کالم

انتخابات میں کون جیتے گا؟

جون 18, 2018 5 min

انتخابات میں کون جیتے گا؟

Reading Time: 5 minutes

عمار مسعود

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سیاسی طورپر بہت خوش قسمت آدمی ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے اخبارات نکال کر دیکھ لیں۔ کون کون سا الزام ہے جو نواز شریف پر نہیں لگا۔ ایک سو چھبیس دن جاری رہنے والے دھرنے میں کون سی گالی ہے جو نواز شریف کو نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے وہ الزام لگے جن کو وقت نے صرف وٹس ایپ کی افواہیں ثابت کیا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کا نعرہ لگا مگر ابھی تک ایک پائی بھی چوری کی ثابت نہیں ہو سکی۔ گھر والوں کو گالی دی گئی۔ بیٹی کے نام کے طعنے دیئے گئے۔ بائی پاس آپریشن کو جعلی قرار دیا گیا۔ کینسر کی آخری سٹیج پر اہلیہ کی بیماری کو بہانہ قرار دیا گیا۔ کبھی قومی اسمبلی میں جواب دینا پڑا، کبھی عدالتوں میں پیش ہونا پڑا، کبھی بیٹے کی تصویر لیک کی گئی، کبھی ڈان لیکس میں قریبی ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کبھی غدار کا الزام لگا کبھی توہین مذہب کا مرتکب ٹھرایا گیا۔ کبھی بھارت کے ساتھ کاروبار کے طعنے دیئے گئے ۔ کبھی گورنس کے ایشو پر انصاف کے در بلا لیا گیا۔ کبھی وزارت عظمی سے نااہل کر دیا گیا ،کبھی پارٹی کی صدارت سے محروم کر دیا گیا۔ کبھی کبھی ملازمتوں میں اقرباء پروری پر پرسش ہو ئی ، کبھی چوہدری نثار روٹھ گئے۔ کبھی کسی جلسے میں جوتا پھینکا گیا اور کبھی قریبی ساتھی پر گولی چل گئی۔ کسی دوست کے منہ پر سیاہی مل دی گئی، کسی کو برخواست کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود نواز شریف آج بھی پاکستانی سیاست میں راج کر رہے ہیں۔ کوئی ٹاک شو انکے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، عدالت کا کوئی فیصلہ انکے فیصلے کے ذکر کے بغیر نافذ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کا کوئی اجلاس انکے ذکر کے بغیر مکمل نہِں ہوتا، مخالف سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد انکا نام لئے بغیر عمل پذیر نہیں ہوتا۔ انتخابات کا ذکر بھی انھی کے نام سے اینکر حضرات شروع کر تے ہیں اور کالم نگاروں کی تجزیوں کی تان بھی نواز شریف پر ٹوٹتی ہے۔ خبر بھی نواز شریف کی اہم ہوتی ہے، جلسہ بھی نمایاں ہوتا ہے، بیان بھی اثر پذیر رہتا ہے۔نواز شریف بحیثیت سیاستدان دو ہزار تیرہ سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ زیادہ اثر پذیر ہو رہے ہیں۔
اس سارے بیان سے نواز شریف کی بڑائی مقصود نہیں ہے بلکہ ان قوتوں کی حماقت اور نااہلی کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو مائنس نواز کا فارمولا لے کر منظر عام پر آئی تھیں۔ اگر نواز شریف آج پہلے سے زیادہ مقبول ہیں اور اس ملک کی سیاست میں سب سے حتمی رائے رکھتے ہیں تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ان قوتوں کے لِئے جو گذشتہ پانچ سال سے نواز شریف کی تضحیک کے مشن پر تھیں۔ بجائے اس کے کہ ان پانچ برسوں میں یہ قوتوں اپنی کوشش ناتمام پر شرمسار ہوں یہ قوتیں ہر دفعہ ایک نیا الزام لے کر سامنے آتی ہیں جو چند دنوں میں ہوا ہو جا تا ہے۔طعنہ دینے والوں کے لئے طعنہ بن جاتا ہے۔
اس سرخروی میں نواز شریف کی عقلمندی سے زیادہ ان قوتوں کی حماقتیں پوشیدہ ہیں جو اس ایجنڈے پر دو ہزار تیرہ سے فائز ہو گئی تھیں۔ ان کی نااہلی نے نواز شریف کا رتبہ زیادہ بلند کیا ہے۔ پانچ سال میں عمران خان نے ہر وہ طریقہ اختیار کر لیا جو کسی کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پانچ سالوں کے بعد اگر ہم منظر نامے کو دیکھیں تو عمران خان اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور نواز شریف کی شہر ت کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔
مائنس ون کا فارمولہ اس ملک میں اس وقت تک کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک عوام کسی شخص یا جماعت کو مائنس کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ اس عوامی فیصلے سے پہلے ارباب بست کشاد چاہے ہرروز ہر چینل پر پروگرام کروائیں، سارے اخباروں میں ساری سطریں نواز مخالف لکھوائیں۔ جب تک مائنس ون کی آواز عوام کی طرف سے نہیں آئے گی کچھ نہیں بدلے گا۔
پیپلز پارٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ یہ جماعت وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔ دانشوروں اور جمہوریت پسندوں کا گڑھ مانی جاتی تھی۔ کوئی غیر جمہوری قوت اس کو ختم نہیں کر سکی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا جنازہ خود اٹھایا ہے۔ اسے کسی اور کے کاندھے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس لئے کہ اس دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کے لئے مائنس ون کی آواز عوام میں سے آئی تھی۔
نواز شریف کی موجودہ سیاسی پوزیشن کا سہرا دو باتوں کو جاتا ہے۔ ایک تو غیر جمہوری قوتوں کی جلد بازیوں اور حماقتوں نے نواز شریف کے بیانیئے کو تقویت دی اور دوسری خوش بختی یہ ہوئی کہ نواز شریف کو عمران خان جیسی اپوزیشن نصیب ہوئی۔ ان پانچ سالوں میں جو جو کچھ عمران خان نے کہا آخر میں اس کے برعکس عمل کرنا پڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہی میڈیا جو گذشتہ پانچ سال عمران خان کے گن گاتا رہا وہی میڈیا اب عمران خان کی لن ترانیوں سے اکتا گیا ہے۔ وہی عمران خان جو کبھی نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے اب دو نہیں ایک پاکستان کے مطالبے پر اتر آئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ اب انہیں سجتا نہیں، تین سو پچاس ڈِیم بنانے کا وعدہ اب کر نہیں سکتے، کے پی کے سے بیرون ملک بجلی بھیجنے کا اانقلابی منصوبہ بھی ناکام رہا، تعلیم کے سونامی نے بھی منہ کی کھائی، صحت کا سونامی بھی ڈوب گیا، موروثی سیاست کے خلاف انقلاب بھی خس و خاشاک بن گیا۔ ترقی کا خواب بھی بکھر گیا۔ گو نواز گو بھی ہو چکا ۔ اب عمران خان کے پاس کوئی نعرہ نہیں بچا۔ اب صرف ایک ” وزیر اعظم عمران خان” کی امید بچی ہے اور اس امید کے بر آنے کے کوئی امکان نطر نہیں آ رہے۔
کے پی کے تمام تر سروے تحریک انصاف کے دعووں کی قلعی کھول رہی ہے۔ لوگ بد ظن ہیں اور شدت سے بدظن ہیں۔ لہذاتحریک انصاف کو الیکشن میں کے پی کے سے کوئی امید رکھنا حماقت ہے۔ پنجاب کو خان صاحب ان پانچ سالوں میں اپنے آپ سے جتنا متنفر کر چکے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی صوبے نے دو ہزار گیارہ میں خاں صاحب کا سر کا تاج بنا کر رکھا تھا اور اب اسی صوبے میں خان صاحب اپنی پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے لوٹوں میں ٹکٹیں بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سروے عمران خان کو اسی طرح دھوکے دے رہے ہیں جس طرح کے پی کے کی ترقی کے معاملات میں خان صاحب دھوکے میں رہے ہیں۔
الیکشن میں اب صرف ایک ماہ سے زیادہ رہ گیا ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی۔ لیکن عوامی تاثر کی بات کی جائے تو نواز شریف کا بیانیہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے اور لوگ اس بیانیئے کے حق میں ووٹ کی طاقت استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی ذاتی کاوشوں سے تحریک انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کے پی کے اورپنجاب سے تحریک انصاف کے لئے الیکشن کے نتائج بڑے تکلیف دہ ہوں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی کوئی موجودگی نہیں۔ ممکنہ طور پر ستر ، اسی سیٹوں کے خواب دیکھنے والے اس الیکشن کے بعد دھڑام سے پاتال میں گریں گے اور پھر راج کرے گی خلق خدا۔
لوگوں کو ایک حد تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مرحلہ آتا ہے جہاں مدتوں بے وقوف بننے والے واقعات کی کمان اپنے ہاتھ میں تھام لیتے ہیں۔ مائنس ون، ٹو کا فیصلہ وہ خود کرتے ہیں۔اپنے مستقبل کا راستہ متعین کرنے کے لئے جب کوَئی قوم سینہ سپر ہو تو بے بنیاد پروپیگنڈے کا جادو نہیں چل سکتا۔ عمران خان جس سیاسی زوال پر پہنچ چکے ہیں اس کا ادراک شائد ابھی انہیں بھی نہیں ۔ لیکن ایک ماہ کی تو بات ہے۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ یاد رکیھے گا ، اس بار سونامی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

(یہ کالم روزنامہ جنگ میں شائع نہ ہو سکا)

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے