کالم

ذرا سوچیے !

جون 29, 2018 3 min

ذرا سوچیے !

Reading Time: 3 minutes

قراۃ العین اکرم چیمہ

ایک صحافی ہونے کے ناتے نہ میری کسی مخصوص سیاسی جماعت سے وابستگی ھے نہ ہی ہوگی لیکن ایک عام انسان ہونے کی حیثیت سے سوچتی ہوں سیاستدانوں کےساتھ عوام بھی شریکِ جرم ضرور ہیں ۔ جن لوگوں کو سیاستدانوں کو پرکھنے کا درست طریقہ کار یا سمجھ بوجھ نہ ہو وہ اپنے لیے بہتر کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں ۔

عوام سیاستدانوں کو جانچتے بھی ہیں تو سیاست سے زیادہ ان کی انفرادی اور ازدواجی زندگیوں پر کہ وہ کیا کھا رہے، کس وقت کیا نوش فرما رہے، کتنی شادیاں کیں، کس سے کی ، حال ہی میں عمران خان کا عمرہ کیلے دورہ سعودیہ عرب پر تنقید ، کیا درست ھے کیا نہیں کچھ نہیں پتا بس تنقید پے تنقید !

اتنی تنقید تو تجزیہ کار نے کبھی نہیں کہ جتنی عوام نے کر دی، اتنی فتوے کسی مفتی نے بھی نہ لگاے جتنے عوام نے لگا دیے ، اور عوام بھی وہ جسکی اکثریت خود بھی عمرہ کے اداب اور ارکان سے واقف نہیں،
اور آج کل عمران خان کا پاک پتن کا دورہ ایسے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جیسے وہ پہلے سیاستدان ہیں جو کسی مزار پر گئے اور حاضری دی، جبکہ سیاست دان بیشتر اوقات جلسوں ، کانفرنسز اور الیکشن میں خیر اور عزت و جیت کیلے دربار اور مزاروں پر حاضر ہوتے رہے،
میں جب بھی سوشل میڈیا سکرال کروں افسوس ہوتا ھے کہ چیرمین تحریکِ انصاف عمران خان کا پاک پتن پر حاضری اور سجدے اور بوسے جو کہ کیے بھی نہیں اسکو خان صاحب سے وابستہ کر کے مشہور کر دیا اور تو اور فتوے بھی انے لگ گئے ۔

یہ وہ پروپگینڈہ گروپ ھے جس کو خود سجدے کا مطلب نہیں معلوم، عوام کی آدھی تعداد وہ ھے، میں یقین سے لکھ سکتی ہیں کہ انہوں نے پاک پتن حاضری کی ویڈیو بھی نہیں دیکھی،
چونکہ معاملہ مذہب سے جڑا تھا تو عمران خان نے دینا نیوز کو انٹرویو دیتے وضاحت کر دی لیکن اگر اب بات کرلی جاے کہ عمران نے ریحام سے شادی کی تو غلط، عمران نے بشریٰ بی بی سے شادی کی تو غلط لیکن سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سرکاری ٹی وی کی اینکر سے خفیہ شادی کی تو درست، جبکہ عمران خان کا نکاح خفیہ نہیں رہا ،لیکن تنقید اسکو خفیہ رکھے گئے کاموں جیسی دی گئی ،

تو اگر عوام کا یہی معیار رہا جانچنے اور پرکھنے کا تو پھر جیسی عوام ویسا حکمران ، میں یقین تو نہیں رکھتی نا رکھ سکتی ہو نا یقین دلا سکتی ہوں کہ کپتان تبدیلی لائیگا لیکن یہ عوام تبدیلی کی مستحق نہیں!
کیونکہ اتنا موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو نہیں تنقید کا نشانہ بنایا جتنا کہ نئے انے والے کو؟
کیوں ؟ کیا وجہ ھے اسکی؟؟ کیوں عمران کی شادی، عمران کی عبادت، دوست اور سیاست توجہ کا اہم مرکز ہیں اور دیگر سیاست دان نہیں، کیوں؟
جب یک ظرفہ سوچ اور برادری سسٹم کو مدِ نظر رکھ کر ووٹ دیا جائگا تو پھر کرپٹ لیڈر ہی اینگے چاہے وہ نواز زرداری یا عمران ہو یا انکی نسل، ہم کیسی مکمل دودھ کے دھلے کا انتخاب تو نہیں کر سکتے لیکن اسکا انتخاب ضرور کر سکتے جس کا کرپٹ حکمرانوں کی لسٹ میں نام سب سے نیچے ہو ، لیکن ہم ووٹ دیتے ہیں تو اسکو جسکو کوئی دوست احباب یا رشتہ دار کہے یا اگر کوئی برادری میں سے کسی کا واقف امیدوار ہو!
جب تک ہم اس سسٹم کو نہیں بدلیں گے تو سیاسی وسماجی حالت بدتر ہوتی جائیگی،
اول تو ہم صرف نفرت بھری تنقید کرتے ہیں،اور ہم میں سے اچھے خاصی تعداد میں لوگ ووٹ ہی نہیں دیتے، دیتے بھی ہیں تو کس بنا پر اور کن شرائط پر؟
خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خود خیال جسکو اپنی حالت بدلنے کا !

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے