جج کی سزا میں اضافہ

Reading Time: 4 minutes

اسلام آباد ہائی کورٹ سے

اویس یوسف زئی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں وفاق کی انٹراکورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کی سزا ایک، ایک سال سے بڑھا کر تین، تین سال قید کر دی ہے جبکہ 50،50 ہزار روپے جرمانہ کے ساتھ اب پانچ لاکھ روپے طیبہ کو ادا کرنے کا بھی حکم سنایاہے ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نےطیبہ تشدد کیس میں انٹراکورٹ اپیلوں کا فیصلہ سنا دیا۔مجرمان کی جانب سے سزا کاالعدم قرار دینے کی اپیل مسترد جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق محمود جہانگیری ایڈووکیٹ کے ذریعے وفاق کی جانب سے سزا میں اضافے کے لئے دائر انٹراکورٹ اپیل منظور کر لی گئی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق پر مشتمل سنگل بنچ نے بطور ٹرائل کورٹ راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو سنائی گئی ایک، ایک سال قید کی سزا تین، تین سال قید میں تبدیل کر دی ۔دونوں مجرمان کے خلاف شواہد چھپانے اور غلط معلومات دینے کی دفعات کا اضافہ کرتے ہوئے مزید چھ ماہ قید کی سزا کا حکم بھی سنایا۔ 50-50ہزار روپے جرمانہ جبکہ 5لاکھ روپے ازالے کی رقم کے طور پر طیبہ کو ادا کرنے کا حکم بھی سنایا۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں مجرمان کو مزید دو ، دو ماہ قید کاٹنا ہو گی۔ راجا خرم علی خان اور اہلیہ ماہین کو مجموعی طور پر ساڑھے تین سال قید کی سزا سنائی گئی مگر دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی اور تین سال میں ختم ہوں گی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کمزور اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے تحفظ میں ناکام ہوا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خبر چلنے کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا جس کے بعد کیس میں کارروائی کو آگے بڑھایا گیااورمیڈیکل بورڈ تشکیل دے کر باقاعدہ تحقیقات کا آغاز ہوا۔ کریمنل جسٹس سسٹم فعال کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ۔ معاشرے کے پسے ہوئے اور مراعات حاصل کرنے والے طبقے میں فرق نے قانون کی حکمرانی پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو بچی کا ویڈیو بیان ریکارڈ کرانے کے معاملے پر انکوائری کی ہدایت کر دی۔ فیصلے میں لکھا کہ ایس ایچ او تھانہ آئی نائن انسپکٹر خالد اعوان نے شکایت ملنے پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ بچی کو ہسپتال لے جانے کے بجائے اس کا بیان قلمبند کیا۔بچی کے بیان کے دوران وہاں پر موجود خاتون مداخلت کرتی رہی اور من پسند جوابات حاصل کرنے کے لیے مخصوص سوالات پوچھے گئے۔ بچی کا پولیس اسٹیشن اور ہسپتال میں دیا گیا ، بیان مجسٹریٹ کے سامنے بیان سے مختلف تھا۔ فیصلے کے بعد راجا خرم علی خان کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا ۔

سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی خان کی کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ 27 دسمبر2016کو معاملہ سامنے آیا اور29 دسمبر 2016 کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے مبینہ طور پر تشدد کی شکار کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو پولیس نے بازیاب کرایااور بعد ازاں راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔3جنوری2017کوکمسن ملازمہ کے والد نے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا۔4جنوری2017کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا۔8 جنوری 2017کو طیبہ اور اس کے والدین تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے جس کے بعد تینوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔12 جنوری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے راجا خرم علی خان کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روک دیا۔راجا خرم کو تاحکم ثانی اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی(او ایس ڈی)کام کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔30 جنوری2017کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کو منتقل کیا تاکہ وہ خود فیصلہ کرے کہ ٹرائل کس کے پاس جانا چاہئے۔10 فروری2017 کوطیبہ کے والد نے ملزمان کو معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرایا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود نے جج راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔آٹھ مارچ2017کو سپریم کورٹ نے مجسٹریٹ کی عدالت میں طیبہ تشدد کا ٹرائل روکنے کاحکم دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو مقدمہ منتقل کرنے سے متعلق 15 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت جاری کی۔24 مارچ2017کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل سیشن کورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ منتقل کرنے کا حکم دیا فیصلہ 17 مارچ محفوظ کیا گیا تھا ۔18مئی2017کو جج راجا خرم نے صلح نامہ مسترد کر کے ملزمان پر فرد جرم کے 16 مئی 2017 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔29 مئی 2017 کو جسٹس محسن اختر کیانی نے طیبہ تشدد کیس سننے سے معذرت کر لی۔دو جون2017کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیا بنچ تشکیل دے دیا جس کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت شروع کی۔9 جنوری2018کوچیف جسٹس سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں فریقین کے درمیان ہونے والے راضی نامے کو مسترد کرتے ہوئے استغاثہ کو پندرہ فروری تک شواہد مکمل کرنے کا حکم دیا۔مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔گواہوں میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے۔27 مارچ کو ٹرائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو آج17اپریل کو سنایا گیا ۔ فیصلے میں راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک سال قید اور 50-50ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ اسی فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی گئی تھیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے