پاکستان پاکستان24

احتساب عدالت میں جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج

جون 21, 2018 2 min

احتساب عدالت میں جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج

Reading Time: 2 minutes

نوازشریف کے خلاف لندن فلیٹس کے مقدمے میں ان کے وکیل خواجہ حارث نے مشترکہ تفتیشی ٹیم (پانامہ جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی حیثیت کو چیلنج کر دیا ہے ۔ خواجہ حارث نے تعزیرات پاکستان کے تحت بار ثبوت ملزم کی بجائے استغاثہ پر ہونے کے قانونی دلائل دیئے  ۔ وکیل کا کہناتھاکہ تفتیشی رپورٹ سے نتیجہ نکالنے کا اختیار صرف عدالت کو ہوتا ہے ۔ جج محمد بشیر نے کہاکہ فریق صفائی نے جے آئی ٹی رپورٹ کا متعلقہ حصہ چیلنج کرنے کی بجائے پوری رپورٹ ہی چیلنج کر دی ہے  ۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کیخلاف لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت کی ، نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے تیسری پیشی پر بھی حتمی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ پانامہ جے آئی ٹی کی حیثیت ایک تفتیشی ایجنسی جیسی تھی ، ایسی ہر ایجنسی کی تفتیش کیلئے قانون وضع ہوتا ہے جس میں طے کیا جاتا ہےکہ کون سی شہادت قابل قبول ہوگی ، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تفتیش کیلئے نیب اور ایف آئی اے جیسا اختیار دیا ،، انہوں نے کہاکہ تعزیرات پاکستان کے تحت تفتیش اور عدالتی کارروائی دو الگ مراحل ہیں ، عدالت نے تفتیشی مواد کی روشنی میں نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے لیکن تفتیشی ایجنسی ہی اگر نتائج نکال دے تو پھر استغاثہ کا کردار کیا رہ جاتا ہے ، جے آئی ٹی سربراہ نے جو نتائج اخذ کئے وہ قابل قبول شہادت نہیں ، دفعہ 161 کے تحت رکارڈ بیان کو استغاثہ اپنے مقاصد کیلئے نہیں بلکہ ملزم اپنے حق کیلئے استعمال کرسکتا ہے ، کسی بیان کی صرف آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ثبوت نہیں مانا جاسکتا جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف ایک تفتیشی رپورٹ ہے ، خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے وہ چیزیں بھی پیش کیں جن کا مقدمہ سے تعلق نہیں تھا ، کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنی اور شریف خاندان کی فنانشل اسٹیمنٹ کا بھی اس مقدمہ سے تعلق نہیں، خواجہ حارث نے کہاکہ تفتیشی رپورٹ میں رائے ہوتی ہے اسی لیے اسے قابل قبول شہادت نہیں مانا جاسکتا ، اس موقع پر جج محمد بشیر نے خواجہ حارث سے کہاکہ آپ جےآئی ٹی کا کوئی متعلقہ حصہ چیلنج کرتےآپ نے تو پوری رپورٹ ہی چیلنج کردی ، کیس کے اس مرحلے پر اب یہ معاملہ طے کرنا ہوگا ، خواجہ حارث نے کہاکہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلے بھی اعتراض اٹھاتے رہے تھے ، واجد ضیا نے جن گواہوں کا ذکر کیا انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جبکہ قانون شہادت کے مطابق ان گواہوں کا عدالت میں پیش ہونا ضروری تھا ، جے آئی ٹی میں تو پورا تھیسیس لکھا گیا ہے کہ فلاں نے فلاں جھوٹ بولا ، ایسا تعین توعدالت کرتی ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے، خواجہ حارث نے کہاکہ انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کے رائے والے حصے پر حتمی دلائل دیدیئے ہیں ، اب دفعہ 161 کے بیان والے رپورٹ کے دوسرے حصے اور مواد والے تیسرے حصے پر عدالت کی معاونت کرنی ہے،بعد ازاں سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے